ریورس گیر
بزرگوں کو احترام دینا ہو گا‘ صلہ رحمی کا درس عام کرتے ہوئے عزیزوں‘ رشتہ داروں سے ناتے تعلق مضبوط کرنے ہونگے
HYDERABAD:
یوں تو زندگی کے کئی ماہ و سال گزر چکے ہیں اور گزرتے جارہے ہیں ' مگرلگتا ایسا ہے کہ جیسے زیست کے چند ہی سال گزرے ہوں لیکن وقت ہے کہ تیزی سے بدلتا محسوس ہو رہا ہے' اقدار و روایات ہیں کہ جن کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا' دور حاضر کے نئے نئے تقاضے سامنے آرہے ہیں' کل جو اچھا تھا آج کی نسل اسے برا سمجھنے لگی ہے۔
کل کی نسل اب جو کچھ دیکھ رہی ہے اسے سب برا نظر آرہا ہے لیکن سچ اور پورا سچ یہی ہے کہ ماضی حال سے بہت ہی بہتر اور بے مثال تھا' حال نے تو بے حال ہی نہیں بد حال کر رکھا ہے اور اگر ہم اپنے حال کے تناظر میں اپنا مستقبل دیکھ رہے ہیں تو ایسا مستقبل بھیانک اور خطرناک ہی ہو سکتا ہے ' کیا زمانہ تھا جب یہ میٹھی عید یعنی عیدالفطر ہمارے آنگنوں میں اترا کرتی تھی' چاند رات خاندان کے سارے چھوٹے اپنے بزرگوں کو ان کے گھروں میں ملنے جایا کرتے تھے' اور اپنے ساتھ سویاں' شکر' چھوارے اور بچے بچیوں کے لیے مہندی' چوڑیاں اور غبارے وغیرہ لے جایا کرتے تھے۔
رات گئے تک نہ صرف عید کے دن کے لیے پروگرام طے ہوتے بلکہ عملا ایک دوسرے میں خوشیاں بانٹی جاتی تھیں' عید سے ایک ہفتہ قبل عید کارڈز کی دکانیں سج جایا کرتی تھیں اور پردیس میں عید منانے والے پردیسیوں کے لیے پیارو محبت سے لبریز خوبصورت عید کارڈز بھیجے جایا کرتے تھے اور وہ عید کارڈز اہل محبت مدتوں تک اپنے کمروں میں رکھی میز پر سجا کر رکھا کرتے تھے' عید کے ان سندیسوں میں ہمارے برادر بزرگ جناب فاروق بابر آزاد کا ایک مشہور قطعہ بھی نمایاں نظر آتا تھا کہ
جب افق پر ہلال چمکے گا
کیا شکستہ دلوں پہ گزرے گی
دل لرزتا ہے اس تصور سے
عید تیرے بغیر گزرے گی
اب ہم نے جب ہلال عید دیکھا تو اپنے خان لالہ خوب یاد آئے جو گزشتہ ستمبر میں ہمیں داغ مفارقت دے گئے' عیدین تو وہ تھیں جو ماضی میں منائی جاتی تھیں' عزیزوں ' رشتہ داروں کے ساتھ مصافحے اور معانقے ' نہ کرونا کا ڈر نہ ہی چھوت اچھوت کا خوف' سچے اور حقیقی پیار اور خالص محبتیں تھیں' پھر ایسا وقت آیا کہ جیسے لوگ' جیسی نیتیں' جیسے کردار' جیسے اخلاق' ویسے رویے' جب نیتوں میں فتور پیدا ہوا تواللہ کریم نے کرونا جیسی وباء بھیج کر نہ صرف انسانوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا بلکہ چہرے بھی ماسک سے ڈھانپ دیے حتیٰ کہ اپنے گھر کے دروازے بھی حضرت انسان پہ بند کر دیے۔
بے حس اور بے ضمیر انسان پھر بھی نہ سمجھا' گناہوں میں پہلے سے زیادہ ڈوبا نظر آیا' ملاوٹ کرنے والوں ' ذخیرہ اندوزوں ' ناجائز منافع خوروں اور بدعنوانوں نے گراوٹ میں مبتلا ہو کر فقط ہوس زر میں اپنے ایمان تک کا سودا کر ڈالا ' آج کا یہ انسان جسے ترقی سمجھتا رہا وہی اس کی تنزلی کا سبب بنی' انسان انسان نہ رہا' پتھر بن کر رہ گیااور اب ایک بار پھر یوں لگتا ہے جیسے ہم زمانہ جاہلیت میں آکھڑے ہوئے ہیں۔
عید کیسے منائیں' قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے سخت تاکید و تلقین کرنے کے باوجود کہ انسانی جانیں بے حد قیمتی ہیں' ہوائی فائرنگ سے اجتناب کیا جائے اس کے باوجود کچھ ایسے جاہل اور عاقبت نا اندیش لوگ اب بھی اس جدید اور ترقی یافتہ دور میں موجود ہیں' جنھوں نے چاند رات ہوائی فائرنگ کر کے کئی معصوم بچوں کو موت کی نیند سلا دیا' ہم نے خود ایک انتہائی کم سن بچے کی سوشل میڈیا پر خون میں لت پت ویڈیو دیکھی جسے اندھی گولی نے نگل لیاتھا' کہیں ایسے ظالم اور سفاک والد کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جو اپنی ننھی منی بچی کو ناقابل برداشت تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے۔
کہیں یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ مخالف سیاسی جماعتوں کے جاہل اوران پڑھ کارکن سیاسی بحث میں الجھ کر ایک دوسرے کو موت کے گھاٹ اتارتے نظر آرہے ہیں' یہ لوگ اتنا نہیں جانتے اور سمجھتے کہ جن سیاسی لیڈروں کو یہ اپنا قائد اور مسیحا سمجھ کر ان کے لیے اپنی جانوں تک کو قربان کرنے پر تلے ہوئے ان میں سے ایک بھی نہ تو ان کا اور نہ ہی ملک و قوم کا خیر خواہ ہے فقط ذاتی مفادات کی جنگ ہے اور یہ ہمیں اور آپ کو آپس میں لڑوانے والے سیاسی لیڈر تو رات کی تاریکی میں ایک دوسرے کے حجرے اور ڈر ائنگ رومز میں پیار کی پینگیں بڑھا رہے ہوتے ہیں۔
گھر میں اگر تین بھائی یا بہنیں ہیں تو سب نے الگ الگ سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کر رکھی ہے تاکہ ہر دور میں اقتدار گھر میں ہی رہے ' رات کو جب یہ بہن بھائی ایک ساتھ ڈائننگ ٹیبل پر انواع و اقسام کے کھابے ڈکارتے ہیں تو عوام کا خوب تمسخر اڑاتے ہیں کہ ان جاہل اور بے وقوف عوام کو ہم نے کیسا بے وقوف بنایا ہے۔
ہم گلہ کریں تو کس سے کریں' ہر لیڈر نے ہمیشہ مذہب' دین ' معاشرت اور حب الوطنی کے کارڈز کھیل کر ہمارے احساسات و جذبات کا خون کیاہے ' ہم عید کیسے منائیں' یہ بدلتا وقت ہمیں اجازت ہی نہیں دے رہا کہ کس ڈھنگ سے عید منائی جائے ' سیاسی ٹمپریچر اتنا زیادہ کر دیا گیا ہے کہ کسی بھی فرد کا اپنا ٹمپریچر نیچے گرنے کو تیار نہیں ' پگڑیاں اچھالی جانے لگی ہیں' ہاتھ ایک دوسرے کے گریبانوں تک جا پہنچے ہیں' سکون' چین' آرام سب کچھ غارت ہو چکا ہے' اب ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ واپسی ممکن ہی نہیں رہی' ہر طرف انتقام' انتقام 'اور انتقام کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔
الزامات اور بہتانوں کی بوچھاڑ ہے' الزام آج تک ایک بھی ثابت نہیں ہو سکا' جو لوگ دوسروں کو چور اور ڈاکو کہہ رہے ہیں اپنے تین چار سالہ دورمیں وہ چوریاں اور ڈکیتیاں ثابت کیوں نہیں کر سکے اور جب وہی الزام ان پر عائد ہونے لگے ہیں تو خود کو دودھ کے دھلے قرار دینے میں کیوں ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔ افسوس صد افسوس وقت اتنا بدل چکا ہے کہ اب ہم نے یہ اپنا قومی وتیرہ بنا لیا ہے کہ کل تک جو محب وطن باکردار اور مخلص و باوفا لیڈر تھے آج وہی غدار اور نہ جانے کیا کچھ گردانے جاتے ہیں اور جو آج مخلص و باوفا ہیں کل وہی غدار اور بد کردار ہوں گے۔
قوم جائے تو کہاں جائے' ایک حتمی' آخری اور مکمل بیانیہ کیوں نہیں سامنے آتا کہ قوم ایک ہی بار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مطمئن ہو جائے کہ کون ملک و قوم کے لیے مخلص و باوفا ہے اور کون غدار۔ قوم تو عجیب مخمصہ میں مبتلا ہے' نہ حال کا پتہ نہ مستقبل کا اطمینان' بس اب اس کا ایک ہی حل ہے کہ ہمیں اب ایک دم ریورس گیر لگانا ہو گا' ماضی کی طرف لوٹنا ہو گا' اپنی قومی و دینی اقدارو روایات کو زندہ کرنا ہوگا۔
بزرگوں کو احترام دینا ہو گا' صلہ رحمی کا درس عام کرتے ہوئے عزیزوں' رشتہ داروں سے ناتے تعلق مضبوط کرنے ہونگے' اپنی قومی ترجیحات کا تعین کرنا ہو گا' وقت کو لگام دینا ہو گی' نیا نہیں پرانا ' وضع دار اورروشن پاکستان پھر سے قائم کرنا ہو گا علیحدگی پسند تنظیموں کو اعتماد میں لینا ہو گا کہ کامیابی اور کامرانی اتحاد و یگانگت سے ممکن ہے' بنگلہ دیش جیسا سانحہ اور سقوط ڈھاکہ جیسا عمل تا قیامت پھر کبھی نہیں دہرانا ہو گا' اپنے عظیم اسلاف کے نقش قدم پر چلنا ہو گا' اپنی شاندار اور تابناک تاریخ کو پھر سے زندہ کرنا ہو گا' پیارو محبت کے گیت الاپنے ہونگے' وطن پاک کو عزیز تر رکھنا ہو گا ' دین مبین اسلام کے پرچم کو سر بلند رکھنا ہو گا۔