حمزہ شہباز شریف کے لیے تین عیدیں
ساری دُنیا میں ہمیں عارف علوی صاحب اور عمر چیمہ صاحب نے، اپنے لیڈر کے حکم پر، تماشہ بنائے رکھا
DIJKOT:
آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ، پنجاب، تقریباً ایک ماہ سے مسلسل آئینی اور انتظامی بحرانوں کی زَد میں رہا۔ خدا خدا کرکے اب یہ بحران دَم توڑ چکے ہیں ۔ میاں محمد حمزہ شہباز شریف نے وزیر اعلیٰ پنجاب کا حلف اُٹھا لیا ہے۔
30اپریل 2022 کی دوپہر وہ اپنے گھر سے خود گاڑی ڈرائیو کرکے لاہور کے گورنر ہاؤس پہنچے ۔ وہ جس صوبے کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے جا رہے تھے، اُن کا خود گاڑی ڈرائیو کرکے گورنر ہاؤس پہنچنا دراصل ایک علامتی (Symbolic)اظہار بھی تھا۔ گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر ، اُن کے ساتھ، نون لیگ کی نائب صدر اور نواز شریف کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز شریف بھی تشریف فرما تھیں۔
یہ بھی ایک سمبل ہی تھا ، یہ بتانے کے لیے کہ حمزہ شہباز شریف کے وزیر اعلیٰ بننے کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ شریف خاندان متحد اور یکجہت ہے ۔ یہ اتفاق ہی دراصل شریف خاندان کا سیاسی ٹرید مارک بھی ہے ۔ اس مضبوط اتحاد و اتفاق کی برکت نے اُن عناصر کی پیشگوئیوں کو شرمندہ کر دیا ہے جو ''نون'' سے ''شین'' نکالنے کے درپے اور خواہشمند تھے۔
نَو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب جناب حمزہ شہباز کی یہ خوش بختی (اور آزمائش بھی) ہے کہ وہ ایسے ایام میں وزیر اعلیٰ منتخب ہُوئے ہیں جب اُن کے والدِ گرامی وزیر اعظم پاکستان ہیں ۔ وزیر اعظم جناب شہباز شریف عین اُس وقت حرم شریف میں نوافل ادا کررہے تھے جب لاہور میں اُن کے صاحبزادہ صاحب وزیر اعلیٰ کا حلف اُٹھا رہے تھے ۔ حمزہ شہباز کی صورت میں چھٹی بار تختِ لاہور شریف خاندان کے پاس آیا ہے ۔
حمزہ شہباز شریف کے والد صاحب بھی پنجاب کے تین بار وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ اُن کے تایا جان بھی دو بار وزیر اعلیٰ پنجاب اور تین بار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہو چکے ہیں۔ حمزہ صاحب کے لیے یہ اعزاز واقعی غیر معمولی اور منفرد ہے ۔ شہباز شریف 46سال کے تھے جب وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہُوئے ۔ حمزہ شہباز نے 48سال کی عمر میں وزیر اعلیٰ کا تاج پہنا ہے ۔گویا حمزہ شہباز شریف اقتدار و اختیار کی طاقت اور کرشمہ سازیوں کو گھر ہی میں دیکھتے دیکھتے جوان ہُوئے ہیں۔
ہم توقع رکھ سکتے ہیں کہ یہ تجربات ومشاہدات حمزہ شہباز کو حکومت کاری میں ممد و معاون ثابت ہوں گے۔ اُن کے راستے روشن اور سہل کرنے کے لیے اُن کے تایا جان بھی موجود ہیں اور مقتدر والد گرامی بھی۔ دونوں تجربہ کار ہستیاں حمزہ شہباز شریف کی، قدم قدم پر، رہنمائی کرتے رہیں گے ۔
