قصور کس کا ہے
اسلام آباد جو کچھ ہوا اسے دیکھ کر حیرت ہوئی،کتنے نادان ہیں یہ لوگ
اگر آپ ہم سے یہ سیدھا سادا سوال سیدھے سادے طریقے پر کریں گے تو ہم بھی سیدھا سادا جواب دیں گے...''قصور'' کسی کابھی نہیں بلکہ ''قصور'' والوں کا ہے ،دعوے تو اس پر بہت سوں کے ہیں، نورجہاں ،خورشید محمود قصوری، محمود علی قصوری، احمد رضاقصوری خودکولاکھ قصوری بتائیں لیکن ''قصور'' صرف قصور والوں کا ہے جس طرح دلی دل والوں کی اوربمبئی ''پیسے'' والوں کی ہے، تھی اور رہے گی۔
کہتے ہیں دوبھائی زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے لڑرہے تھے،ایک کہتاتھایہ زمین میری ہے دوسراکہتاتھا میری ہے۔ایک بزرگ نے زمین سے پوچھاتم ان میں سے کس کی ہو ؟ زمین نے کہا یہ دونوںپاگل ہیں ان میں سے کسی کی بھی نہیں بلکہ یہ دونوں ''میرے''ہیں۔
اس سلسلے میں اگر انصاف کی نظرسے دیکھ کر انصاف کیاجائے تو زمین نے بالکل سچ کہا ہے کہ زمین کے لیے لڑنے والے سارے ہی پاگل ہیں کہ زمین ان میں سے کسی کی بھی نہ تو کبھی تھی، نہ ہے اورنہ ہوگی۔
ویسے ''زمین'' بھی اس معاملے میں انتہائی انصاف دار ہے وہ بڑے انصاف کے ساتھ اور انصاف کو ہاتھ لے کر اپنے ہر ''بچے''کو یکساں طورپر ''دوگز''کاٹکڑا دیتی ہے نہ ایک انچ کم نہ ایک انچ زیادہ۔یہ الگ بات ہے کہ اس کے بیٹے اپنی ماں کاانصاف بھی نہ مان کر یہاں بھی اپنی عادت کے مطابق قبضہ گیری کرتے رہتے ہیں ''تاج محل'' نے جو رقبہ گھیر رکھا ہے وہ کم سے کم پچاس ایکڑ ہے حالاں کہ دونوں میاں بیوی کا حصہ کل بارہ گز کابنتاہے بلکہ تہہ خانے میں دونوں کی جو قبریں ہیں وہ بارہ فٹ سے بھی کم ہیں۔
بڑے دنوں تغافل نے تیرے پیداکی
وہ اک نگاہ جو بظاہرنگاہ سے کم ہے
نہ پوچھ نسخہ مرہم جراحت دل کا
کہ اس میں ریزہ الماس جزواعظم ہے
اب کیاکیاجائے جب بات زمین اوراس کی ملکیت کی چلتی ہے تو ٹالسٹائے کے اس افسانے تک پہنچ جاتی ہے جس میں ایک شخص بادشاہ سے ''زمین ''مانگتاہے بادشاہ اسے گھوڑا دے کر کہتا ہے کہ جاؤ جتنی زمین کے گرد تم نے دائرہ بنایااتنی زمین تیری۔لیکن شرط یہ ہے کہ تمہیں سورج غروب ہونے سے پہلے اس پوائنٹ پرواپس پہنچنا ہے وہ شخص دوڑ پڑا ۔
اس نے ایک بہت بڑا دائرہ کھینچ کر بہت ساری زمین بھی اپنے خیال میں اپنے نام کر لی لیکن دائرہ وسیع کرنے کے ہوس میں بہت دورچلاگیا تھا واپسی میں گھوڑا بھی گر کر مرگیا،تو یہ خود دوڑنے لگا پھر خود بھی تھک گیا تو گھسیٹ گھسیٹ کر گھٹنوں کے بل ،پھر سینے کے بل ،لیکن یہ تو اپنے نشان پر نہ پہنچ سکا البتہ سورج غروب کے مقام پر پہنچ گیا،ساتھ روح بھی پروازکرگئی ،بادشاہ نے اسے وہیں پر دفن کر نے کاحکم دے کرکہا ۔جانتا نہیں تھا ورنہ اس کی اصل ضرورت اتنی ہی زمین تھی جتنی میں دفن ہوا۔
اب کے بمقام اسلام آباد جو کچھ ہوا اسے دیکھ کر حیرت ہوئی،کتنے نادان ہیں یہ لوگ۔جو اس چیز کے لیے لڑ رہے ہیں جو نہ کبھی کسی کی ہوئی ہے نہ ہوگی۔
پشتو کاایک بہت مشہور اورپاپولر گیت ہے ۔
لیلو۔۔باغ داباغوان دے
مونگہ شنہ طوطیان یو نن دلے سبا بہ زونہ
یہ گانا جب بجتاہے تو لوگ اس کے سرالفاظ سے بھی خاصے لطف اندوزہوتے ہیں کہ ۔
اے لیلا۔باغ تو باغوان کاہے ہم تو صرف ایک موسم کے ''طوطے'' ہیں آج یہاں ہیں کل چلے جائیں گے ۔
