چینی اور ہم

حقیقت یہ ہے کہ اس خطے کی بھڑکیلی صورت حال نے پاکستان اور چین کو ایک دوسرے سے مزید قریب تر کردیا ہے


Shakeel Farooqi February 28, 2014
[email protected]

صدر پاکستان ممنون حسین کے چین کے حالیہ کامیاب دورے کے حوالے سے ہم تھوڑی دیر کے لیے بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل منفرد صاحب طرز انگریزی ادیب ایچ۔جی ویلز کی ذہنی اختراع ٹائم مشین پر سوار ہوکر چوتھی کھونٹ (4th Dimension) میں چلے گئے۔ پرانی اور نئی دہلی کے سنگم پر واقع وسیع وعریض رام لیلا میدان کی جلسہ گاہ میں چینی وزیر اعظم چو۔این۔لائی کا پرجوش استقبال اور ''ہندی چینی بھائی بھائی ''کے فلک شگاف نعروں کی مسلسل اور نہ تھمنے والی گونج میں وزیر اعظم ہندوستان پنڈت جواہر لعل نہرو کے چینی رہنما سے بغل گیر ہونے کا منظر پردہ سیمیں پر چلنے والی فلم کی طرح یک بہ یک نمودار ہوگیا۔ اس وقت کسی کے سان و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ بہت جلد یہ پورا منظرنامہ تبدیل ہوجائے گا اور ایک نئی صورت حال پیدا ہوجائے گی۔

وقت کی ایک نئی کروٹ۔ بھارت کی چین سے پنجہ آزمائی اور اس کے بعد نیفا اور لداغ کی سرحدوں پر ہندوستان کی افواج کی پسپائی کے نتیجے میں بھارتی سورماؤں کی رسوائی۔

اور پھر ایک اور نیا منظر نامہ۔ پاک چین دوستی کے ایک سنہری دور کا آغاز۔ صدر ایوب خان کی دعوت پر 1964 کی ایک تاریخی اور سنہری سہ پہر چینی وزیر اعظم چو این لائی کی پاکستان کے آٹھ روزہ سرکاری دورے پر 48 رکنی وفد کے ہمراہ کراچی میں آمد کے ایل ایم کی چارٹرڈ فلائٹ سے دن کے ٹھیک 2 بج کر 17 منٹ پر کراچی ایئرپورٹ پہنچنے پر چینی وزیر اعظم کا انتہائی پرتپاک خیرمقدم کیا گیا۔ چین کے وزیر اعظم نے اس دورے پر انتہائی مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا۔ انھوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ مستقبل میں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات مزید وسیع اور مستحکم ہوں گے۔

تب سے آج تک دونوں ممالک کے دوستی کے بندھن مضبوط سے مضبوط تر ہو رہے ہیں اور دونوں جانب قیادتوں کی تبدیلی کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کو مسلسل فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس خطے کی بھڑکیلی صورت حال نے پاکستان اور چین کو ایک دوسرے سے مزید قریب تر کردیا ہے۔ صدر پاکستان کے حالیہ دورے کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں بالکل واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کے خلاف جدوجہد میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوئے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ چین کو مشرقی ترکستان میں اور پاکستان کو عمومی طور پر اندرون ملک دہشت گردی اور انتہا پسندی کا چیلنج درپیش ہے دونوں ممالک کا یہ عزم صمیم بڑی اہمیت رکھتا ہے۔

شنگھائی شہر نے جو زبردست ترقی کی ہے اس پر صدر پاکستان نے انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔ اس موقعے پر صدر کو بتایا گیا کہ 121 منزلوں پر مشتمل چین کی سب سے بلند فلک بوس عمارت بھی شنگھائی میں ہی زیر تعمیر ہے۔ شنگھائی سینٹر ٹاور نامی یہ عمارت آیندہ سال تک مکمل ہوجائے گی جس سے شہر کی شہرت کو چار چاند لگ جائیں گے۔ 2014 میں شنگھائی ایکسپو کی میزبانی کا شرف بھی شنگھائی شہر کو ہی حاصل ہوا تھا۔ یہ شہر چین کی برق رفتار ترقی کا جیتا جاگتا شاہکار ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صدر ممنون کا چین کا یہ دورہ ایسے موقعے پر ہوا جب شنگھائی اور کراچی کے جڑواں شہر ہونے کی 30 ویں سالگرہ کی تقریبات کا اہتمام کیا جا رہا تھا۔

شنگھائی کے ڈپٹی میئر نے صدر ممنون کے اعزاز میں ایک شاندار عشایے کا اہتمام کیا۔ ڈپٹی میئر توگورنگ شاؤ نے کہا کہ صدر ممنون کے چین کے اولین دورے سے دونوں ممالک کے باہمی تعاون کو مزید فروغ حاصل ہوگا اور کراچی اور شنگھائی کے جڑواں شہروں کی قربت میں بھی اضافہ ہوگا۔ خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے صدر پاکستان نے کہا کہ وہ شنگھائی کے دورے سے بہت خوشی محسوس کر رہے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ چین کے معاشی مرکز شنگھائی کی تیز رفتار ترقی کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے ہیں۔

چین اور پاکستان کی دوستی دونوں ممالک کی نیک نیتی، ایک دوسرے کی خودمختاری اور سلامتی کے احترام کے علاوہ ایک دوسرے کی خیر خواہی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ خیر خواہی کے اس جذبہ صادق کی جڑیں دونوں حکومتوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ دونوں ممالک کے عوام کے دلوں کی گہرائیوں میں پیوست ہیں۔ بلاشبہ پاک چین دوستی کی بنیادیں ایک دوسرے پر مکمل بھروسے اور بھرپور تعاون پر استوار ہیں۔ آزمائش اور مشکل کی ہر گھڑی میں دونوں ممالک نے ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا ہے۔ اس کے علاوہ معاشی اور سائنسی ترقی کے میدانوں میں بھی دونوں ممالک ایک دوسرے کے تجربات سے بھرپور استفادہ کر رہے ہیں۔

چین کی حیرت انگیز ترقی پر مشرق ہی نہیں بلکہ پورا مغرب بھی انگشت بدنداں ہے۔ جی ہاں وہی مغرب جس نے چینی قوم کو افیونی قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔ اقوام مغرب کو اپنی ترقی پر نہ صرف بہت زیادہ گھمنڈ تھا بلکہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک وقت وہ بھی آئے گا جب چینی قوم زندگی کے ہر شعبے میں حیران کن ترقی کرے گی بلکہ امریکا جیسے ملک میں بھی اس کی کامیابی کے ڈنکے بجیں گے۔ یہ وہی چینی قوم ہے جو کبھی خواب غفلت میں گم تھی لیکن جب بیدار ہوئی تو ترقی کی دوڑ میں دنیا کے تمام ممالک کے لیے ایک مثال بن گئی۔ مگر یہ قابل تقلید ترقی مخلص اور پرعزم قیادت اور عوامی سطح پر انتھک محنت اور قربانی کی مرہون منت ہے۔

ایک وقت وہ بھی تھا جب چین کو بھی بے شمار اقتصادی مسائل کا سامنا تھا۔ ملکی صنعتیں نہ ہونے کے برابر تھیں اور روز افزوں آبادی کا بوجھ اس کے لیے عذاب بنا ہوا تھا۔ ایک سے بڑھ کر ایک چیلنج ملک و قوم کو درپیش تھے۔ ایسے حالات میں چینی قوم کے سامنے دو ہی راستے تھے۔ ایک یہ کہ چیلنجوں سے گھبرا کر شکست تسلیم کرلی جائے یا پھر چیلنجوں کا پامردی سے مقابلہ کرکے انھیں موقعوں میں تبدیل کردیا جائے۔ پہلا راستہ مکمل تباہی کی طرف لے جانے والا تھا جوکہ اجتماعی خودکشی کے مترادف تھا جب کہ دوسرا راستہ نہ صرف نجات بلکہ سرفرازی اور سر بلندی کی سمت گامزن کرنے والا تھا۔

آزمائش و ابتلا کی اس گھڑی میں چین کو ایک دانا و بینا اور مخلص و پرعزم قیادت میسر آئی جس نے اپنی قوم کو خواب غفلت سے جھنجھوڑ کر ترقی و فلاح کی راہ پر گامزن کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ بس پھر کیا تھا گویا طبل جنگ بج گیا اور پوری قوم اپنی ولولہ انگیز اعلیٰ قیادت کی آواز پر لبیک کہتی ہوئی پوری مستعدی اور عزم محکم کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی۔ راستہ پرخطر بھی تھا اور دشوار بھی بے شمار رکاوٹوں کے کوہ گراں راہ میں حائل بھی ہوئے۔ بڑے بڑے نشیب و فراز بھی آئے۔ مگر اپنی قیادت کے اشارے پر چلنے والی چینی قوم نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور ترقی و سربلندی کا یہ سفر لمحہ بہ لمحہ تاحال جاری ہے۔

اللہ تعالیٰ نے وطن عزیز پاکستان کو ہر طرح کی نعمتوں سے نوازا اور بے تحاشہ وسائل سے مالا مال کیا ہے۔ ہماری دھرتی کی کوکھ میں بے شمار خزانے دفن ہیں۔ افرادی قوت کی بھی ہمارے یہاں کوئی کمی نہیں ہے۔ بڑے سے بڑے ماہرین اور اعلیٰ سے اعلیٰ دماغ ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ ہمارے لوگ بلا کے محنتی اور جفاکش بھی ہیں۔ عالم یہ ہے کہ یہ لوگ بیرونی ممالک میں خدمات انجام دے کر ملک و قوم کا نام روشن کر رہے ہیں اور قیمتی زرمبادلہ بھی کما رہے ہیں۔ کمی صرف اس مخلص اور باکمال قیادت کی ہے جو چینیوں کی طرح ہمیں متحد اور یکجا کرکے ترقی کی راہ پر گامزن کرے اور تمام قدرتی اور افرادی وسائل سے نہایت ایمانداری اور جذبہ حب الوطنی کے ساتھ بھرپور استفادہ کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں