پیپلز پارٹی کی اپوزیشن سیاست

پی پی کی عادت ہےکہ جہاں وہ اکثریت میں ہووہاں وہ اپنےمفادکومدنظر رکھ کرفیصلہ کرتی ہے اورحلیفوں کو اعتماد میں نہیں لیتی

پیپلز پارٹی 5 سال حکومت کرنے کے بعد اب موجودہ حکومت میں گزشتہ 9 ماہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے اور پی پی کے اپنے دو حلیفوں اے این پی اور (ق) لیگ کے سینیٹروں کی طرف سے پی پی پر حکومت کی فرینڈلی اپوزیشن کا الزام اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے لگایا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے برعکس سینیٹ میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والے لیڈروں چوہدری اعتزاز اور میاں رضا ربانی کا کردار مختلف ہے اور یہ دونوں انتہا پر پہنچ کر حکومت کی مخالفت اہم سیاسی ایشوز کی بجائے مخصوص ایشوز پر کر رہے ہیں ۔اور ان کے اسی رویے کو نامناسب سمجھتے ہوئے شاید مسلم لیگ ن کی قیادت سینیٹ کے اجلاس میں آنا پسند نہیں کرتی اور یہ سلسلہ 2014 کے باقی دس ماہ میں بھی جاری رہنے کا امکان نظر آرہا ہے تاآنکہ آیندہ سال سینیٹ کے انتخابات کے بعد صورتحال میں بہتری آ جائے۔

پی پی کی اپنی حکومت میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے کے بعد سینیٹ میں اپنی اکثریت کے باعث چوہدری اعتزاز اور میاں رضاربانی بڑے جوش وخروش اور اپنے فیصلوں کے تحت جو کردار ادا کر رہے ہیں وہ کردار قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہیں نظر نہیں آرہا۔ خورشید شاہ کے غیر موثر کردار پر تحریک انصاف کے قائد عمران خان بھی تنقید کرچکے ہیں اور وہ اپوزیشن لیڈر کے کردار سے مطمئن نہیں ہیں۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی پی پی کے خورشید شاہ کو اپوزیشن لیڈر مقرر کردیا تھا حالانکہ پی پی کو اپوزیشن لیڈر کے لیے سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہے مگر صورت حال ایسی ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ چاہے تو پی پی کی اپوزیشن ختم ہوسکتی ہے۔ تحریک انصاف اور متحدہ پی پی کے بعد تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں مگر دونوں کے درمیان اختلافات اتنے شدید ہیں کہ دونوں کے قریب آنے کا امکان ہی ختم ہوچکا ہے اور ان دونوں کے شدید اختلافات کا سب سے زیادہ فائدہ حکمراں مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن پیپلز پارٹی کو پہنچ رہا ہے۔ (ن) لیگ کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہے اور (ن) لیگ نے فرینڈلی اپوزیشن کا جو کردار پی پی حکومت میں ادا کیا تھا وہی کردار اب پی پی ادا کر رہی ہے اور قومی اسمبلی میں حکومت کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور پی پی (ن) لیگ کی حکومتی باری مکمل ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈال رہی۔

پی پی کی عادت ہے کہ جہاں وہ اکثریت میں ہو وہاں وہ اپنے مفاد کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرتی ہے اور حلیفوں کو اعتماد میں نہیں لیتی جس کی شکایت پی پی حکومت میں اس کے حلیفوں کو پہلے بھی تھی اور اپوزیشن میں رہتے ہوئے اب بھی ہے، جس کا اظہار (ق) لیگ، اے این پی اور بلوچ رہنما اب بھی کر رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما موجودہ حکومت سے وہ مطالبات کر رہے ہیں جو خود انھوں نے اپنے دور حکومت میں نہیں کیے تھے۔ ایسے مطالبات کا جواب (ن) لیگ کے رہنما فوراً دے کر پی پی کو خاموش کردیتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے بھی پی پی اور اپوزیشن لیڈر کو وہی مراعات اور سہولتیں دے رکھی ہیں جو انھوں نے پی پی حکومت میں لے رکھی تھیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن منتشر ہے۔ عمران خان بھی قومی اسمبلی میںکم آتے ہیں۔ بعض حکومتی حلیف بھی اپنے وجود کا احساس دلانے کے لیے حکومت پر تنقید کر جاتے ہیں جس کی ایک واضح مثال جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمن اور حاصل بزنجو کی ہے۔ حاصل بزنجو کے بھائی بلوچستان میں اور متحدہ کے ڈاکٹر عشرت العباد سندھ میں گورنر ہیں اور بلوچستان میں گورنر کی اہمیت سندھ سے زیادہ ہے۔ سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ اپوزیشن میں ہے جس کے گورنر کو(بعض حلقوں کے مطابق) سندھ حکومت مسلسل بے اختیار کرتی جا رہی ہے اور گورنر سندھ کو کراچی میں جاری آپریشن کے سلسلے میں متحدہ کی طرف سے تحفظات کا اظہار کرنا پڑتا ہے اور انتظامی طور پر وہ بے بس کردیے گئے ہیں اور گورنر کا صرف آئینی کردار ادا کر رہے ہیں۔


بعض تجزیہ نگار الزام لگا رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی نہ تو قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا موثر کردار ادا کر رہی ہے نہ سندھ میں اپنی حکومت کے مثالی ہونے کی مثال پیش کر رہی ہے۔ پی پی کی سابق حکومت میں سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے بدامنی کیس میں جو ریمارکس پہلے دیے تھے وہی ریمارکس اب بھی دیے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کا متحدہ کی اپوزیشن کے ساتھ رویہ بھی مثالی نہیں ہے اور سندھ اسمبلی میں پی پی اپنی اکثریت کے باعث مرضی کے فیصلے کر رہی ہے جس کی مخالفت میں متحدہ فنکشنل لیگ اور تحریک انصاف کے ارکان بے بس نظر آتے ہیں اور سندھ میں پی پی کی موجودہ حکومت میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی اور نہ ایسی کوئی امید ہے۔

پیپلز پارٹی کے ایک رہنما کو 2015 میں ملک میں عام انتخابات ہوتے نظر آرہے ہیں تو ایک صوبائی وزیر نے مارچ میں کچھ ہونے کا خواب دیکھ لیا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں وزیر اعلیٰ اور وزیر بلدیات کے مختلف موقف نظر آرہے ہیں۔ کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن پر وفاقی حکومت نہ صرف سندھ حکومت کے ساتھ کھڑی ہے بلکہ سندھ حکومت کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے جس کا ثبوت آپریشن کے سلسلے میں مانیٹرنگ کمیٹی کا قائم نہ ہونا ہے۔

یوں تو وفاقی حکومت کے دو اہم حریف پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ہیں اور دونوں کی سندھ اور کے پی کے میں حکومت ہے مگر پی پی کے سلسلے میں وفاقی حکومت اور وزیروں کا رویہ ہمدردانہ اور دوستی والا ہے اور (ن) لیگ کی حکومت بھی پیپلز پارٹی کو ناراض کرکے دور کرنے کی بجائے اپنے قریب رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کا مثبت جواب پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں بطور اپوزیشن دے رہی ہے۔

کچھ سیاسی حلقے کہتے ہیں کہ عوامی مسائل سے پی پی کو اپنی حکومت میں کوئی دلچسپی تھی نہ اب ہے اور وہ بھی 5 سال فرینڈلی اپوزیشن کے طور پر گزارنا چاہتی ہے۔ حکومت کو سینیٹ میں بھی پی پی رہنماؤں کے شور شرابے کی فکر نہیں ہے۔ چوہدری اعتزاز اور رضا ربانی کو عوامی مسائل سے زیادہ وزیر اعظم کے سینیٹ میں نہ آنے کی شکایت رہتی ہے وہ حکومت کو کچھ کرنے سے نہیں روک سکتے اور خورشید شاہ کے بعض اختلافی بیانات کو حکومت سنجیدگی سے نہیں لیتی باقی سب اچھا ہے۔
Load Next Story