اختلافِ رائے کا احترام
دنیا کے چوٹی کے ترقی یافتہ ممالک تاریخ میں کسی نہ کسی وقت خانہ جنگی کی لپیٹ میں آئے ہیں
دنیا کے چوٹی کے ترقی یافتہ ممالک تاریخ میں کسی نہ کسی وقت خانہ جنگی کی لپیٹ میں آئے ہیں،فرانسیسی انقلاب ایک خانہ جنگی ہی تو تھی۔روس میں بالشویک انقلاب کا بغور مطالعہ کریں تو آپ اُس وقت کی عظیم روسی سلطنت کو ایک بڑی اور افسوسناک خانہ جنگی سے گزرتے ہوئے پائیں گے۔
امریکا بھی ایک ماڈرن ریاست بننے سے پہلے خانہ جنگی کی لپیٹ میں آیا۔ چین بھی اس ہولناک تجربے سے دوچار ہوا ۔ان مثالوں سے پاکستان میں بھی کچھ سیاسی زعماء نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستانی قوم کو بھی ایک مضبوط ماڈرن ریاست بننے کے لیے خانہ جنگی کے اسی ہولناک تجربے سے گزارنا ہو گا۔ ایوب خان کے طویل جابرانہ اقتدار کے خلاف جب عوامی ردِ عمل کے طور پر سیاسی بے چینی نے جنم لیا تو جناب ذوالفقار علی بھٹو تاشقند معاہدے پر ناراضگی کے اظہار کی وجہ سے عوام میں مقبول ہو چکے تھے۔
ایوب خان کے خلاف بے چینی کی لہر سے جناب بھٹو نے فائدہ اٹھایا اور مقبولیت کی بلندیوں کو چھو لیا۔اس مقبولیت میں ان کی کارکردگی کبھی زیرِ بحث نہیں آئی، اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں بھٹو صاحب نے لاہور کے ایک بڑے اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے خانہ جنگی کی اہمیت اور ضرورت کو اجاگر کیا جس میں انھوں نے چین کے چیئرمین ماؤزے تنگ اور روسی و فرانسیسی انقلاب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ خانہ جنگی میں جو لوگ بچ جاتے ہیں۔
وہ کسی بھی قوم کے مضبوط اور قیمتی لوگ ہوتے ہیں اور انھی بچ جانے والے افراد سے ایک مضبوط اور توانا قوم تشکیل پاتی ہے۔ یہ سوچ کسی حد تک چارلس ڈارون کی Survival of the fittestتھیوری کا ایک دوسرا روپ ہے۔
انسان ایک عقلی وجود اور صاحبِ ارادہ مخلوق ہے۔ رب العزت نے ہر انسان کو Uniqueپیدا کیا ہے۔ہر انسان چونکہ ارادہ لے کر پیدا ہوتا ہے اور کسی ایک فرد کا عقل ارادہ اور مفاد دوسرے کے عین مطابق نہیں ہو سکتا بلکہ کچھ نہ کچھ مختلف ہوتا ہے اس لیے اختلاف جنم لیتا ہے۔جب تک انسان روئے زمین پر موجود ہے اور قیامت بپا نہیں ہو جاتی،انسانوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوتے رہنا ایک فطری بات ہے۔
اختلاف کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ یا تو انسان کو عقل و فہم اور ارادے سے محروم کر دیا جائے یا پھر سرے سے انسانوں کو یکبارگی صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے لیکن چونکہ ایسا ہونا ناممکن ہے اس لیے روئے زمین پر مختلف آرا ء رہیں گی اور اختلاف بھی پیدا ہوتے رہیں گے۔یہ اختلاف ہی ہے جس کی وجہ سے بحث و مباحثہ جنم لیتا ہے،ذہن کے دریچے کھلتے ہیں اور علم و آگہی میں ترقی ممکن ہو پاتی ہے۔
اگر سارے انسان ایک ہی سوچ،ایک ہی نقطہ نظر کے حامل ہو جائیں تو ایک جامد و ساکت معاشرہ تشکیل ہائے گا جس میں Advancement of learning مفقود ہو گی۔ایسے معاشرے پنپ نہیں سکتے ۔زندہ معاشروں میں اختلافِ رائے ہوتا ہے اور یہی زندہ معاشرے کی پہچان ہوتی ہے۔گویا اختلاف کا ہونا اور اختلاف کرنا عین فطرت اور زندگی کی علامت ہے۔
