پاکستان کیساتھ بارڈر سیکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کیلیے ملکر کام کرنا چاہتے ہیں امریکا
پاکستان سے دو طرفہ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں
MIRPUR, AJK:
امریکا نے پاکستان کے ساتھ مل کر سرحدوں کے تحفظ اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کی قدر کرتے ہیں اور مخصوص شعبوں میں پاکستان کے ساتھ کام جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کی سیکیورٹی امداد کی بحالی سے متعلق سوال کے جواب میں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا مزید کہنا تھا کہ یہ مخصوص شعبے بارڈر سیکیورٹی اور کاؤنٹر ٹیررازم ہے۔ پہلے بھی ان شعبوں میں پاکستان کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں : امریکا کی کراچی یونیورسٹی میں دہشتگرد حملے کی مذمت
ایک اور صحافی نے جب پوچھا کہ امریکی ادارے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھارت کو مذہبی آزادی پر قدغن لگانے والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے تو ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ یہ نجی ادارہ ہے جو امریکی حکومت کو سفارشات اور رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
تاہم انھوں نے واضح نہیں کیا کہ اس ادارے کی بھارت سے متعلق کیا سفارشات ہیں اور اس پر عمل درآمد کی رفتار کتنی ہے۔
امریکا نے پاکستان کے ساتھ مل کر سرحدوں کے تحفظ اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کی قدر کرتے ہیں اور مخصوص شعبوں میں پاکستان کے ساتھ کام جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کی سیکیورٹی امداد کی بحالی سے متعلق سوال کے جواب میں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا مزید کہنا تھا کہ یہ مخصوص شعبے بارڈر سیکیورٹی اور کاؤنٹر ٹیررازم ہے۔ پہلے بھی ان شعبوں میں پاکستان کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں : امریکا کی کراچی یونیورسٹی میں دہشتگرد حملے کی مذمت
ایک اور صحافی نے جب پوچھا کہ امریکی ادارے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھارت کو مذہبی آزادی پر قدغن لگانے والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے تو ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ یہ نجی ادارہ ہے جو امریکی حکومت کو سفارشات اور رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
تاہم انھوں نے واضح نہیں کیا کہ اس ادارے کی بھارت سے متعلق کیا سفارشات ہیں اور اس پر عمل درآمد کی رفتار کتنی ہے۔