عیدالفطر سُنّت نبویؐ  کی روشنی میں

یہ اسلام کا فیضان ہے کہ اس نے مسلمانوں کے خوشیاں منانے کو ایک پاکیزہ سانچے میں ڈھال دیا


یہ اسلام کا فیضان ہے کہ اس نے مسلمانوں کے خوشیاں منانے کو ایک پاکیزہ سانچے میں ڈھال دیا ۔ فوٹو : فائل

LONDON: حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو اس زمانہ میں اہل مدینہ نے دو دن مقرر کر رکھے تھے جن میں وہ خوشیاں مناتے اور کھیل تماشے کرتے تھے۔

آپؐ نے لوگوں سے پوچھا: یہ دو دن کیسے ہیں؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: ان ایام میں ہم لوگ عہد جاہلیت کے اندر خوشیاں مناتے اور کھیلتے تھے۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے تمہارے ان دنوں کو دو بہترین دنوں میں تبدیل فرما دیا ہے یعنی عیدالاضحی اور عیدالفطر۔

پہلے انبیائؑ کی امتیں بھی کسی نہ کسی شکل میں عید منایا کرتی تھیں، آدم علیہ السلام کی امت اس دن عید مناتی تھی جس دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امّت اس دن عید مناتی تھی جس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمرود کی آگ سے نجات ملی۔

حضرت یونس علیہ السلام کی قوم اس دن عید مناتی تھی جس دن حضرت یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ سے نجات پائی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم اس روز عید مناتی تھی جس دن آسمان سے مائدہ نازل ہوا تھا۔ اہل عرب سال میں مختلف تہوار مناتے تھے جن میں شراب نوشی، جواء، شعر و شاعری' رقص و سرور کی محفلیں سجائی جاتی تھیں۔ یہ اسلام کا فیضان ہے کہ اس نے مسلمانوں کے خوشیاں منانے کو ایک پاکیزہ سانچے میں ڈھال دیا۔

عیدالفطر کا دن ہر مسلمان کے لیے خوشی اور مسرت کا دن ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے عید کی حقیقی خوشی عطا فرمانے سے پہلے رمضان کے روزے فرض کیے، ایک ماہ تک دن بھر کھانے پینے سے روکا، نفس کی مخصوص خواہشات پورا کرنے سے منع کر دیا اور مقصد یہ بتایا کہ تم پرہیز گار ہو جاؤ۔ جب اﷲ تعالیٰ کے حکم کو اس کے حقوق و آداب کے ساتھ پورا کردیا تو روزہ دار کے دل میں نور تقویٰ پیدا ہوگیا۔

اسی عظیم نعمت کا شُکر ادا کرنے کے لیے مسلمان عظیم اجتماع کے ساتھ دو رکعت نماز عید پڑھ کر شُکر خداوندی ادا کرتا ہے۔ غرباء کو صدقۂ فطر ادا کر کے اپنے روزے کی کوتاہیوں کو مٹانے کے ساتھ ان محتاج افراد کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک کرتا ہے۔

اس حقیقی خوشی کا لطف وہی خوش نصیب روزہ دار جانتے ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ نے رمضان کے مکمل روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس عید کا نام رسول اﷲ ﷺ نے ''عیدالفطر'' رکھا یعنی روزہ کھولنے کی عید، اب جس شخص نے روزہ رکھا ہی نہیں اسے روزہ کھولنے کی خوشی کیا ہوگی اور دوسرے طرف اگر روزہ رکھنے والوں نے عید کو اپنے نفس کی ناجائز خواہشات کو پورا کر کے منایا تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ رمضان المبارک کے روزے رکھ کر نفس کی تربیت میں کمی رہ گئی یا عید کی خوشی منانے والے کا دل اس نورِ تقویٰ سے بالکل خالی ہے اور وہ شخص عید کی خوشیاں محض رسمی طور پر منانے میں مشغول ہے۔

لہٰذا جب ہمیں اسلام نے عیدالفطر کی خوشیاں عطا فرمائیں تو ان خوشیوں کو اسی طرح منانا چاہیے جیسا کہ رسول اﷲ ﷺ نے خوشی کے یہ لمحات گزارے۔ احادیث کی روشنی میں عیدالفطر کے ان اعمال کو ترتیب وار ذکر کیا جاتا ہے تاکہ ہر مسلمان ان کو سُنّت نبوی ﷺ سمجھ کر ادا کرے، اس لیے کہ ان میں سے اکثر کام عام مسلمان کرتا ہے لیکن ذہن میں قطعاً یہ نہیں ہوتا کہ یہ آپ ﷺ کی سنّت ہے۔

عید کے دن صبح جلدی بیدار ہونا، مسواک کرنا، غسل کرنا۔

حضرت خالد بن سعدؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ کی عادت شریفہ تھی کہ عیدالفطر، یوم النحر اور یوم عرفہ کو غسل فرمایا کرتے تھے۔

عمدہ کپڑے پہننا جو پاس موجود ہوں۔ رسول اﷲ ﷺ عید کے دن خُوب صورت اور عمدہ لباس زیب تن فرماتے۔ آپ ﷺ کبھی سبز و سرخ دھاری دار چادر اوڑھتے، یہ چادر یمن کی ہوتی جسے بُرد یمانی کہا جاتا ہے۔ (مدارج النبوۃ)

عید کے دن زیب و زینت اور شریعت کے موافق آرائش کرنا مستحب ہے۔ (مدارج النبوۃ) حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں: ''لوگ کپڑوں کا بہت اہتمام کرتے ہیں حتی کہ بعض قرض لے کر نئے کپڑے بنواتے ہیں، بعض مستعار (ادھار مانگ کر) پہنتے ہیں۔ اس کی بھی کوئی اصل نہیں ہے بل کہ سنّت یہ ہے کہ ہر شخص کے پاس موجود کپڑے ان میں سے جو اچھے ہیں وہ پہنے۔''

خوش بُو لگانا۔ عید گاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھانا۔

رسول اﷲ ﷺ کی عادت کریمہ تھی کہ عیدالفطر کے دن عید گاہ جانے سے پہلے چند کھجوریں تناول فرماتے تھے ان کی تعداد طاق ہوتی تھی یعنی تین، پانچ، سات۔ ( بخاری)

عید گاہ جانے سے قبل صدقہ فطر دے دینا۔ صدقہ فطر ہر مسلمان عاقل، مرد و عورت پر واجب ہے جب کہ وہ زکوٰۃ کے نصاب کا مالک ہو چاہے اس مال پر سال نہ گزرا ہو۔ اپنی طرف سے اپنے نابالغ بچوں کی طرف جو زیر کفالت ہوں نصف صاع (یعنی پونے دو کلو) گندم یا اس کی قیمت ادا کرنا۔

عید گاہ جلدی جانا۔ عید گاہ میں نماز عید ادا کرنا۔ رسول اﷲ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ نماز عید گاہ (میدان) میں ادا فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم و صحیح بخاری)

حضرت ڈاکٹر عبدالحیؒ لکھتے ہیں: ''یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز عید کے لیے میدان میں نکلنا مسجد میں نماز ادا کرنے سے افضل ہے اس لیے کہ رسول اﷲ ﷺ باوجود اس فضل و شرف کے جو آپؐ کی مسجد شریف کو حاصل ہے نماز کے لیے عیدگاہ (میدان) میں باہر تشریف لے جاتے تھے لیکن اگر کوئی عذر لاحق ہو تو جائز ہے۔'' جیسا کہ ایک مرتبہ عید کے روز بارش ہو رہی تھی تو رسول اﷲ ﷺ نے عید کی نماز مسجد میں پڑھائی۔ (ابوداؤد)

رسول اکرم ﷺ جس راستے سے عیدگاہ تشریف لے جاتے، اس سے واپس تشریف نہ لاتے بل کہ دوسرے راستہ سے تشریف لاتے۔ (بخاری، ترمذی)

رسول اکرم ﷺ عیدگاہ تک پیدل تشریف لے جاتے۔ (سنن ابن ماجہ ترمذی)

اس پر عمل کرنا سنت ہے بعض علماء نے مستحب کہا ہے۔

رسول اکرم ﷺ نماز عیدالفطر میں تاخیر فرماتے اور نماز عیدالاضحی کو جلد ادا فرماتے۔ (مشکوٰۃ باب صلوٰۃ)

عیدالفطر میں راستہ میں چلتے وقت آہستہ تکبیر کہنا مسنون ہے۔ (عیدالاضحی میں بہ آواز بلند کہنا چاہیے)

تکبیر کے کلمات یہ ہیں: اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر واللّٰہ الحمد۔

اﷲ رب العزت ہم سب کو عیدالفطر رسول اکرم ﷺ کی سنت کے مطابق گزارنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں