سرطانی خلیے کو چیر کر کینسر کو سمجھنے میں پیشرفت
خلوی تقسیم کے دوران تحقیق سے کینسر کی بنیاد سمجھنے میں مدد ملی ہے جس سے علاج کی راہ ہموار ہوگی
کراچی:
پوری دنیا میں کینسر کے طریقہ واردات سمجھنے کی سرتوڑ کوشش کی جارہی ہے۔ اب اس ضمن میں زندہ سیل کی خلوی تقسیم (سیل ڈویژن) کے دوران کینسر کے مخلتف مراحل کو بہت تفصیل سے سمجھا گیا ہے جس سے علاج کے نئے طریقے سامنے آسکیں گے۔
اسے یوں سمجھیے کہ زخم بھرنے کا عمل خلیات سے شروع ہوتا ہے۔ صحت مند خلیے کی تقسیم کے دوران جب خلیہ ٹوٹتا ہے تو ہر کروموسوم کی یکساں نقول بنتی ہیں جو آگے چل کر دونوں خلیات می تقسیم ہوجاتی ہیں۔
یہ پورا کام ایک پیچیدہ حیاتیاتی مشین کے تحت ہوتا ہے جسے 'مائٹوٹک اسپنڈل' کا نام دیا گیا ہے۔ اب اگر معمولی گڑبڑ ہوجائے تو کروموسوم کی یکساں کاپیاں نہیں پاتیں اور اس عمل کو 'اینی پلوئڈ' کہا جاتا ہے۔ یوں دونوں خلیات میں یکساں جینیاتی معلومات سے محروم رہ جاتے ہیں اور ناقص ہوتے ہیں۔
یاد رکھیں کہ سرطان زدہ خلیات بھی 'اینی پلوئڈ' ہی ہوتے ہیں لیکن اب تک ہم اس عمل کو تفصیل سے سمجھ نہیں پائے تھے۔ اب واروِک یونیورسٹی کے پروفیسر اسٹیفن روئل اور ان کے ساتھیوں نے اس پر تفصیلی غور کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بعض کروموسوم سیل اسپنڈل کے پاس کچھ جھلیوں میں کروموسوم پھنس کر غائب ہوجاتے ہیں۔ یوں خلوی تقسیم انبارمل ہوجاتی ہے اور نتیجے میں کینسر والا خلیہ وجود میں آتا ہے۔
اس کے لیے خلیات کی ایک طرح سے چیر پھاڑ (سرجری) کرنا پڑی۔ یہاں تک کہ جھلیوں (میمبرین) میں پھنسے کروموسوم نکال باہر کرنے کے لیے ایک نیا طریقہ بھی وضع کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ گمشدہ کروموسوم کو بازیاب کرایا گیا اور یوں نارمل اور صحتمندانہ خلوی تقسیم کا عمل انجام دیا گیا۔
اس سے دو انکشافات ہوئے، اول کہ کروموسوم کھوجانے اور جھلیوں میں پھنسنے سے سرطان ہوتا ہے اور دوم اس طریقے کو خلوی سطح پر روک کر کینسر کے نئے علاج دریافت کئے جاسکتے ہیں۔ اس سے قبل بھی بہت سے سائنسداں خلوی تقسیم پر غور کرتے رہے ہیں لیکن انہوں نے اسپنڈل میں جھانکا ہے جبکہ پروفیسر اسٹیفن نے خلوی تقسیم میں جھلیوں پر غور کیا ہے۔ اگر اس عمل کو پہلے مرحلے پر ہی روک لیا جائے تو پہلے مرحلے پر ہی کینسر کے فروغ کو روکا جاسکتا ہے۔
یہ تحقیق جرنل آف سیل بیالوجی میں شائع ہوئی ہے۔
پوری دنیا میں کینسر کے طریقہ واردات سمجھنے کی سرتوڑ کوشش کی جارہی ہے۔ اب اس ضمن میں زندہ سیل کی خلوی تقسیم (سیل ڈویژن) کے دوران کینسر کے مخلتف مراحل کو بہت تفصیل سے سمجھا گیا ہے جس سے علاج کے نئے طریقے سامنے آسکیں گے۔
اسے یوں سمجھیے کہ زخم بھرنے کا عمل خلیات سے شروع ہوتا ہے۔ صحت مند خلیے کی تقسیم کے دوران جب خلیہ ٹوٹتا ہے تو ہر کروموسوم کی یکساں نقول بنتی ہیں جو آگے چل کر دونوں خلیات می تقسیم ہوجاتی ہیں۔
یہ پورا کام ایک پیچیدہ حیاتیاتی مشین کے تحت ہوتا ہے جسے 'مائٹوٹک اسپنڈل' کا نام دیا گیا ہے۔ اب اگر معمولی گڑبڑ ہوجائے تو کروموسوم کی یکساں کاپیاں نہیں پاتیں اور اس عمل کو 'اینی پلوئڈ' کہا جاتا ہے۔ یوں دونوں خلیات میں یکساں جینیاتی معلومات سے محروم رہ جاتے ہیں اور ناقص ہوتے ہیں۔
یاد رکھیں کہ سرطان زدہ خلیات بھی 'اینی پلوئڈ' ہی ہوتے ہیں لیکن اب تک ہم اس عمل کو تفصیل سے سمجھ نہیں پائے تھے۔ اب واروِک یونیورسٹی کے پروفیسر اسٹیفن روئل اور ان کے ساتھیوں نے اس پر تفصیلی غور کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بعض کروموسوم سیل اسپنڈل کے پاس کچھ جھلیوں میں کروموسوم پھنس کر غائب ہوجاتے ہیں۔ یوں خلوی تقسیم انبارمل ہوجاتی ہے اور نتیجے میں کینسر والا خلیہ وجود میں آتا ہے۔
اس کے لیے خلیات کی ایک طرح سے چیر پھاڑ (سرجری) کرنا پڑی۔ یہاں تک کہ جھلیوں (میمبرین) میں پھنسے کروموسوم نکال باہر کرنے کے لیے ایک نیا طریقہ بھی وضع کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ گمشدہ کروموسوم کو بازیاب کرایا گیا اور یوں نارمل اور صحتمندانہ خلوی تقسیم کا عمل انجام دیا گیا۔
اس سے دو انکشافات ہوئے، اول کہ کروموسوم کھوجانے اور جھلیوں میں پھنسنے سے سرطان ہوتا ہے اور دوم اس طریقے کو خلوی سطح پر روک کر کینسر کے نئے علاج دریافت کئے جاسکتے ہیں۔ اس سے قبل بھی بہت سے سائنسداں خلوی تقسیم پر غور کرتے رہے ہیں لیکن انہوں نے اسپنڈل میں جھانکا ہے جبکہ پروفیسر اسٹیفن نے خلوی تقسیم میں جھلیوں پر غور کیا ہے۔ اگر اس عمل کو پہلے مرحلے پر ہی روک لیا جائے تو پہلے مرحلے پر ہی کینسر کے فروغ کو روکا جاسکتا ہے۔
یہ تحقیق جرنل آف سیل بیالوجی میں شائع ہوئی ہے۔