اس میں یہ جو باغ اورباغبان کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ دوسرے لہجے میں۔ اور بھاگ وان ہوجاتے ہیں ،بھگ بھاگ ،بھاگے۔ سارے الفاظ دراصل اس ''جہان'' کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔کہتے ہیں لفظ ''بغداد'' بھی اصل ''بھگ دا'' یا ''باغ داد''ہے۔
پرانے فارسی ادب میں چین کے بادشاہ کے لیے ''فعفور'' کا لفظ مخصوص تھا جو اصل میں ''بھگ پور'' یعنی ''بھگوان کا بیٹا'' ہے۔ فعفورچین ،بھگ پورچین ،یہی ''بھگ ''کا لفظ جو اس ''جہان'' اور باغ کے لیے استعمال ہوتاہے،آگے پھر نصیب اورقسمت کے لیے بھی استعمال ہونے لگا،بھاگے میں لکھا ہے۔بھاگے میں نہ جانے کیا لکھا ہے، ایک دوسرے کو۔۔اوراکثرشوہراپنی بیویوں کو بھی ''بھاگے وان''کہتے ہیں اس بات کو تھوڑا سا آگے بڑھا کر ہم اس ''کرسی''کو بھی ''بھاگے وان''کہہ سکتے ہیںجوبمقام ''مرجع خلائق'' مجموعہ خلائق اورمرقع شقائق ہے۔
سب کوپتہ ہے سب جانتے ہیں کہ یہ کم بخت طوائف عالم حرافہ زمان اورمصیبت جہاں کسی کی بھی نہیں ہے۔بقول حافظ شیراز۔
مجودرستی عہد ازجہان سست خراب
کہ این عجوزہ عروس ہزار داماد است
''داماد'' فارسی میں شوہراوردولہے کو کہتے ہیں اور زمین کی یہ عروس ہزار داماد۔کل کس کی تھی آج کس کی ہے اورپھر کل کس کی ہوگی یہ سب جانتے ہیں لیکن پھر بھی نہیں مانتے کہ طوائف کسی کی بھی نہیں ہوتی کیوں کہ وہ ہرکسی کی ہوتی ہے اورجب ہرکسی کی ہو تو پھر کسی کی بھی نہیں۔
اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ ''قصور'' کسی کا بھی نہیں چاہے کوئی کتنا ہی بڑا''قصوروار'' ہو کیوں کہ قصورصرف اورصرف اپنا ہوتاہے۔یہ بات تحریک انصاف والوں کو بھی سمجھ جانی چاہیے کہ قصور اپنا ہوتا ہے، زمین اور کرسی کسی کی نہیں ہوتی۔
رہتے تھے جن کے دل میں ہم جان سے زیادہ پیاروں کی طرح
بیٹھے ہیں ان کے کوچے میں ہم آج گناہگاروں کی طرح
کہتے ہیں دوبھائی زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے لڑرہے تھے،ایک کہتاتھایہ زمین میری ہے دوسراکہتاتھا میری ہے۔ایک بزرگ نے زمین سے پوچھاتم ان میں سے کس کی ہو ؟ زمین نے کہا یہ دونوںپاگل ہیں ان میں سے کسی کی بھی نہیں بلکہ یہ دونوں ''میرے''ہیں۔
اس سلسلے میں اگر انصاف کی نظرسے دیکھ کر انصاف کیاجائے تو زمین نے بالکل سچ کہا ہے کہ زمین کے لیے لڑنے والے سارے ہی پاگل ہیں کہ زمین ان میں سے کسی کی بھی نہ تو کبھی تھی، نہ ہے اورنہ ہوگی۔
ویسے ''زمین'' بھی اس معاملے میں انتہائی انصاف دار ہے وہ بڑے انصاف کے ساتھ اور انصاف کو ہاتھ لے کر اپنے ہر ''بچے''کو یکساں طورپر ''دوگز''کاٹکڑا دیتی ہے نہ ایک انچ کم نہ ایک انچ زیادہ۔یہ الگ بات ہے کہ اس کے بیٹے اپنی ماں کاانصاف بھی نہ مان کر یہاں بھی اپنی عادت کے مطابق قبضہ گیری کرتے رہتے ہیں ''تاج محل'' نے جو رقبہ گھیر رکھا ہے وہ کم سے کم پچاس ایکڑ ہے حالاں کہ دونوں میاں بیوی کا حصہ کل بارہ گز کابنتاہے بلکہ تہہ خانے میں دونوں کی جو قبریں ہیں وہ بارہ فٹ سے بھی کم ہیں۔
بڑے دنوں تغافل نے تیرے پیداکی
وہ اک نگاہ جو بظاہرنگاہ سے کم ہے
نہ پوچھ نسخہ مرہم جراحت دل کا
کہ اس میں ریزہ الماس جزواعظم ہے
اب کیاکیاجائے جب بات زمین اوراس کی ملکیت کی چلتی ہے تو ٹالسٹائے کے اس افسانے تک پہنچ جاتی ہے جس میں ایک شخص بادشاہ سے ''زمین ''مانگتاہے بادشاہ اسے گھوڑا دے کر کہتا ہے کہ جاؤ جتنی زمین کے گرد تم نے دائرہ بنایااتنی زمین تیری۔لیکن شرط یہ ہے کہ تمہیں سورج غروب ہونے سے پہلے اس پوائنٹ پرواپس پہنچنا ہے وہ شخص دوڑ پڑا ۔
اس نے ایک بہت بڑا دائرہ کھینچ کر بہت ساری زمین بھی اپنے خیال میں اپنے نام کر لی لیکن دائرہ وسیع کرنے کے ہوس میں بہت دورچلاگیا تھا واپسی میں گھوڑا بھی گر کر مرگیا،تو یہ خود دوڑنے لگا پھر خود بھی تھک گیا تو گھسیٹ گھسیٹ کر گھٹنوں کے بل ،پھر سینے کے بل ،لیکن یہ تو اپنے نشان پر نہ پہنچ سکا البتہ سورج غروب کے مقام پر پہنچ گیا،ساتھ روح بھی پروازکرگئی ،بادشاہ نے اسے وہیں پر دفن کر نے کاحکم دے کرکہا ۔جانتا نہیں تھا ورنہ اس کی اصل ضرورت اتنی ہی زمین تھی جتنی میں دفن ہوا۔
اب کے بمقام اسلام آباد جو کچھ ہوا اسے دیکھ کر حیرت ہوئی،کتنے نادان ہیں یہ لوگ۔جو اس چیز کے لیے لڑ رہے ہیں جو نہ کبھی کسی کی ہوئی ہے نہ ہوگی۔
پشتو کاایک بہت مشہور اورپاپولر گیت ہے ۔
لیلو۔۔باغ داباغوان دے
مونگہ شنہ طوطیان یو نن دلے سبا بہ زونہ
یہ گانا جب بجتاہے تو لوگ اس کے سرالفاظ سے بھی خاصے لطف اندوزہوتے ہیں کہ ۔
اے لیلا۔باغ تو باغوان کاہے ہم تو صرف ایک موسم کے ''طوطے'' ہیں آج یہاں ہیں کل چلے جائیں گے ۔
اس میں یہ جو باغ اورباغبان کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ دوسرے لہجے میں۔ اور بھاگ وان ہوجاتے ہیں ،بھگ بھاگ ،بھاگے۔ سارے الفاظ دراصل اس ''جہان'' کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔کہتے ہیں لفظ ''بغداد'' بھی اصل ''بھگ دا'' یا ''باغ داد''ہے۔
پرانے فارسی ادب میں چین کے بادشاہ کے لیے ''فعفور'' کا لفظ مخصوص تھا جو اصل میں ''بھگ پور'' یعنی ''بھگوان کا بیٹا'' ہے۔ فعفورچین ،بھگ پورچین ،یہی ''بھگ ''کا لفظ جو اس ''جہان'' اور باغ کے لیے استعمال ہوتاہے،آگے پھر نصیب اورقسمت کے لیے بھی استعمال ہونے لگا،بھاگے میں لکھا ہے۔بھاگے میں نہ جانے کیا لکھا ہے، ایک دوسرے کو۔۔اوراکثرشوہراپنی بیویوں کو بھی ''بھاگے وان''کہتے ہیں اس بات کو تھوڑا سا آگے بڑھا کر ہم اس ''کرسی''کو بھی ''بھاگے وان''کہہ سکتے ہیںجوبمقام ''مرجع خلائق'' مجموعہ خلائق اورمرقع شقائق ہے۔
سب کوپتہ ہے سب جانتے ہیں کہ یہ کم بخت طوائف عالم حرافہ زمان اورمصیبت جہاں کسی کی بھی نہیں ہے۔بقول حافظ شیراز۔
مجودرستی عہد ازجہان سست خراب
کہ این عجوزہ عروس ہزار داماد است
''داماد'' فارسی میں شوہراوردولہے کو کہتے ہیں اور زمین کی یہ عروس ہزار داماد۔کل کس کی تھی آج کس کی ہے اورپھر کل کس کی ہوگی یہ سب جانتے ہیں لیکن پھر بھی نہیں مانتے کہ طوائف کسی کی بھی نہیں ہوتی کیوں کہ وہ ہرکسی کی ہوتی ہے اورجب ہرکسی کی ہو تو پھر کسی کی بھی نہیں۔
اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ ''قصور'' کسی کا بھی نہیں چاہے کوئی کتنا ہی بڑا''قصوروار'' ہو کیوں کہ قصورصرف اورصرف اپنا ہوتاہے۔یہ بات تحریک انصاف والوں کو بھی سمجھ جانی چاہیے کہ قصور اپنا ہوتا ہے، زمین اور کرسی کسی کی نہیں ہوتی۔
رہتے تھے جن کے دل میں ہم جان سے زیادہ پیاروں کی طرح
بیٹھے ہیں ان کے کوچے میں ہم آج گناہگاروں کی طرح