ساؤتھ ایشیا شخصیت پرستی میں بہت آگے ہے۔ جب کوئی بڑی اور اہم شخصیت غلطی کرتی ہے تو اس کے فالورز،اس سے پیار کرنے والے اس کے غلط ہونے یا شک کرنے کا سوچتے ہی نہیں حالانکہ کسی ہستی کی کوئی رائے کتنی ہی محکم کیوں نہ ہو، پھر بھی اس بات کا احتمال ہوتا ہے کہ اس کی رائے کے مقابلے میں ایک دوسری رائے بھی اتنی ہی وزن رکھتی ہو،اس بات کا بھی امکان رہتا ہے کہ مضبوط ترین شخصیت کی رائے میں کمزوری ہو۔جب صحت مند اختلاف کا راستہ روک دیا جائے تو انارکی اور انتشار پھیلتا ہے۔فرقہ بندی اور گروہ بندی اسی مائنڈ سیٹ سے جنم لیتی ہے۔
یہ اختلاف سے نہیں پیدا ہوتی۔یہ مخالفت اور نزاع کی وجہ سے پروان چڑھتی ہے، جب کوئی اس بات پر جم جائے کہ صرف میرا نقطہ نظر ہی صحیح ہے اور میرے نقطہ نظر سے اختلاف رکھنے والا غلط اور لعنت زدہ ہے۔ ایسے مائنڈ سیٹ سے ہی غیر صحت مند معاشرہ جنم لیتا ہے۔ہمیں بھی ایک دوسرے کی بات سننے اور اس کی رائے سے اختلاف کا سلیقہ اپنانا ہوگا۔کسی کے لیے بھی اپنی رشتے داریوں اور دوستیوں کو داؤ پر نہیں لگانا چاہیے۔ نفرتوں کا بیوپاری بننے سے گریز کریں۔
پاکستان کچھ عرصے سے شدید نزاع اور نفرت میں جل رہا ہے۔ہم بہت تیزی سے تقسیم ہو رہے ہیں۔اس خلیج کو پاٹنا مشکل ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہر دن یہ تقسیم،یہ خلیج گہری ہوتی جا رہی ہے۔ایک فرد نے تین مرتبہ خانہ جنگی کی بات کی ہے۔ہم نے پاکستانیوں کو، پاکستان کا متبرک پرچم نذر آتش کرتے اور پاکستان کا پاسپورٹ پھاڑتے دیکھا ہے۔اس جانکاہ صورتحال کے دو بڑے سبب ہیں۔پہلا سبب تو یہ ہے کہ آزادی کے بعد ہم سیاسی رہنماؤں کی کارکردگی پرکھنے کے بجائے ان کے نعروں پر انھیں دل دے بیٹھتے ہیں۔
ہر کسی کو سیاسی رائے رکھنے کی آزادی ہونی چاہیے لیکن سیاسی رائے کی جگہ ہم بے پناہ محبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ایک لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہم ہمارے اندر ملک و ملت سے گہرا لگاؤ نہیں پیدا ہوا۔ہم شخصیت پرستی کے گرداب میں پھنسی ہوئی قوم ہیں۔ہمارے وہ دل و دماغ نہیں جو اچھے کو اچھا اور برے کر برا کہے۔ہم ایک ناپختہ ذہن رکھنے والی رومانس مں مبتلا قوم ہیں۔محبت اور رومانس میں سب سے پہلے عقل کی Casualty ہوتی ہے۔ Reasonروٹھ جاتا ہے۔ہم دوسری رائے رکھنے والے کو برے برے القابات،ناموں اور گالیوں سے نوازتے ہیں۔
فیک نیوزfake newsاور hate speech کا بلا سوچے سمجھے پھیلاؤ جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر ہمیں ملنے والی اطلاعات کا بہت بڑا حصہForwaorded messages یا آڈیو اور وڈیو کلپس پر مشتمل ہو گا لیکن ہم ذرا بھی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ رُک کر دیکھ لیں کہ اس کا Contentکیا ہے،کیا یہ ہماری قومی وحدت،یکجہتی اور امن میں مددگار ہے یا پھر یہ انتشار پھیلائے گا۔
ہماری قومی وحدت ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہونی چاہیے۔ہمارے قومی رہنماؤں کے اوپر بہت بھاری ذمے واری عائد ہوتی ہے کہ جو لوگ ان کوٹوٹ کر چاہتے ہیں ان کی تربیت کریں۔وہ خود بھی بیان دیتے ہوئے،تقریر کرتے ہوئے قوم کو بہتر سے بہتر بنانے پر توجہ دیں اور الفاظ کے چناؤ میں بہت احتیاط کریں۔ جلاؤ،گھیراؤ کی صداؤں سے ناپختہ جذبات بھڑک اُٹھتے ہیںجس سے انٹونی کی زبان میں طوفان بہہ نکلتا ہے۔ خدارا بہترین الفاظ کا چناؤ کریں۔
