عیدالفطر اور معاشی سرگرمیاں
معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی تو معاشی ترقی کا پہیہ حرکت میں آئے گا
LONDON:
مارچ 2020 سے ہی کورونا وبا نے اپنے پنجے گاڑنے شروع کر دیے تھے کہ ماہ اپریل 20 آیا اور آخری ہفتے سے قبل ہی ماہ صیام کا آغاز ہوا۔ پورے ملک کی مارکیٹیں، بازار، شاپنگ پلازے، کاروباری مراکز بند ہی چلے آ رہے تھے۔ کہیں چند گھنٹوں کے لیے نرمی تھی۔ لاک ڈاؤن کے بعد جب بازاروں میں گہما گہمی شروع ہوئی تو عیدالفطر گزر چکی تھی۔
ملتی جلتی قسم کی صورت حال کا سامنا 2021 میں بھی کرنا پڑا۔ کورونا کی دوسری لہر نے پھر اپنا زور دکھانا شروع کردیا تھا۔ ایس او پیز پر عملدرآمد کیا جا رہا تھا۔ بزنس کے اوقات کم سے کم مقرر کر دیے گئے۔ کووڈ 19 کے باعث عیدالفطر کی نماز پڑھ کر لوگوں نے گھروں میں بیٹھنے میں ہی عافیت جانی۔ پورے دو سال کے عرصے کے بعد عید الفطر انتہائی جوش و خروش کے ساتھ منائی گئی ، کیونکہ ماہ شعبان کی آمد کے ساتھ ہی حسب روایت عید مبارک کی تیاریوں کا آغاز ہو چکا تھا۔
کپڑوں کی دکانوں پر بتدریج رش بڑھنے لگا ، درزیوں کے دام بڑھنے لگے۔ جوتوں کی دکانوں میں نت نئے ڈیزائن کے جوتے آویزاں کیے جانے لگے۔ پورے رمضان المبارک کے دوران مٹھائی کی دکانوں، بیکریوں کی سیل میں اضافہ ، پھل فروٹ والوں کی چاندی ہوگئی، امیر افراد کی جانب سے مسجدوں میں ، رہ گزر پر، سڑکوں، بازاروں میں دسترخوان سجائے جانے لگے۔ افطار و سحر کا بھر پور انتظام کیا جانے لگا۔ افطار پارٹیاں بھی خوب منعقد ہوئیں اور پھر بچوں کی عید کی تیاریوں کے رنگ نرالے۔ والدین ان کی فرمائشیں پوری کر رہے تھے۔
چاند رات والے دن کیک مٹھائیوں کی دکانوں پر رش، قصائیوں کی دکانوں پر قطاریں، مرغی وہ بھی برائلر مرغی کو ایسے پر لگے کہ اہل کراچی کا کہنا ہے کہ پانچ سو روپے فی کلو زندہ مرغی بکتی رہی۔ قصائیوں نے بھی ہڈی، چھیچھڑے بھر بھر کر گوشت تول دیا ، کسی نے ذرا بھی اعتراض کیا تو اسے کہا کہ ''چلتے بنیے'' کیونکہ اور گاہک بہت۔ عید سے چند دن قبل سے جو شامت آئی تو پردیسیوں کی آئی وہ ورکرز وہ مزدور وہ محنت کش جو اپنے آبائی علاقوں کی طرف عید کرنے جا رہے تھے جب بسوں کے اڈوں پر پہنچے تو اخباری اطلاعات کے مطابق کرایوں میں 80 تا40 فیصد اضافہ ہو چکا تھا یا کردیا گیا تھا یا زبردستی زائد کرایہ وصول کیا جا رہا تھا۔ عدم ادائیگی کی صورت میں بس میں بٹھانے سے صاف انکار کیا جا رہا تھا۔
کیونکہ مسافروں کی لائن لگی ہوئی تھی ، کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ یہ حال کراچی سے اندرون ملک یا اندرون سندھ جانے والی بسوں کا ہی نہیں تھا، لاہور کے پردیسی اپنے علاقوں میں جانے کے لیے بس اڈوں پر پہنچے تو وہاں بھی اسی طرح کے بس والے موجود تھے اور پھر پنڈی، فیض آباد وغیرہ کی کیا بات ہے۔ جتنا مرضی کرایہ وصول کرلو۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