اُمنگوں بھرے قلب و ذہن کے ساتھ حمزہ شہباز نے ایسے ایام میں وزارتِ اعلیٰ کا حلف اُٹھایا ہے جب عید الفطر کا چاند طلوع ہونے والا ہے ۔یہ ماہتاب حمزہ صاحب کے لیے خوشیاں اور بڑی سیاسی کامیابیاں لے کر اُبھرا ہے ۔ یہ اُن کی دوسری عید بن گئی ہے ۔ تیسری عید اُن کی یہ ہے کہ ابھی صرف 20دن پہلے اُن کے والد گرامی وزیر اعظم پاکستان منتخب ہُوئے تھے ۔ حمزہ شہباز شریف کی سیاسی و اقتداری رہنمائی کے لیے اگرچہ اُن کے تایا جان بھی موجود ہیں اور والد صاحب بھی ، لیکن واقعہ یہ ہے کہ نَومنتخب وزیر اعلیٰ پنجاب اب خود بھی خاصے تجربہ کار ہیں۔
وہ سیاست کے کئی سرد و گرم موسموں کا ذائقہ چکھ چکے ہیں۔ ممبر صوبائی اسمبلی بھی رہے اور رکن قومی اسمبلی بھی ۔ صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا تجربہ بھی رکھتے ہیں ۔ جنرل صدر پرویز مشرف کے دَورِ ابتلا میں زندان کے اندھیرے بھی دیکھ چکے ہیں ۔ ایک آمر کے یرغمالی بھی رہ چکے ہیں ۔ اب وہ پچھلے ساڑھے تین برسوں کے دوران یہ تجربہ بھی حاصل کر چکے ہیں کہ اپنے اتحادیوں اور حلیفوں کو کس طرح محبت اور اخوت کے جذبوں میں مسلسل باندھ کررکھنا ہے ۔ یہ تجربات انھیں وزارتِ اعلیٰ کی '' مشترکہ کشتی'' آگے بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوں گے ۔
وزیر اعلیٰ پنجاب بننا سہل اور آسان نہیں ہے ۔ اس کا تلخ تجربہ خود حمزہ شہباز بھی حاصل کر چکے ہوں گے۔ اُن کے پاکستان کے سب سے بڑے اور طاقتور صوبے کا وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی ، جناب عمران خان اور چوہدری پرویزالٰہی کو شکست ہُوئی ہے ۔ یہ شکست خوردہ عناصر نئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو آرام سے حکومت نہیں کرنے دیں گے ۔ یہ ہزیمت یافتہ طاقتور افراد ابھی اپنے تازہ تازہ زخم چاٹ رہے ہیں۔ فارغ ہوتے ہی پھر حملہ آور ہوں گے۔
حمزہ شہبازکو ان متعدد اور متنوع امتحانات کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو ذہنی طور پرتیار رکھنا ہوگا۔حمزہ صاحب کو یہ وزارتِ اعلیٰ تب ملی ہے جب وہ تین بار عدالتِ عالیہ کے دروازے پر انصاف کے حصول کے لیے دستک دے چکے تھے۔یہ تلخ تجربات بآسانی فراموش نہیں کیے جا سکتے ۔ عمران خان اور چوہدری پرویز الٰہی، بوجوہ، مسلسل حمزہ شہباز کے تعاقب میں ہیں؛ چنانچہ نئے وزیر اعلیٰ صاحب کو اپنی آنکھیں ہمہ دَم کھلی رکھنا ہوں گی ۔
آئیڈیل صورت تو یہ تھی کہ صوبہ پنجاب اور مرکز میں عدم اعتماد کی تحریکوں کی کامیابی کے بعد شائستہ اور ہموار اسلوب میں انتقالِ اقتدار کی منازل طے ہو جاتیں۔ ایسا اصولی اور خوش کن منظر دیکھنا ،شومئی قسمت سے ،مگر حمزہ صاحب کے مقدر میں نہ تھا۔ صدرِ مملکت جناب ڈاکٹر عارف علوی نے نَو منتخب وزیر اعظم جناب شہبازشریف سے حلف نہ لے کر ایک ناقابلِ رشک مثال قائم کی ہے ۔ اُن سے قطعی طور پر ایسی توقع نہیں تھی۔
