مظلوم و بے سہارا عوام

بڑی بڑی مراعات کے ساتھ ناتجربے کار افراد کی تعیناتی اہم اداروں میں، کسی قومی المیے سے کم نہیں

فوٹوفائل

LAKKI MARWAT:
بڑی بڑی مراعات کے ساتھ ناتجربے کار افراد کی تعیناتی اہم اداروں میں، کسی قومی المیے سے کم نہیں جو صاف صاف اس بات کی بھی عکاسی کرتی ہے کہ سیاسی بنیادوں کی یہ گٹھ جوڑ ملک کو کس طرف لے جارہی ہے ۔

یہ عمل وطن اوراس کے عوام کے ساتھ زیادتی نہیںہے؟ میرٹ کی حوصلہ شکنی نہیں ہے کہ ایسے افراد کی تعیناتی جو بالکل ہی اس عہدے کے لائق نہیں وہ ان عہدوں پر براجمان ہیں صرف و صرف سفارش کلچر کی بنیاد پر اور ایک اہل پسماندہ گھرانے کا نوجوان حسرت اور بے بسی سے اس ناانصافی کودیکھ رہا ہے اور اپنے پالنہارسے فریادکر رہا ہے۔

کیا کبھی ایسی بے حسی ، ایسی ناانصافیاں دور ہوسکیںگی؟ کیا کبھی اس ملک کے عوام کو ان کے جائزحقوق مل سکیںگے؟ درمیانے طبقے کے لوگ کس مشکل سے اپنی اولاد کو آج کے دور میں اعلی تعلیم دلاتے ہیں،خود پر جبر کر کے اپنی ضروریات کو مار کر، یہ دیکھنے کے لیے کہ ان کے اہل بچے کو سفارش اور سیاسی کلچر کی بھینٹ چڑھا دیاجائے۔

مفاد پرستوں کی تعیناتی ملک کو کہاں لے کرجائے گی، جس عظیم وطن کو ہمارے بزرگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر انتہائی درجے کے مصائب جھیل کر حاصل کیا تھا ۔کیا اسی دن کے لیے کہ ہم اسے ایک دن ان مفاد پرستوں کے ہاتھوں کا کھلونا بنا دیں، ان حالات میں وطن عزیز پاکستان اقتصادی میدان میںکیسے ترقی کر پائے گا ؟ ان لٹیروںکا احتساب کون کرے گا ؟کیا اس کے لیے روزجزا وسزا کا انتظارکرنا پڑے گا ؟ پچھلے دنوں جو گیس کی سخت بندش رہی اس نے گھروں میں کھانے پینے کے عمل کو کس قدر متاثر کیا بچے بوڑھے ہر کوئی ایک عذاب جھیل رہا تھا ۔

تعلیم اور صحت کے شعبے جو کارکردگی دکھا رہے ہیں ،ان کا نوحہ پڑھتے پڑھتے اور ان میں بہتری کی تجاویز دیتے دیتے تو اب ہم تھک چکے کیونکہ اقتدار کی باگ ڈور اشرافیہ کے پاس ہے ،انھیں ملک و قوم کی بھلائی میں کوئی دلچسپی نہیں ان کا مقصد اب صرف اپنا کماؤ اپنا کھاؤ ہی رہ گیا ہے۔

صحافت پر شب خون مارا گیا ،آج تک صحافی برادری دوبارہ نہیں ابھرسکی کیونکہ ان امیر کبیر ہستیوں کو لکھنا پڑھنا یا دانائی کی بات کرنا محض فینٹسی لگتا ہے ،کسی کے گھر کے چولہے کی انھیں کیا فکر کہ کس طرح لوگ اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں ، گھر چلاتے ہیں۔


آج کل صحت تعلیم جیسی بنیادی ضرورت بھی ایک عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور جاچکی بیروزگاری عام ہوچکی۔ کیا ہمارے گزشتہ یا موجودہ حکمرانوں کو یہ احساس بھی ہے کہ ان کے راج میں کتنے سفید پوش لوگ بھوکے سو رہے ہیں ،کتنے بزرگ علاج کی عدم دستیابی کی وجہ سے پریشان اور تکلیف میں ہیں۔ لوگوں کے ہاتھوں میں کشکول تھمانے کے بجائے ان کواپنے پیروں پر کھڑا ہونا سیکھائیں تاکہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو وہ اپنے آپ کو بے بس بے کار نہ سمجھیں ان کو محتاجی کی زندگی سے نکال کر خود انحصاری کی تحریک دیں۔

اس حوالے سے اعلانات تو بہت کیے گئے سب سے پہلے گیارہ سو ارب روپے پھر ایک سو باسٹھ ارب روپے کا کراچی پیکیج ، ایک کروڑ نوکریوں کے سبز باغ پچاس لاکھ گھر ، جعلی مردم شماری کی منظوری ،کوٹہ سسٹم، کے۔فور پانی کا منصوبہ ،سرکلرریلوے ،گرین لائن منصوبہ ، جب بھی آپ کسی بحران پر ایکشن لینے کا کہتے تھے اس کی قیمتیں اچانک عوام کے لیے امتحان بن جاتیں،کے الیکٹرک اور پیٹرولیم مصنوعات کی بار بار قیمتوں کو بڑھانے کی منظوری آخر سب سے زیادہ ٹیکس دینے کے باوجود کراچی کو کیا ملا؟ صرف آپ کے چند گھنٹے جب کہ آپ کے چودہ ایم این اے اور تیس ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔

کیا اس عظیم روشنیوں کے شہر جو کبھی ملک کا دارالخلافہ بھی تھا اپنی اسی لیاقت اور ہنر مندی کی وجہ سے آج اس کا کام صرف نوٹ دو، ووٹ دو اور اس کا نام لے کر وزیراعظم بن جاؤ رہ گیا ہے ؟ مگر جب اس کے لیے کچھ کرنے کی بات آتی ہے یا اس کی خدمات کا اعتراف کرنا ہو اس کے حقوق کا علم سر بلند کرنا ہو تو کوئی اس کے ساتھ نہیں ہوتا، اس کے باوجود اس کے عوام کا اتنا بڑا دل ہے، تمہارے ساتھ کھڑے ہوئے جب کہ اپنے دور اقتدار میں آپ نے اس محرومیوں کے شہر کو کیا دیا کبھی سوچئے گا ضرور اور آیندہ اگر موقع ملے تو اس کا تدارک کیجیے گا۔

اس شہر کے عوام کی محبتوں کو اقتدار کے نشے میں حسب روایت فراموش مت کیجیے گا جس نے اس عظیم ترین خیر و برکت کے مہینے میں اپنا انتہائی قیمتی وقت آپ کو دیا۔ اس وقت میں اگر وہ عبادت کرتے تو اس کا کتنا اجر و ثواب انھیں ملتا جس کا شاید وہ خود بھی ادراک نہ کرسکیں کہ دنیا تو محض عارضی ٹھکانہ ہے۔ آج تک سیاستدانوں کا ساتھ دینے پر ایک کا صفرہی ملا ہے اور اب آپ بھی تمام سیاسی داؤ پیچ یوٹنز سیکھ چکے، پر پھر بھی یہ جذبات سے بھر پور عوام آج بھی آپ سے امیدیں رکھتے ہیں ،آزمائے ہوئے کو دوبارہ اس لیے آزمانا چاہتے ہیں کہ وہ حقیقی طور پر چہرے نہیں نظام کو بدلنا چاہتے ہیں۔

آپ نے آنے کے ساتھ جو دعوے کیے تھے وہ ان کو سچ ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں،خدارا ان کے جذبوں کی لاج رکھیے گا ۔ دنیا آسمان پر کمندیں ڈال رہی ہے اور وطن عزیز پاکستان قندیلوں کے دور میں پتھروں کے دور میں واپس ہو رہا ہے اور ایک اہم بات جن مغربی ممالک سے آپ متاثر ہو کر ٹیکس پر ٹیکس لگاتے رہے، وہاں ٹیکسوں کے ساتھ عوام الناس کو سہولتیں اور مراعات بھی دی جاتی ہیں صرف لیا ہی نہیں جاتا دیا بھی جاتا ہے ۔

خدارا اس وطن پر رحم کیجیے آزادی کی نعمت کو بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا ہے۔ اس کے عوام خصوصا مڈل کلاس پر بھی رحم کھایئے وہ اس طبقاتی ناہمواری اور اس کے نتیجے کی کشمکش سے اب تقریبا بالکل ٹوٹ چکی، اس میں ایسا معاشرہ تشکیل دیں جہاں پھر کوئی زکوۃ لینے والا نہ ہو بلکہ دینے ہی دینے والے ہوں، خدا پاکستان کا حامی و مددگار ہو۔(آمین)
Load Next Story