سرگودھا، فیصل آباد، ملتان، پشاور جانے والوں نے بھی بس والوں سے متعلق یہی شکایت کی کہ زائد کرایہ وصول کیا جا رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ پورے ملک کے بڑے شہروں کا یہی حال ہے۔ سرکار محض دو، تین ٹرینیں چلا کر سمجھتی ہے کہ عوام کے لیے بہت کچھ کرلیا۔
بہرحال چاند رات کی بات ہو رہی تھی، اس سال کی عیدالفطر روایتی مذہبی جوش و خروش سے منائی گئی۔ کہا گیا کہ مرد بھی اب عید کی تیاریوں میں پیچھے رہنے کو تیار نہیں تھے انھوں نے بھی کہیں چہرے کو فیشل کروایا، بہترین کٹنگ کے لیے ہیئر ڈریسر کی مٹھی گرم کی، بچوں نے چشمے، پستول (نقلی) اور جوتے، گھڑیاں، لاکٹ، رومال، کیپ خریدے۔ مردوں نے بھی اپنے لیے نت نئے ڈیزائن کے جوتے منہ مانگے داموں پر خریدے۔ ملتان کے کھسے مشہور ہیں۔
حرم گیٹ کے اندر کھسوں کی دکانوں پر رش رہا۔ اس مرتبہ بقول دکانداروں کے کہ خواتین نے بھی کھسے خریدے۔ اسی طرح تلہ گنگ، چکوال میں بھی زری کھسے اور کھیڑیاں، پشاوری، کوہاٹی چپل بھی فروخت ہوئیں ، اور پھر عید والے دن ملنے ملانے کے علاوہ شام ہوتے ہی بچوں نے آئس کریم کی دکانوں سے آئس کریم کھائی۔ ان میں بچے بڑے، بچیاں، خواتین سب شامل تھیں۔ صاحب خانہ نے بھی اپنے اہل خانہ کی فرمائشیں پوری کرنے میں اپنی جیب کو کھلی اجازت دے رکھی تھی۔
غریبوں، ناداروں، معاشرے کے غریب طبقوں کی جیبوں میں بھی رقوم آئیں، اسلام نے ایسا معاشی نظام دیا ہے جس میں غریبوں، تنگدستی کا شکار لوگوں کی کفالت کا انتظام صاحب حیثیت لوگوں پر ڈالا گیا۔ حاجت مندوں کی اعانت کرنے کا حکم دیا گیا، اسلام نے غریب رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں اور معاشرے کے سفید پوش لوگوں کی مدد کرنے کی ترغیب دی ہے اور اس مالی اعانت کو مختلف عنوانات کے تحت کار ثواب قرار دیا گیا۔
زکوٰۃ، صدقہ خیرات، عید کی نماز سے قبل فطرانہ ادا کرنے کا حکم اور دیگر مالی عبادات کو انتہائی اہمیت کا درجہ دیا گیا ہے۔ یہی وہ زریں اصول ہیں جس کے تحت دولت کی تقسیم میں عدم مساوات کو دور کیا جاتا ہے۔
جب ان کے پاس بھی پیسہ آئے گا وہ اسے خرچ کریں گے۔ معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔ اس طرح عیدالفطر کے موقع پر دونوں طبقے اپنے اپنے طور پر جب خرچ کریں گے، اشیا پیداوار و مصنوعات صرف ہوں گی۔ خرچ ہوگا تو مزید اخراجات کا راستہ کھلے گا۔
معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی تو معاشی ترقی کا پہیہ حرکت میں آئے گا۔ عیدالفطر کو اس طرح منایا جائے کہ امیر افراد اسلامی احکامات کے مطابق غریبوں کا بھرپور خیال رکھیں توملک میں مجموعی اخراجات میں جب اضافہ ہوتا ہے تو طلب بڑھتی ہے جسے پورا کرنے کے لیے رسد بڑھانے کے لیے کارخانوں، ملوں میں پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے، اس طرح روزگار کے مواقع بھی بڑھتے ہیں، بہرحال عیدالفطر کے موقع پر معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔
مارچ 2020 سے ہی کورونا وبا نے اپنے پنجے گاڑنے شروع کر دیے تھے کہ ماہ اپریل 20 آیا اور آخری ہفتے سے قبل ہی ماہ صیام کا آغاز ہوا۔ پورے ملک کی مارکیٹیں، بازار، شاپنگ پلازے، کاروباری مراکز بند ہی چلے آ رہے تھے۔ کہیں چند گھنٹوں کے لیے نرمی تھی۔ لاک ڈاؤن کے بعد جب بازاروں میں گہما گہمی شروع ہوئی تو عیدالفطر گزر چکی تھی۔
ملتی جلتی قسم کی صورت حال کا سامنا 2021 میں بھی کرنا پڑا۔ کورونا کی دوسری لہر نے پھر اپنا زور دکھانا شروع کردیا تھا۔ ایس او پیز پر عملدرآمد کیا جا رہا تھا۔ بزنس کے اوقات کم سے کم مقرر کر دیے گئے۔ کووڈ 19 کے باعث عیدالفطر کی نماز پڑھ کر لوگوں نے گھروں میں بیٹھنے میں ہی عافیت جانی۔ پورے دو سال کے عرصے کے بعد عید الفطر انتہائی جوش و خروش کے ساتھ منائی گئی ، کیونکہ ماہ شعبان کی آمد کے ساتھ ہی حسب روایت عید مبارک کی تیاریوں کا آغاز ہو چکا تھا۔
کپڑوں کی دکانوں پر بتدریج رش بڑھنے لگا ، درزیوں کے دام بڑھنے لگے۔ جوتوں کی دکانوں میں نت نئے ڈیزائن کے جوتے آویزاں کیے جانے لگے۔ پورے رمضان المبارک کے دوران مٹھائی کی دکانوں، بیکریوں کی سیل میں اضافہ ، پھل فروٹ والوں کی چاندی ہوگئی، امیر افراد کی جانب سے مسجدوں میں ، رہ گزر پر، سڑکوں، بازاروں میں دسترخوان سجائے جانے لگے۔ افطار و سحر کا بھر پور انتظام کیا جانے لگا۔ افطار پارٹیاں بھی خوب منعقد ہوئیں اور پھر بچوں کی عید کی تیاریوں کے رنگ نرالے۔ والدین ان کی فرمائشیں پوری کر رہے تھے۔
چاند رات والے دن کیک مٹھائیوں کی دکانوں پر رش، قصائیوں کی دکانوں پر قطاریں، مرغی وہ بھی برائلر مرغی کو ایسے پر لگے کہ اہل کراچی کا کہنا ہے کہ پانچ سو روپے فی کلو زندہ مرغی بکتی رہی۔ قصائیوں نے بھی ہڈی، چھیچھڑے بھر بھر کر گوشت تول دیا ، کسی نے ذرا بھی اعتراض کیا تو اسے کہا کہ ''چلتے بنیے'' کیونکہ اور گاہک بہت۔ عید سے چند دن قبل سے جو شامت آئی تو پردیسیوں کی آئی وہ ورکرز وہ مزدور وہ محنت کش جو اپنے آبائی علاقوں کی طرف عید کرنے جا رہے تھے جب بسوں کے اڈوں پر پہنچے تو اخباری اطلاعات کے مطابق کرایوں میں 80 تا40 فیصد اضافہ ہو چکا تھا یا کردیا گیا تھا یا زبردستی زائد کرایہ وصول کیا جا رہا تھا۔ عدم ادائیگی کی صورت میں بس میں بٹھانے سے صاف انکار کیا جا رہا تھا۔
کیونکہ مسافروں کی لائن لگی ہوئی تھی ، کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ یہ حال کراچی سے اندرون ملک یا اندرون سندھ جانے والی بسوں کا ہی نہیں تھا، لاہور کے پردیسی اپنے علاقوں میں جانے کے لیے بس اڈوں پر پہنچے تو وہاں بھی اسی طرح کے بس والے موجود تھے اور پھر پنڈی، فیض آباد وغیرہ کی کیا بات ہے۔ جتنا مرضی کرایہ وصول کرلو۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