عارف علوی صاحب نے آئینِ پاکستان کا محافظ بننے کے بجائے اپنے لیڈر کی ضد کا پاسبان بنناثابت کیا ہے ۔ اُن کے تتبع میں پنجاب کے گورنر ، جناب عمر چیمہ، نے بھی وہی چالیں چلیں اور وہی ہتھکنڈے استعمال کیے جو ڈاکٹرعارف علوی بروئے کار لا چکے تھے ۔ ان ہتھکنڈوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ تقریباً ایک مہینے تک آئینی اور انتظامی بحرانوں کی گرفت میں رہا۔
ساری دُنیا میں ہمیں عارف علوی صاحب اور عمر چیمہ صاحب نے، اپنے لیڈر کے حکم پر، تماشہ بنائے رکھا۔ اس ''تماشے'' کا ایک قابلِ قدر پہلو یہ بھی بہرحال سامنے آیا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے کسی قسم کی دخل اندازی نہیں کی ۔ انھوں نے واقعی نیوٹرل رہ کر سبھی سیاستدانوں کو کھل کر یہ موقع فراہم کیا ہے کہ اپنے جھگڑے اور تنازعات خود نبیڑیں ۔
میاں محمد حمزہ شہباز شریف پنجاب کے21ویں وزیر اعلیٰ تو منتخب ہو چکے ہیں لیکن یہ کسک باقی رہے گی کہ اُن کی حلف برداری کی تقریب میں، کاش، اُن کے سبھی سیاسی حریف بھی شریک ہوتے ۔ تازہ تازہ سابق ہونے والے وزیر اعلیٰ، عثمان بزدار ، بھی وہاں موجود ہوتے۔ ایسا خوش کن ، خوابناک اور خوشگوار منظر مگر سامنے نہ آ سکا ۔ ہم نے یکم مئی 2022کو یہ منظر دیکھا اور سُنا ہے کہ نئے بھارتی آرمی چیف، جنرل منوج پانڈے، نے سابق بھارتی آرمی چیف ( جنرل نروانے کی جگہ) اپنا چارج سنبھال لیا۔ کوئی شور اُٹھا نہ میڈیا نے گرد اُڑائی۔ انتقالِ اقتدار یا انتقالِ عہدہ کی رسم smoothlyاپنے انجام کو پہنچ گئی۔ خدایا، ہماری قسمت میں یہ ہمواری اور سیدھ کیوں نہیں ہے ؟
آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ، پنجاب، تقریباً ایک ماہ سے مسلسل آئینی اور انتظامی بحرانوں کی زَد میں رہا۔ خدا خدا کرکے اب یہ بحران دَم توڑ چکے ہیں ۔ میاں محمد حمزہ شہباز شریف نے وزیر اعلیٰ پنجاب کا حلف اُٹھا لیا ہے۔
30اپریل 2022 کی دوپہر وہ اپنے گھر سے خود گاڑی ڈرائیو کرکے لاہور کے گورنر ہاؤس پہنچے ۔ وہ جس صوبے کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے جا رہے تھے، اُن کا خود گاڑی ڈرائیو کرکے گورنر ہاؤس پہنچنا دراصل ایک علامتی (Symbolic)اظہار بھی تھا۔ گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر ، اُن کے ساتھ، نون لیگ کی نائب صدر اور نواز شریف کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز شریف بھی تشریف فرما تھیں۔
یہ بھی ایک سمبل ہی تھا ، یہ بتانے کے لیے کہ حمزہ شہباز شریف کے وزیر اعلیٰ بننے کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ شریف خاندان متحد اور یکجہت ہے ۔ یہ اتفاق ہی دراصل شریف خاندان کا سیاسی ٹرید مارک بھی ہے ۔ اس مضبوط اتحاد و اتفاق کی برکت نے اُن عناصر کی پیشگوئیوں کو شرمندہ کر دیا ہے جو ''نون'' سے ''شین'' نکالنے کے درپے اور خواہشمند تھے۔
