آہستہ بولیے

کسی سیاسی شخصیت سے نظریاتی اور سیاسی اختلاف رکھنا اور اس کا اظہار کرنا یقینا عوام کا بنیادی حق ہے


Amjad Islam Amjad May 03, 2022
[email protected]

WASHINGTON: ہوئی عید سب نے پہنے طرب و خوشی کے جامے

نہ ہُوا کہ ہم بھی بدلیں یہ لباسِ سوگواراں

میرؔ صاحب سے تمام تر محبت اورعقیدت کے باوجود عید کے حوالے سے اُن کے اس شعر سے مجھے ہمیشہ اختلاف رہا ہے اور جس کامیں اظہار بھی کرتا رہا ہوں لیکن عید سے چند دن قبل مسجد نبویؐ کے احاطے اور شہرِ مدینہ میں جو کچھ ہُوا ہے اُس کے بعد میرادل بھی اس عیدکے ہنگام میں لباسِ سوگواراں کو ہی اپنے غم و غصے کی علامت کے طور پر استعمال کرنے کو چاہ رہا ہے۔

اگر اس کی درپردہ اور مشروط حمایت کرنے والوں کے لیے یہ سب کچھ کسی سیاسی عمل کا حصہ ہے تو ایسی سیاست پر سو بار لعنت۔ جہاں تک عمران خان کاتعلق ہے ابھی تک اس کی طرف سے بھی اس عمل کی بھرپور،غیر مشروط اور پُرزور مذمت کا حامل کوئی بیان کم از کم میری نظر سے نہیں گزرا۔ اس سے قطع نظر کہ یہ واقعہ کسی باقاعدہ پلاننگ کا حصہ تھا یا وہاں پر موجود لوگوں کا فوری اور جذباتی ردعمل، ہر دو صورتوں میں یہ صُورتِ حال ناقابلِ برداشت ہے کہ روضۂ رسولؐ کے نواح اور مسجد نبویؐ کی چھت تلے اس طرح کی گھٹیا زبان اور طرزعمل کا اظہار کیا جائے اور اس پر یہ تاویل کہ یہ اس وفد کے خلاف لوگوں کے جذبات کا دلی اظہار تھا اور بھی زیادہ تکلیف دہ بن جاتا ہے کہ وہ لوگ جو (جو بھی اور جیسے بھی تھے) اپنے رب کے حضور اور روضہ رسولؐ پر حاضری دینے کے لیے جارہے تھے اور یقینا یہ فساد برپا کرنے والے بھی اسی حوالے سے وہاں موجود تھے جب کہ اس جگہ ، مقام اور فضا کا تقدس سوائے دعاؤں اور آنسوؤں کے اور کسی عمل کا طلب گار نہیں تھا۔

کسی سیاسی شخصیت سے نظریاتی اور سیاسی اختلاف رکھنا اور اس کا اظہار کرنا یقینا عوام کا بنیادی حق ہے مگر کیا اس حق کے استعمال کے لیے یہ جگہ کسی بھی طور استعمال ہوسکتی تھی' مجھے یقین ہے کہ ہر صاحبِ ایمان اور عقلِ سلیم کا حامل مہذب انسان اس کا جواب نفی میں دے گا۔

وہاں آنے والوں کے کردار ،ا عمال یا تقدیر کا فیصلہ صرف اور صرف ربِ کریم کے پاس ہے جو لوگ ان کو دل سے چور یا بے ایمان سمجھتے ہیںانھیں یہ رائے رکھنے اور اس کا اظہار کرنے کا حق یقینا ہے اور وہ اسے ہر جگہ پر استعمال بھی کرتے ہیں لیکن یہ آزادی نہ تو مادر پِدر آزادی ہے اور نہ ہی یہ کسی حد سے ماورا ہے۔ مثال کے طور پر ذاتی سطح پرمیں خود محترمہ مریم اورنگ زیب کی بیشتر باتوں سے اختلاف رکھتا ہوں اور وہ میرے پسندیدہ لوگوں کی فہرست میں بھی نہیں ہیں مگر جس دربارمیں وہ حاضری دے رہی تھیں اُس کا کوئی تعلق اُن کی سیاسی فکر یا کردار سے نہیں تھا۔

اُس وقت وہ مجھ سمیت ہم سب کے لیے ایک محترم اور قابلِ تعظیم بہن تھیں اور کیا اُن پر آوازے کسنے والوں میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا ہے جو وثوق سے بتا سکے کہ ربِ کریم کے حضور اُن کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا' کیا پتہ وہ اُن پر ان معترضین سے زیادہ کرم فرما دے، اسی طرح نعرہ بازی اور ناشائستہ زبان کا استعمال اور وہ بھی اُس نواح میں جہاں ہم سب کی اور دنیا کی محبوب ترین ہستی اس دیار فانی اور اپنی امت کے ساتھ ساتھ روحانی سطح پر اس مبارک مسجد کے ہر کونے کو دیکھ رہی ہو جہاں یہ شرمناک مظاہرہ کیا گیا۔ مجھے ذاتی طور پر کئی بار وہاں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی ہے اورمیں سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہاں حاضری دینے والا کوئی بھی شخص ایک روحانی کیفیت میں جذب ہونے کے علاوہ کچھ کرسکتا ہے ۔

2007میں کیے گئے حج کے دوران مجھے بہت سا حمدیہ ا ور نعتیہ کلام لکھ سکنے کی توفیق عطا ہوئی جو میرے لیے اس دنیا میں باعثِ برکت ہونے کے ساتھ توشۂ آخرت بھی ہے ۔ روضہ رسولؐ پر حاضری کے دوران اس کیفیت میں ایک نعت عطا ہوئی اتفاق سے اُس کا بنیادی موضوع اُسی نواح میں ہونے والے اس انتہائی افسوس ناک واقعے سے خود بخود مل گیا ہے۔ اس نعت کو عزیزی سرورنقشبندی نے اپنے خوب صورت لحن کے ساتھ کچھ عرصہ قبل ریکارڈ کروایا تھا مگر اُن کے بقول گزشتہ 24 گھنٹوں میں دنیا بھرمیں اور سوشل میڈیا پر اس کو جو پذیرائی ملی ہے اور جس طرح سے اسے سنا اور پسند کیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔

میری دعا ہے کہ '' ہم سب'' اور اس''ہم سب'' کے دائرے میں کسی تقسیم اور تفریق کے بغیر ہم سب ہی شامل ہیں وہ بھی جو اس بے حرمتی کے قبیح عمل میں شریک ہوئے وہ بھی جو اس کا نشانہ بنے ا ور وہ تمام کلمہ گو بھی جو ''بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر'' پر دل سے ایمان رکھتے ہیں۔ اب چاہیے یہ کہ اس گناہ میں شریک لوگ دل سے اپنے عمل کی معافی مانگیں اور وہ جنھوں نے کسی بھی وجہ سے اُن کے اس عمل کی کُھل کر اور غیر مشروط مذمت نہیں کی اپنے طرز عمل کا جائزہ لینے کے ساتھ ان نام نہاد جذباتی کارکنوں کی بھی بھرپور سرزنش کریں اور متعلقہ سیاسی قیادت بھی یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لے کہ جب زمینی اختلافات کو ایک حد سے زیادہ بڑھاوا دیا جائے تو پھر آسمان سے اُن کے لیے سزا بھی اُتر سکتی ہے اور یہ بات بھی پلے سے باندھ لیں کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ ایسے نقصان سے بھی دوچار ہوسکتے ہیں جس کا اس وقت شاید انھیں احساس بھی نہیں ہوگا۔

آخر میں، میں اِس اُمید کے ساتھ متعلقہ نعت کے کچھ اشعار درج کرتا ہوں کہ ربِ کریم اپنی رحمت سے اس غلطی کو معاف فرمادے اورہمیں آیندہ کے لیے مسجد کے تقدس اورناموسِ رسولؐ کے ضمن میں ایسی ہدایت فرمائیں کہ پھر کبھی ایسی یا اس سے ملتی جلتی کوئی صورتِ حال پیدا ہی نہ ہوسکے۔

شہر نبیؐ ہے سامنے آہستہ بولیے

دھیرے سے بات کیجیے آہستہ بولیے

اُن کی گلی میں دیکھ کے رکھیے ذرا قدم

خود کو بہت سنبھالیے آہستہ بولیے

اُنؐ سے کبھی نہ کیجیے اپنی صدا بلند

پیشِ بنیؐ جو آیئے آہستہ بولیے

آداب یہ ہی بزمِ شہہِ دو جہاں کے ہیں

دو زانوں ہوکے بیٹھیے آہستہ بولیے

امجدؔ وہ جان لیتے ہیں سائل کے دل کی بات

پھر بھی جو دل مچل اُٹھے آہستہ بولیے

میری دُعا ہے کہ ربِ کریم اس عید کو اپنے شکرانے کے ساتھ ساتھ ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکر بھی بنا دے کہ زندگی چار دن ہی کی سہی مگر اس کے ایک ایک لمحے کو ربِ کریمؐ کی رضا کے مطابق جینا ہی اس کا اصلِ اصول ہے اور اُس کا یہ پیغام عید کا تحفہ سمجھیں کہ:

کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں