فلسفہ عید اور ملکی معاشی صورت حال

موجودہ حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج زوال پذیر معیشت کو سہارا دینا ہے


Editorial May 03, 2022
موجودہ حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج زوال پذیر معیشت کو سہارا دینا ہے۔ فوٹو : فائل

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کا دورہ سعودی عرب کامیاب قرار دیا جا رہا ہے، میڈیا کے مطابق سعودی عرب نے موخر ادائیگیوں پر تیل کی فراہمی کا پیکیج 1.2 ارب ڈالر سے بڑھا کر 2.4 ارب ڈالر کردیا ہے اور پاکستان کے خزانے میں جمع کرائے گئے تین ارب ڈالر بھی جون 2023 تک واپس نہ لینے کی یقینی دہانی کرادی ہے۔

مجموعی طور پر سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو آٹھ ارب ڈالر کا پیکیج دینے جانے کا قوی امکان ظاہر کیا گیا ہے جب کہ دونوں ممالک کے مشترکہ اعلامیے میں سلامتی و استحکام ، تشدد ، انتہا پسندی و دہشت گردی کے خاتمے ، باہمی اتحاد کے فروغ، خطے کے ممالک کی خود مختاری اور جغرافیائی سالمیت کی حمایت کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔ دونوں ممالک نے خطے میں امن اور سلامتی کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان جموں و کشمیر کے تنازع سمیت تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔

میڈیا کی اطلاعات کو سامنے رکھا جائے تو یہ امر اطمینان بخش ہے کہ سعودی عرب نے مشکل حالات میں پاکستانی معیشت کی بہتری کے لیے غیر معمولی کردار ادا کیا ہے ۔ پاکستانی معیشت کو اس وقت کافی مشکلات کا سامنا ہے اور معاشی بحران پر قابو پانا نئی پاکستانی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے ۔ پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب نے اس کڑے وقت میں جو ہماری مدد کی ہے ، وہ قابل تحسین ہے ۔

موجودہ حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج زوال پذیر معیشت کو سہارا دینا ہے، ہمارے خطے کا ایک اہم ملک سری لنکا جس کی حکومت معاشی بحران ٹالنے میں ناکام رہی اور آخر ملک کو دیوالیہ ڈیکلیر کرنا پڑ گیا، اس وقت سری لنکا انارکی کا شکار ہوچکا ہے ، پاکستان کی نئی حکومت فی الوقت معاشی بحران ٹالنے میں کامیاب رہی ہے اور ملک کے عوام اور کاروباری طبقے کو سانس لینے کا موقع مل گیا ہے۔

حکومت نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر بھی کسی حد قابو پالیا جب کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے لیکن یہ عارضی اقدامات ہیں ، حکومت کو ملکی معیشت کو رواں رکھنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا پڑے گا ۔

صنعتی ترقی کے لیے حکومت کا کردار نہایت اہم ہے، لیکن اس کی حدود کا تعین ہونا چاہیے۔ اجارہ داروں سے نپٹنے اور بیوروکریسی کی جوابدہی کے لیے نئے ضوابط بنائے جائیں۔ چینی، آٹو موبائلز، سیمنٹ، فارما سیوٹیکلز اور بے شمار ایسی بڑی صنعتیں ہیں جنھوں نے اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اور کارٹل بنا کر اپنی مرضی سے قیمتوں میں ردو بدل کرتے رہتے ہیں جب کہ سرکاری ادارے اس معاملے پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔

اس بار کئی علاقوں میںگندم کی کھڑی فصل، کٹائی سے قبل خرید لی گئی ہے، جو الارمنگ صورت حال ہے۔ حکومت گندم کی بین الصوبائی نقل و حرکت پر پابندی عائد کر دے اور فلور ملز کے کوٹے اور پیداواری تناسب پر کڑی نظر رکھے خصوصاً سرحد اضلاع میں قائم فلور ملز کے کوٹے اور آبادی کے تناسب کا ازسرنو جائزہ لے ۔ حکومت یہ بھی دیکھے کہ ایک فلور مل کو گندم کا جتنا کوٹا ملا ہے، کیا اس نے اتنا آٹا اپنے ضلع کی مارکیٹ میں فروخت کیا ہے؟