نَو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب جناب حمزہ شہباز کی یہ خوش بختی (اور آزمائش بھی) ہے کہ وہ ایسے ایام میں وزیر اعلیٰ منتخب ہُوئے ہیں جب اُن کے والدِ گرامی وزیر اعظم پاکستان ہیں ۔ وزیر اعظم جناب شہباز شریف عین اُس وقت حرم شریف میں نوافل ادا کررہے تھے جب لاہور میں اُن کے صاحبزادہ صاحب وزیر اعلیٰ کا حلف اُٹھا رہے تھے ۔ حمزہ شہباز کی صورت میں چھٹی بار تختِ لاہور شریف خاندان کے پاس آیا ہے ۔
حمزہ شہباز شریف کے والد صاحب بھی پنجاب کے تین بار وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ اُن کے تایا جان بھی دو بار وزیر اعلیٰ پنجاب اور تین بار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہو چکے ہیں۔ حمزہ صاحب کے لیے یہ اعزاز واقعی غیر معمولی اور منفرد ہے ۔ شہباز شریف 46سال کے تھے جب وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہُوئے ۔ حمزہ شہباز نے 48سال کی عمر میں وزیر اعلیٰ کا تاج پہنا ہے ۔گویا حمزہ شہباز شریف اقتدار و اختیار کی طاقت اور کرشمہ سازیوں کو گھر ہی میں دیکھتے دیکھتے جوان ہُوئے ہیں۔
ہم توقع رکھ سکتے ہیں کہ یہ تجربات ومشاہدات حمزہ شہباز کو حکومت کاری میں ممد و معاون ثابت ہوں گے۔ اُن کے راستے روشن اور سہل کرنے کے لیے اُن کے تایا جان بھی موجود ہیں اور مقتدر والد گرامی بھی۔ دونوں تجربہ کار ہستیاں حمزہ شہباز شریف کی، قدم قدم پر، رہنمائی کرتے رہیں گے ۔
اُمنگوں بھرے قلب و ذہن کے ساتھ حمزہ شہباز نے ایسے ایام میں وزارتِ اعلیٰ کا حلف اُٹھایا ہے جب عید الفطر کا چاند طلوع ہونے والا ہے ۔یہ ماہتاب حمزہ صاحب کے لیے خوشیاں اور بڑی سیاسی کامیابیاں لے کر اُبھرا ہے ۔ یہ اُن کی دوسری عید بن گئی ہے ۔ تیسری عید اُن کی یہ ہے کہ ابھی صرف 20دن پہلے اُن کے والد گرامی وزیر اعظم پاکستان منتخب ہُوئے تھے ۔ حمزہ شہباز شریف کی سیاسی و اقتداری رہنمائی کے لیے اگرچہ اُن کے تایا جان بھی موجود ہیں اور والد صاحب بھی ، لیکن واقعہ یہ ہے کہ نَومنتخب وزیر اعلیٰ پنجاب اب خود بھی خاصے تجربہ کار ہیں۔
وہ سیاست کے کئی سرد و گرم موسموں کا ذائقہ چکھ چکے ہیں۔ ممبر صوبائی اسمبلی بھی رہے اور رکن قومی اسمبلی بھی ۔ صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا تجربہ بھی رکھتے ہیں ۔ جنرل صدر پرویز مشرف کے دَورِ ابتلا میں زندان کے اندھیرے بھی دیکھ چکے ہیں ۔ ایک آمر کے یرغمالی بھی رہ چکے ہیں ۔ اب وہ پچھلے ساڑھے تین برسوں کے دوران یہ تجربہ بھی حاصل کر چکے ہیں کہ اپنے اتحادیوں اور حلیفوں کو کس طرح محبت اور اخوت کے جذبوں میں مسلسل باندھ کررکھنا ہے ۔ یہ تجربات انھیں وزارتِ اعلیٰ کی '' مشترکہ کشتی'' آگے بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوں گے ۔
وزیر اعلیٰ پنجاب بننا سہل اور آسان نہیں ہے ۔ اس کا تلخ تجربہ خود حمزہ شہباز بھی حاصل کر چکے ہوں گے۔ اُن کے پاکستان کے سب سے بڑے اور طاقتور صوبے کا وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی ، جناب عمران خان اور چوہدری پرویزالٰہی کو شکست ہُوئی ہے ۔ یہ شکست خوردہ عناصر نئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو آرام سے حکومت نہیں کرنے دیں گے ۔ یہ ہزیمت یافتہ طاقتور افراد ابھی اپنے تازہ تازہ زخم چاٹ رہے ہیں۔ فارغ ہوتے ہی پھر حملہ آور ہوں گے۔
حمزہ شہبازکو ان متعدد اور متنوع امتحانات کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو ذہنی طور پرتیار رکھنا ہوگا۔حمزہ صاحب کو یہ وزارتِ اعلیٰ تب ملی ہے جب وہ تین بار عدالتِ عالیہ کے دروازے پر انصاف کے حصول کے لیے دستک دے چکے تھے۔یہ تلخ تجربات بآسانی فراموش نہیں کیے جا سکتے ۔ عمران خان اور چوہدری پرویز الٰہی، بوجوہ، مسلسل حمزہ شہباز کے تعاقب میں ہیں؛ چنانچہ نئے وزیر اعلیٰ صاحب کو اپنی آنکھیں ہمہ دَم کھلی رکھنا ہوں گی ۔
آئیڈیل صورت تو یہ تھی کہ صوبہ پنجاب اور مرکز میں عدم اعتماد کی تحریکوں کی کامیابی کے بعد شائستہ اور ہموار اسلوب میں انتقالِ اقتدار کی منازل طے ہو جاتیں۔ ایسا اصولی اور خوش کن منظر دیکھنا ،شومئی قسمت سے ،مگر حمزہ صاحب کے مقدر میں نہ تھا۔ صدرِ مملکت جناب ڈاکٹر عارف علوی نے نَو منتخب وزیر اعظم جناب شہبازشریف سے حلف نہ لے کر ایک ناقابلِ رشک مثال قائم کی ہے ۔ اُن سے قطعی طور پر ایسی توقع نہیں تھی۔
عارف علوی صاحب نے آئینِ پاکستان کا محافظ بننے کے بجائے اپنے لیڈر کی ضد کا پاسبان بنناثابت کیا ہے ۔ اُن کے تتبع میں پنجاب کے گورنر ، جناب عمر چیمہ، نے بھی وہی چالیں چلیں اور وہی ہتھکنڈے استعمال کیے جو ڈاکٹرعارف علوی بروئے کار لا چکے تھے ۔ ان ہتھکنڈوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ تقریباً ایک مہینے تک آئینی اور انتظامی بحرانوں کی گرفت میں رہا۔
ساری دُنیا میں ہمیں عارف علوی صاحب اور عمر چیمہ صاحب نے، اپنے لیڈر کے حکم پر، تماشہ بنائے رکھا۔ اس ''تماشے'' کا ایک قابلِ قدر پہلو یہ بھی بہرحال سامنے آیا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے کسی قسم کی دخل اندازی نہیں کی ۔ انھوں نے واقعی نیوٹرل رہ کر سبھی سیاستدانوں کو کھل کر یہ موقع فراہم کیا ہے کہ اپنے جھگڑے اور تنازعات خود نبیڑیں ۔
میاں محمد حمزہ شہباز شریف پنجاب کے21ویں وزیر اعلیٰ تو منتخب ہو چکے ہیں لیکن یہ کسک باقی رہے گی کہ اُن کی حلف برداری کی تقریب میں، کاش، اُن کے سبھی سیاسی حریف بھی شریک ہوتے ۔ تازہ تازہ سابق ہونے والے وزیر اعلیٰ، عثمان بزدار ، بھی وہاں موجود ہوتے۔ ایسا خوش کن ، خوابناک اور خوشگوار منظر مگر سامنے نہ آ سکا ۔ ہم نے یکم مئی 2022کو یہ منظر دیکھا اور سُنا ہے کہ نئے بھارتی آرمی چیف، جنرل منوج پانڈے، نے سابق بھارتی آرمی چیف ( جنرل نروانے کی جگہ) اپنا چارج سنبھال لیا۔ کوئی شور اُٹھا نہ میڈیا نے گرد اُڑائی۔ انتقالِ اقتدار یا انتقالِ عہدہ کی رسم smoothlyاپنے انجام کو پہنچ گئی۔ خدایا، ہماری قسمت میں یہ ہمواری اور سیدھ کیوں نہیں ہے ؟