جامعہ کراچی دھماکا محرکات کا سدباب کیا جائے

بلوچ قوم کے تحفظات دور کیے جائیں، اور شدت پسند جماعتوں کا سر سختی سے کچلا جائے

بلوچ عسکریت پسند جماعتیں اکثر و بیشتر ملک کی سالمیت کے خلاف مسلح کارروائیاں کرتی رہتی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

VIENNA/SEOUL:
آج مجھے گھنگھریالے بالوں والا ظفر یاد آرہا ہے جو بلوچی بھی تھا اور جامعہ سے محبت بھی کرتا تھا۔ کئی بلوچ طلبہ و طالبات جنہیں میں نے پڑھایا وہ ان سب میں نمایاں تھا۔ چند روز قبل جامعہ کراچی میں جو واقعہ ہوا اس میں نامزد شاری بلوچ بھی تو ویسی ہی تھی، سب بلوچوں کی طرح مضبوط کاٹھی رکھنے والی، خوبصورت کالی آنکھوں والی، پرکشش مسکراہٹ والی یا بہت سوچنے والی۔ اس کی چمکتی ہوئی آنکھیں دیکھ کر بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ وہ زندگی سے اتنی نفرت کرتی ہوگی کہ اپنے اور کئی لوگوں کےلیے باعثِ اجل بن جائے گی۔

بلوچستان سے زولوجی میں ایم ایس سی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کرنے والی شاران عرف برمش ایک پڑھے لکھے سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور ایک ڈینٹسٹ کی رفیقہ حیات تھی۔ اس کے خاندان میں نہ ہی کوئی جبری گمشدگی کا کیس معلوم تھا، نہ ہی وہ کسی ریاستی جبر کا شکار ہوئی تھی۔ پھر اس نے اپنے ننھے منے پانچ سال سے کم عمر بچوں کو تنہائی کے جہنم میں جھونک کر یہ انتہائی قدم کیوں اٹھایا؟ کیا وہ کسی شناختی بحران کا شکار تھی اور اپنا تشخص چاہتی تھی یا کسی نفسیاتی عارضے کا شکار تھی؟ اس نے اس مادر علمی پر وار کیوں کیا جو کئی بلوچوں کی درسگاہ ہے؟

ہزاروں طلبہ و طالبات کو روزانہ خاموشی اور اخلاص سے اپنے دامن میں سمیٹ لینے والی جامعہ کراچی، کراچی کی طرح فقیرانہ مزاج رکھتی ہے۔ جس شہر کےلیے مشہور ہے کہ وہ سب کو اپنی آغوش میں پناہ دیتا ہے، اسی شہر کی ہم مزاج جامعہ، سائنس میں نوے فیصد والوں سے لے کر آرٹس میں پینتالیس فیصد والوں کو دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ نامساعد حالات اور فنڈز کی کمی کے باوجود یہ ''جَگ جامعہ'' ہے، جہاں کسی زبان، رنگ اور نسل والے اکیلے نہیں رہتے، انہیں ساتھی مل جاتے ہیں۔

ایک اے سی والے کمرے میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر جامعہ کی سیکیورٹی پر سوال اٹھانا بہت آسان ہے لیکن اگر آپ چند برس بھی جامعہ کراچی یا کسی بھی بڑی جامعہ سے وابستہ رہے ہیں تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ جامعات بہت آسان ہدف ہوتی ہیں۔ دنیا کی کوئی بھی بڑی جامعہ ہو، اس قسم کے واقعات کےلیے قطعاً تیار نہیں ہوتیں، نہ ہی سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے یہ ممکن ہے کہ ہر آنے جانے والے طالب علم کو چیک کیا جائے۔ اور پھر جامعہ کراچی جس کا حدودِ اربع اسکیم 33 سے گلشن تک پھیلا ہوا ہے، اور جس کے مختلف سمتوں میں کئی داخلی دروازے ہیں، وہاں تو یہ تقریباً ناممکن ہے۔ جامعہ کراچی کے نام سے منسوب یونیورسٹی روڈ پر محکمہ موسمیات کے قریب جامعہ کا اسٹاف گیٹ ہے۔ اس کے علاوہ اسی شاہراہ پر سلور جوبلی گیٹ، ابوالحسن اصفہانی روڈ پر مسکن گیٹ، گلزار ہجری کی سڑک پر دو دروازے اور سپارکو روڈ پر غالباً دو دروازے موجود ہیں، جن میں سے کچھ زیر استعمال ہیں، کچھ برسوں سے مقفل ہیں۔

مذکورہ واقعے میں مبینہ طور پر خود کش حملہ آور خاتون مسکن گیٹ سے رکشے میں داخل ہوئیں۔ بہرحال یہ ناقص سیکیورٹی کےلیے ایک عذرِ لنگ ہوسکتا ہے۔

عملی طور پر جو کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ ہائی پروفائل اداروں یا عمارتوں کے دروازوں پر الگ سے سیکیورٹی اور اسکینرز لگائے جائیں۔ ایچ ای جے، آئی بی اے اور دیگر بڑے اداروں کی اپنی مناسب سیکیورٹی کا انتظام ان اداروں میں موجود ہے۔ لیکن گیٹ کے باہر ہونے والا فدائی حملہ روکنا اس کے باوجود مشکل کام ہے۔ جب حملہ آور کو نہ ہی بچ کر نکلنے کی فکر ہو نہ ہی اپنی زندگی کی، تو نقصان سے بچنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔

حملے میں جامعہ کراچی میں واقع کنفوشیس انسٹیٹیوٹ کے بانی ڈائریکٹر ہوانگ گیپنگ سمیت دو خواتین لیکچرار چین سائی اور ڈنگ مفانگ بھی ہلاک ہوئیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی ڈرائیور خالد بھی موقع پر جاں بحق ہوا۔ ایک لیکچرر اور محافظ زخمی ہیں اور زیر علاج ہیں۔


واقعے کی ذمے داری قبول کرنے والی بلوچ لبریشن آرمی کے پریس ریلیز کے مطابق شاری بلوچ پہلی خاتون خودکش بمبار تھی جس نے بلوچی مزاحمت میں نئی تاریخ رقم کی۔ ان کے مطابق شاری نے دو سال قبل برضا و رغبت فدائی حملہ کرنے والی مجید بریگیڈ میں شمولیت اختیار کی اور چھ ماہ قبل اپنے عزائم کا اعادہ ظاہر کیا۔

اس سے قبل یہی بلوچ لبریشن آرمی، فرنٹیئر کور اور پھر چین کی مختلف تنصیبات کو نشانہ بناتی رہی ہے۔ انہی کی ذیلی مجید بریگیڈ خودکش یا فدائی حملے کرتی ہے جو 2018 میں دالبندین میں چینی انجینئرز کی بس پر حملے اور کراچی میں چین کے سفارت خانے پر حملے کی ذمے داری قبول کرچکی ہے۔ 2019 میں گوادر میں ایک بڑے ہوٹل پر حملہ، نیز 2020 میں کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملے کی ذمے داری بھی بی ایل اے نے قبول کی تھی۔ اور رواں سال نوشکی اور پنجگور میں ایف سی کے ہیڈ کوارٹر پر حملوں میں بھی اسی تنظیم کے ملوث ہونے کے شواہد ملے تھے۔

لیکن بلوچ لبریشن آرمی واحد شدت پسند اور عسکریت پسند جماعت نہیں جو بلوچستان میں مزاحمت کر رہی ہے۔ بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ نیشنل گارڈ، بلوچ ریپبلیکن آرمی وغیرہ چند جماعتیں ہیں جو اکثر و بیشتر مسلح کارروائیاں کرتی رہتی ہیں۔

بہرحال یہ ایک ایسا سانحہ ہے جس کے دور رس نتائج ہوں گے اور ذمے داران کا ہدف بھی یہی تھا جو انہوں نے حاصل کرلیا۔ دھماکا کرنے والوں کو بھی علم تھا کہ اس دھماکے سے جتنا جسمانی نقصان ہوگا اس سے کہیں زیادہ دیرپا اس کے سفارتی اور نفسیاتی مضمرات ہوں گے۔ غیر ملکیوں کےلیے پاکستان کو غیر محفوظ ملک تصور کیا جائے گا، یہاں موجود بین الاقوامی منصوبے متاثر ہوں گے اور خصوصاً چین کے اعتماد اور سی پیک کے منصوبے کو دھچکا لگے گا۔ اپنے ویڈیو پیغام میں یہ تنظیم کھلے بندوں کہہ چکی ہے کہ اسے بلوچستان میں کسی بھی قسم کی بین الاقوامی سرگرمی منظور نہیں۔

ان دھمکیوں کا فوری سدباب اسی طرح ممکن ہے کہ ایک مربوط اور موثر سفارتی حکمت عملی ترتیب دی جائے جس کے ذریعے چین اور دیگر دوست ممالک کو اعتماد میں لیا جائے۔ اور پاکستان میں موجود غیر ملکی اداروں کی سیکیورٹی مضبوط کی جائے۔ لیکن یہی طاقت سے مزاحمت کا طریقہ کار بلوچستان میں برسوں سے رائج ہے اور اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں نکلے ہیں۔

لہٰذا یہ تمام اقدام وقتی اور جزوی ہوں گے جب تک اصل مسئلے کی طرف توجہ نہ دی جائے۔ مستقل طور پر ایسے واقعات کے سدباب کےلیے بہت ضروری ہے کہ بلوچستان کے عوام کا احساس محرومی دور کیا جائے، ان کے مسائل کو سنجیدگی سے لیا جائے، خصوصاً لاپتہ افراد کا معاملہ حل کیا جائے۔ ان کی گرفتاریاں ظاہر کی جائیں اور ان پر جو الزامات ہیں ان پر عدالتی کارروائی کی جائے۔ انہیں وہ تمام بنیادی سہولیات مہیا کی جائیں جو ایک عام پاکستانی کو میسر ہیں۔ بلوچوں کے سیاسی شعور اور مطالبات کو ان کا گناہ نہ بنایا جائے، بلکہ اس رویے سے اجتناب کیا جائے جو انہیں دشمنانِ وطن کا آلہ کار بنا دیتی ہیں۔ کیونکہ تاریک راہوں میں کیے گئے ظلم اکثر بغاوتوں کو جنم دیتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story