اچھے جذبات ابھاریں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو خاموش رہنے میں نجات ہے۔ہم ایک گہری دلدل میں گرتے جا رہے ہیں۔ ہمارے سیاسی رہنماؤں کو بڑھ کر نہ صرف اس Fall کو روکنا ہے بلکہ ہمت،کوشش اور سمجھداری سے قوم کو اس دلدل سے نکالنا ہے۔ہم سب ہم وطن ہیں،دشمن نہیں۔ خدا را اس قوم کی تعمیر میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔
امریکا بھی ایک ماڈرن ریاست بننے سے پہلے خانہ جنگی کی لپیٹ میں آیا۔ چین بھی اس ہولناک تجربے سے دوچار ہوا ۔ان مثالوں سے پاکستان میں بھی کچھ سیاسی زعماء نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستانی قوم کو بھی ایک مضبوط ماڈرن ریاست بننے کے لیے خانہ جنگی کے اسی ہولناک تجربے سے گزارنا ہو گا۔ ایوب خان کے طویل جابرانہ اقتدار کے خلاف جب عوامی ردِ عمل کے طور پر سیاسی بے چینی نے جنم لیا تو جناب ذوالفقار علی بھٹو تاشقند معاہدے پر ناراضگی کے اظہار کی وجہ سے عوام میں مقبول ہو چکے تھے۔
ایوب خان کے خلاف بے چینی کی لہر سے جناب بھٹو نے فائدہ اٹھایا اور مقبولیت کی بلندیوں کو چھو لیا۔اس مقبولیت میں ان کی کارکردگی کبھی زیرِ بحث نہیں آئی، اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں بھٹو صاحب نے لاہور کے ایک بڑے اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے خانہ جنگی کی اہمیت اور ضرورت کو اجاگر کیا جس میں انھوں نے چین کے چیئرمین ماؤزے تنگ اور روسی و فرانسیسی انقلاب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ خانہ جنگی میں جو لوگ بچ جاتے ہیں۔
وہ کسی بھی قوم کے مضبوط اور قیمتی لوگ ہوتے ہیں اور انھی بچ جانے والے افراد سے ایک مضبوط اور توانا قوم تشکیل پاتی ہے۔ یہ سوچ کسی حد تک چارلس ڈارون کی Survival of the fittestتھیوری کا ایک دوسرا روپ ہے۔
انسان ایک عقلی وجود اور صاحبِ ارادہ مخلوق ہے۔ رب العزت نے ہر انسان کو Uniqueپیدا کیا ہے۔ہر انسان چونکہ ارادہ لے کر پیدا ہوتا ہے اور کسی ایک فرد کا عقل ارادہ اور مفاد دوسرے کے عین مطابق نہیں ہو سکتا بلکہ کچھ نہ کچھ مختلف ہوتا ہے اس لیے اختلاف جنم لیتا ہے۔جب تک انسان روئے زمین پر موجود ہے اور قیامت بپا نہیں ہو جاتی،انسانوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوتے رہنا ایک فطری بات ہے۔
اختلاف کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ یا تو انسان کو عقل و فہم اور ارادے سے محروم کر دیا جائے یا پھر سرے سے انسانوں کو یکبارگی صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے لیکن چونکہ ایسا ہونا ناممکن ہے اس لیے روئے زمین پر مختلف آرا ء رہیں گی اور اختلاف بھی پیدا ہوتے رہیں گے۔یہ اختلاف ہی ہے جس کی وجہ سے بحث و مباحثہ جنم لیتا ہے،ذہن کے دریچے کھلتے ہیں اور علم و آگہی میں ترقی ممکن ہو پاتی ہے۔
اگر سارے انسان ایک ہی سوچ،ایک ہی نقطہ نظر کے حامل ہو جائیں تو ایک جامد و ساکت معاشرہ تشکیل ہائے گا جس میں Advancement of learning مفقود ہو گی۔ایسے معاشرے پنپ نہیں سکتے ۔زندہ معاشروں میں اختلافِ رائے ہوتا ہے اور یہی زندہ معاشرے کی پہچان ہوتی ہے۔گویا اختلاف کا ہونا اور اختلاف کرنا عین فطرت اور زندگی کی علامت ہے۔
ساؤتھ ایشیا شخصیت پرستی میں بہت آگے ہے۔ جب کوئی بڑی اور اہم شخصیت غلطی کرتی ہے تو اس کے فالورز،اس سے پیار کرنے والے اس کے غلط ہونے یا شک کرنے کا سوچتے ہی نہیں حالانکہ کسی ہستی کی کوئی رائے کتنی ہی محکم کیوں نہ ہو، پھر بھی اس بات کا احتمال ہوتا ہے کہ اس کی رائے کے مقابلے میں ایک دوسری رائے بھی اتنی ہی وزن رکھتی ہو،اس بات کا بھی امکان رہتا ہے کہ مضبوط ترین شخصیت کی رائے میں کمزوری ہو۔جب صحت مند اختلاف کا راستہ روک دیا جائے تو انارکی اور انتشار پھیلتا ہے۔فرقہ بندی اور گروہ بندی اسی مائنڈ سیٹ سے جنم لیتی ہے۔
یہ اختلاف سے نہیں پیدا ہوتی۔یہ مخالفت اور نزاع کی وجہ سے پروان چڑھتی ہے، جب کوئی اس بات پر جم جائے کہ صرف میرا نقطہ نظر ہی صحیح ہے اور میرے نقطہ نظر سے اختلاف رکھنے والا غلط اور لعنت زدہ ہے۔ ایسے مائنڈ سیٹ سے ہی غیر صحت مند معاشرہ جنم لیتا ہے۔ہمیں بھی ایک دوسرے کی بات سننے اور اس کی رائے سے اختلاف کا سلیقہ اپنانا ہوگا۔کسی کے لیے بھی اپنی رشتے داریوں اور دوستیوں کو داؤ پر نہیں لگانا چاہیے۔ نفرتوں کا بیوپاری بننے سے گریز کریں۔
پاکستان کچھ عرصے سے شدید نزاع اور نفرت میں جل رہا ہے۔ہم بہت تیزی سے تقسیم ہو رہے ہیں۔اس خلیج کو پاٹنا مشکل ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہر دن یہ تقسیم،یہ خلیج گہری ہوتی جا رہی ہے۔ایک فرد نے تین مرتبہ خانہ جنگی کی بات کی ہے۔ہم نے پاکستانیوں کو، پاکستان کا متبرک پرچم نذر آتش کرتے اور پاکستان کا پاسپورٹ پھاڑتے دیکھا ہے۔اس جانکاہ صورتحال کے دو بڑے سبب ہیں۔پہلا سبب تو یہ ہے کہ آزادی کے بعد ہم سیاسی رہنماؤں کی کارکردگی پرکھنے کے بجائے ان کے نعروں پر انھیں دل دے بیٹھتے ہیں۔
ہر کسی کو سیاسی رائے رکھنے کی آزادی ہونی چاہیے لیکن سیاسی رائے کی جگہ ہم بے پناہ محبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ایک لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہم ہمارے اندر ملک و ملت سے گہرا لگاؤ نہیں پیدا ہوا۔ہم شخصیت پرستی کے گرداب میں پھنسی ہوئی قوم ہیں۔ہمارے وہ دل و دماغ نہیں جو اچھے کو اچھا اور برے کر برا کہے۔ہم ایک ناپختہ ذہن رکھنے والی رومانس مں مبتلا قوم ہیں۔محبت اور رومانس میں سب سے پہلے عقل کی Casualty ہوتی ہے۔ Reasonروٹھ جاتا ہے۔ہم دوسری رائے رکھنے والے کو برے برے القابات،ناموں اور گالیوں سے نوازتے ہیں۔
فیک نیوزfake newsاور hate speech کا بلا سوچے سمجھے پھیلاؤ جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر ہمیں ملنے والی اطلاعات کا بہت بڑا حصہForwaorded messages یا آڈیو اور وڈیو کلپس پر مشتمل ہو گا لیکن ہم ذرا بھی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ رُک کر دیکھ لیں کہ اس کا Contentکیا ہے،کیا یہ ہماری قومی وحدت،یکجہتی اور امن میں مددگار ہے یا پھر یہ انتشار پھیلائے گا۔
ہماری قومی وحدت ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہونی چاہیے۔ہمارے قومی رہنماؤں کے اوپر بہت بھاری ذمے واری عائد ہوتی ہے کہ جو لوگ ان کوٹوٹ کر چاہتے ہیں ان کی تربیت کریں۔وہ خود بھی بیان دیتے ہوئے،تقریر کرتے ہوئے قوم کو بہتر سے بہتر بنانے پر توجہ دیں اور الفاظ کے چناؤ میں بہت احتیاط کریں۔ جلاؤ،گھیراؤ کی صداؤں سے ناپختہ جذبات بھڑک اُٹھتے ہیںجس سے انٹونی کی زبان میں طوفان بہہ نکلتا ہے۔ خدارا بہترین الفاظ کا چناؤ کریں۔
اچھے جذبات ابھاریں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو خاموش رہنے میں نجات ہے۔ہم ایک گہری دلدل میں گرتے جا رہے ہیں۔ ہمارے سیاسی رہنماؤں کو بڑھ کر نہ صرف اس Fall کو روکنا ہے بلکہ ہمت،کوشش اور سمجھداری سے قوم کو اس دلدل سے نکالنا ہے۔ہم سب ہم وطن ہیں،دشمن نہیں۔ خدا را اس قوم کی تعمیر میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