سرگودھا، فیصل آباد، ملتان، پشاور جانے والوں نے بھی بس والوں سے متعلق یہی شکایت کی کہ زائد کرایہ وصول کیا جا رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ پورے ملک کے بڑے شہروں کا یہی حال ہے۔ سرکار محض دو، تین ٹرینیں چلا کر سمجھتی ہے کہ عوام کے لیے بہت کچھ کرلیا۔
بہرحال چاند رات کی بات ہو رہی تھی، اس سال کی عیدالفطر روایتی مذہبی جوش و خروش سے منائی گئی۔ کہا گیا کہ مرد بھی اب عید کی تیاریوں میں پیچھے رہنے کو تیار نہیں تھے انھوں نے بھی کہیں چہرے کو فیشل کروایا، بہترین کٹنگ کے لیے ہیئر ڈریسر کی مٹھی گرم کی، بچوں نے چشمے، پستول (نقلی) اور جوتے، گھڑیاں، لاکٹ، رومال، کیپ خریدے۔ مردوں نے بھی اپنے لیے نت نئے ڈیزائن کے جوتے منہ مانگے داموں پر خریدے۔ ملتان کے کھسے مشہور ہیں۔
حرم گیٹ کے اندر کھسوں کی دکانوں پر رش رہا۔ اس مرتبہ بقول دکانداروں کے کہ خواتین نے بھی کھسے خریدے۔ اسی طرح تلہ گنگ، چکوال میں بھی زری کھسے اور کھیڑیاں، پشاوری، کوہاٹی چپل بھی فروخت ہوئیں ، اور پھر عید والے دن ملنے ملانے کے علاوہ شام ہوتے ہی بچوں نے آئس کریم کی دکانوں سے آئس کریم کھائی۔ ان میں بچے بڑے، بچیاں، خواتین سب شامل تھیں۔ صاحب خانہ نے بھی اپنے اہل خانہ کی فرمائشیں پوری کرنے میں اپنی جیب کو کھلی اجازت دے رکھی تھی۔
غریبوں، ناداروں، معاشرے کے غریب طبقوں کی جیبوں میں بھی رقوم آئیں، اسلام نے ایسا معاشی نظام دیا ہے جس میں غریبوں، تنگدستی کا شکار لوگوں کی کفالت کا انتظام صاحب حیثیت لوگوں پر ڈالا گیا۔ حاجت مندوں کی اعانت کرنے کا حکم دیا گیا، اسلام نے غریب رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں اور معاشرے کے سفید پوش لوگوں کی مدد کرنے کی ترغیب دی ہے اور اس مالی اعانت کو مختلف عنوانات کے تحت کار ثواب قرار دیا گیا۔
زکوٰۃ، صدقہ خیرات، عید کی نماز سے قبل فطرانہ ادا کرنے کا حکم اور دیگر مالی عبادات کو انتہائی اہمیت کا درجہ دیا گیا ہے۔ یہی وہ زریں اصول ہیں جس کے تحت دولت کی تقسیم میں عدم مساوات کو دور کیا جاتا ہے۔
جب ان کے پاس بھی پیسہ آئے گا وہ اسے خرچ کریں گے۔ معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔ اس طرح عیدالفطر کے موقع پر دونوں طبقے اپنے اپنے طور پر جب خرچ کریں گے، اشیا پیداوار و مصنوعات صرف ہوں گی۔ خرچ ہوگا تو مزید اخراجات کا راستہ کھلے گا۔
معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی تو معاشی ترقی کا پہیہ حرکت میں آئے گا۔ عیدالفطر کو اس طرح منایا جائے کہ امیر افراد اسلامی احکامات کے مطابق غریبوں کا بھرپور خیال رکھیں توملک میں مجموعی اخراجات میں جب اضافہ ہوتا ہے تو طلب بڑھتی ہے جسے پورا کرنے کے لیے رسد بڑھانے کے لیے کارخانوں، ملوں میں پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے، اس طرح روزگار کے مواقع بھی بڑھتے ہیں، بہرحال عیدالفطر کے موقع پر معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