اگر سرکاری مشینری کی جوابدہی کا نظام سخت بنا دیا جائے تو گندم اور آٹے کی کمی کا بحران کبھی پیدا نہیں ہوسکتا۔ حکومت کو زراعت کے شعبے میں سبسڈی فراہم کرنی چاہیے ۔ تقسیم ہند کے وقت ہم اپنی زرعی اجناس بھارت برآمد کرتے تھے لیکن گزشتہ حکومت نے گندم اور چینی درآمد کی، ایسا اس لیے ہوا کہ سرکاری پالیسی میں جھول رکھا گیا جس کا فائدہ فلور ملز اور اسمگلرز نے اٹھایا اور پاکستانی گندم کی بھاری مقدار افغانستان پہنچا دی گئی ۔ تعمیراتی صنعت بھی مسائل کا شکار ہے ، تعمیراتی سامان کی قیمتوں کے تعین کا کوئی میکنزم نہیں ہے۔

اینٹ، ریت، بجری،سیمنٹ، پینٹ، الیکٹرک کا سامان، سریا، ایلومینم کے نرخوں کے تعین میں ریاست کا کوئی کنٹرول نہیں ہے ۔ پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے ایک کروڑ 20 لاکھ گھروں کی کمی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کل آبادی کا 52 فیصد کچی آبادیوں میں رہتا ہے۔

جب تعمیرات میں بے پناہ اضافہ ہوا تو تعمیراتی اشیا کی مانگ میں بھی اضافہ ہوا، جس کے ساتھ سیمنٹ، اسٹیل اور دیگر اشیا کی قیمت انتہائی بڑھ گئی ہیں۔ ملک کے مقتدر اسٹیک ہولڈرز اور سیاسی قیادت کی بات کریں تو ذاتی مفادات کا غلبہ نظر آتا ہے۔ کبھی ملکی مفاد کو مقدم نہیں جانا جاتا۔ عوام کو ہمیشہ اندھیرے میں رکھا گیا ہے۔ غلط خارجہ ، داخلہ اور معاشی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان ایک محتاج ریاست بن گیا ہے۔

ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ اس عدم استحکام کا براہِ راست اثر زندگی کے تمام شعبوں پر منتقل ہو رہا ہے۔ ریاستی ادارے مختلف سطحوں پر ملک کا انتظام چلاتے ہیں لیکن اختیارات کی اوورلیپنگ اور نوکر شاہی کی جوابدہی کا میکنزم نہ ہونا اور اگر کوئی ہے تو اس کے ضوابط میں ابہام ہونا، امور مملکت کو روانی سے چلنے نہیں دیتے ۔

معیشت کی حالت، ملکی سلامتی اور ہر شہری کی فلاح و بہبود ان کے کام پر منحصر ہے۔ ایک مستحکم سیاسی صورت حال آپ کو معیشت میں توازن قائم کرنے کی اجازت دیتی ہے اور اس نظام کے ٹوٹنے سے تباہی ہوتی ہے۔ سیاسی عدم استحکام بنیادی طور پر قومی کرنسی کی قدر میں کمی اور آبادی کے معیارِ زندگی میں بگاڑ کا باعث ہے۔ ایک مورخ اینگلیر لکھتا ہے کہ بہترین نظام حکومت کا راز اس میں پوشیدہ ہے کہ عوام بے دست و پا، بے حال اور بے یار و مددگار نہ ہوں، اگر ایسا معاشرہ جنم لیتا ہے تو اندوہناک واقعات جنم لیتے ہیں جو ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔

ریاست پاکستان کے استحکام اور ہموار معاشی ترقی کے لیے امارت اور غربت کے درمیان تفاوت کو کم اور بے محابہ ارتکاز دولت کا خاتمہ کر کے ''انتشار دولت'' کے فلسفے کو معرض وجود میں لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے نادار، مفلسوں اور ضرورت مندوں کی ضروریات کو احسن طریقے سے پورا کرنے کے لیے نہ صرف معاشی استحکام ضروری ہے، بلکہ محروم طبقات کو وہ مسرت اور خوشی مہیا کرنا ہے کہ وہ بھی سکون اور اطمینان سے زندگی گزار سکیں۔

فلسفہ عید بھی اپنے اسباب کا احاطہ کیے ہوئے نظر آتا ہے ، گو کہ عید کی خوشیوں میں کچھ غم بھی شامل ہو گئے ہیں۔ کسی کی یتیمی کا غم ، کسی کی بیوگی کا غم، کسی کی بے اولادی کا غم ، کسی کی معذوری کا غم اور کسی کی بے گھری کا غم، مگر ہمیں ان غموں کو برداشت کرنا ہے کہ رضائے الٰہی یہ ہی تھی۔ ہمارا عید کا فلسفہ تو ویسے بھی ہمیں ایثار و قربانی سکھاتا ہے۔ اپنے مفلس و مسکین بھائیوں کی مدد کرنا ہم پر لازم قرار دے دیا گیا ہے۔

درحقیقت عید الفطر اس بات کا جشن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے ہدایت نازل فرمائی اور ان کو کامیابی کے راستے کی طرف رہنمائی فرمائی۔ سب سے ضروری امر تو یہ ہے کہ صدقات، خیرات اور فطرانہ نہ صرف حصول ثواب کا ذریعہ ہے بلکہ وہ لوگ جو اس خوشی کے تہوار کو پر مسرت طریقے سے منانے سے قاصر ہیں ان کے لیے بھی وجہ خوشی و مسرت بنتا ہے۔

صدقہ اور خیرات مال کو کم نہیں کرتے بلکہ ایک طرف تو اللہ بندے کی عزت میں اضافہ فرماتا ہے اور دوسری طرف معاشرے کے محروم طبقات کے لیے خوشی کا باعث بنتا ہے تاکہ وہ بھی مذہبی تہوار کو خوشی اور مسرت کے ساتھ منا سکیں۔ خلفائے راشدین کے ادوار کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں اس نظام حکومت کی بنیاد نظر آتی ہے کہ جہاں غریب مفلوک الحال نہ تھا۔ معاشرے میں عدم مساوات، عدم انصاف اور طبقاتی تقسیم کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔

اس موقعے پر صدقہ فطر کے ذریعے مسلمان اپنی سماجی ذمے داریوں کو یاد کرتے ہیں کہ سماج کے تمام غریب اور کمزور طبقات کی ان پر ذمے داری ہے۔ ایک مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ کوشش کرے کہ ہر چہرے پر مسکراہٹ ہو۔ ہر ایک کا غم اور پریشانی دور ہو اور خدا کے سارے بندوں کو امن و امان، عدل و انصاف اور خوشی و اطمینان نصیب ہو۔

نماز عید کی ادائیگی کے موقعے پر تکبیر کی صداؤں کے ذریعے ہم یاد کرتے ہیں کہ ہمارا اصل کام ایک خدا کی بڑائی کا اور کبریائی کا اعلان ہے۔ نماز عید میں صف بستہ ہوکر، کاندھے سے کاندھا ملا کر ہم یہ بھی یاد کرتے ہیں کہ سارے انسان برابر ہیں۔ سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔ ہم ایک ساتھ خدا کے آگے سجدہ ریز ہوکر یہ اعلان کرتے ہیں کہ انسانیت کی معراج یہی ہے کہ ہم سب انسان اپنے پیدا کرنے والے خالق و مالک کے آگے اور اس کی مرضی کے آگے سرنڈر ہوں۔

آئیے ! ہم اپنی زندگی کو اسی فلسفے کی عملی تصویر بنائیں۔ اپنے پیدا کرنے والے کی بندگی کی طرف بلانے والے، اس کی مرضی کے آگے سرنڈر کرنے والے، انسانوں میں عدل و مساوات قائم کرنے والے اور تمام انسانوں کے لیے رحمت بن جائیں اور ہم سب مل کر اس ملک میں امن و امان اور عدل و انصاف کی فضا کو عام کریں اور یہاں کے حقیقی مسائل کو حل کرنے کے لیے مل جل کر جدوجہد کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں