الزامات کی سیاست
ایک طبقہ عمران خان کے کرپشن کے کامیاب بیانیے کے بعد سازش کے بیانیے پر اپنا سر دھن رہا ہے
TANGERANG, INDONESIA:
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے سابق وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کی ہے کہ انھوں نے صحافیوں پر جو الزامات عائد کیے ہیں ان کے ثبوت دیں یا اپنے مبینہ الزامات واپس لے کر معافی مانگیں کیونکہ صحافیوں پر عائد کیے گئے الزامات کی وجہ سے ان کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔بعض اطلاعات کے مطابق حکومت کے خاتمے کے بعد پی ٹی آئی کے جلسوں میں صحافیوں سے ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔
پی ایف یو جے نے کہا ہے کہ صحافیوں پر جھوٹے الزامات کا ثبوت ملنے پر وہ خود ایسے صحافیوں کے خلاف کارروائی کرے گی۔ پی ایف یو جے کے مطابق اقتدار سے قبل عمران خان نے ایک سینئر صحافی پر 35 پنکچر کا الزام لگایا تھا اور بعد میں اس بیان کو سیاسی قرار دیا تھا اور جھوٹے الزام پر معافی بھی نہیں مانگی تھی۔
دس ارب روپے کی آفر کا الزام لگانے پر میاں شہباز شریف نے عمران خان پر ہتک عزت کا مقدمہ بھی کر رکھا ہے اور خیبرپختون خوا کے پی ٹی آئی رہنما نے بھی جھوٹا الزام لگانے پر عدالت میں مقدمہ کیا ہوا ہے مگر پاکستان میں ایسے ہتک عزت کے مقدمات کے بعض وجوہات کے باعث سالوں فیصلے نہیں ہوتے جس کی وجہ سے جھوٹے الزامات لگانا اب عام ہو چکا ہے اور جھوٹے الزامات اور بیانات پر جلد سزا نہ ملنے کی وجہ سے ملکی سیاست میں جھوٹ عروج پر پہنچ چکا ہے اور جس کے دل میں جو آتا ہے وہ بول دیتا ہے کیونکہ اسے پتا ہوتا ہے کہ جھوٹے الزامات اور بیانات پر کوئی پکڑ ہی نہیں ہے۔
عمران خان ملک کے واحد قومی رہنما ہیں جنھوں نے اپنی سیاست کی بنیاد ہی قومی رہنماؤں کو بدعنوان، چور اور ڈاکو قرار دے کر رکھی اور اپنے جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں ان پر شدید الزامات لگائے تھے اور سابق حکمرانوں پر کرپشن کے سنگین الزامات لگائے تھے اور دعویٰ کیا تھا کہ میں ان کی کرپشن ختم کرنے کے لیے سیاست میں آیا تھا اور اقتدار میں آ کر ملکی دولت لوٹنے والے ان کرپٹ سابق حکمرانوں کو سزائیں دلائیں گے اور ان سے لوٹی ہوئی دولت نکلوائیں گے جو انھوں نے بیرون ملک جمع کرا رکھی ہے اور کرپشن کی رقم سے جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔
ماضی میں اقتدار میں رہنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) خود ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتی رہی تھیں جن کی وجہ سے ان کی حکومتیں برطرف بھی ہوئی تھیں مگر وہ پھر اقتدار میں آ جاتی تھیں۔ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار میں آ کر پی پی اور (ن) لیگ کی کرپشن پر دونوں کے لیے نیب بنوایا مگر 9 سال میں کچھ ثابت نہ ہو سکا اور دونوں پارٹیاں پھر اقتدار میں آئیں۔ عمران خان نے ماضی کے حکمرانوں کو کرپٹ، چور اور ڈاکو قرار دے کر ان کے خلاف اتنا موثر پروپیگنڈا کیا کہ عوام نے عمران خان کی تمام باتوں پر یقین کرکے 2018میں انھیں اقتدار میں لانے کے لیے بڑی تعداد میں ووٹ دیے۔
عمران خان نے انتخابی مہم میں عوام کو باور کرایا تھا کہ ملک میں کرپشن، مہنگائی و بیروزگاری ہو تو حکمران چور ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم بن کر عمران خان سے لوگوں کو امید تھی کہ وہ کرپشن کی رقم ان سے نکلوائیں گے اور باہر سے لوٹی ہوئی رقم ملک میں آنے سے خوشحالی آئے گی۔
عمران خان نے کہا تھا کہ ان کے پاس بہترین معاشی ٹیم ہے اور قابل لوگوں کی انھیں پہچان ہے وہ ملک و قوم کو بدل کر رکھ دیں گے۔ وزیر اعظم بن کر انھوں نے اپنے تمام سیاسی مخالفین کو کرپشن کے الزام میں گرفتار ضرور کرایا مگر نیب اور وفاقی ادارے گرفتار ہونے والوں کی کرپشن کا کوئی ایک ثبوت عدالتوں میں پیش نہ کرسکے۔
حکومتی مخالفین کو سالوں جیل میں رکھا گیا۔ نیب نے احتساب عدالتوں کو گرفتار افراد کی کرپشن کا کوئی ثبوت نہ دیا اور ہائی کورٹس سے عمران خان کے تمام مخالف ضمانتوں پر رہا ہوتے رہے اور کسی ایک سیاسی مبینہ کرپٹ رہنما کو بھی سزا نہ ہو سکی۔ عمران خان اقتدار میں پونے چار سال کہتے رہے کہ چور ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑوں گا اور نہ انھیں این آر او دوں گا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کے منہ سے عوام بار بار یہی باتیں اور دعوے سنتے رہے۔ سپریم کورٹ نیب پر برستی رہی کہ کرپشن کے ثبوت دیں مگر حکومت کے پاس کرپشن کے ثبوت ہوتے تو عدالتوں کو دیے جاتے۔الزامات اور کرپشن کے ثبوت کے دعویدار مشیر احتساب شہزاد اکبر کو بھی ثبوت فراہم نہ کرنے کی ناکامی پر برطرف کرنا پڑا۔ ملک میں کرپشن کے الزامات تنقید کی زد میں آگئے۔ پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے قرار دیے گئے تمام مبینہ چور ڈاکوؤں کی کرپشن حقیقت کا روپ نہ دھار سکی اور کوئی مبینہ کرپٹ سزا نہ پا سکا۔
اقتدار کے پونے چار سال کم مدت نہیں ہوتی جو عمران خان کے دعوؤں میں گزر گئی۔ عمران خان مسلسل کہتے رہے کہ کرپٹ مقدمات میں ملوث رہنما مجھ سے این آر او لینا چاہتے ہیں مگر این آر او نہیں دوں گا نہیں دوں گا۔ اپوزیشن رہنما کہتے رہے کہ وزیر اعظم این آر او مانگنے والے کسی ایک رہنما کا نام ہی بتا دیں جو وزیر اعظم نہ بتا سکے۔
پونے چار سال وزیروں میں الزامات لگانے کی دوڑ کے مقابلے ہوتے رہے اور سابق وزیر اعظم نے عالمی سطح کے ایک معاملے کا بھی امریکا کے متعلق دعویٰ کردیا جب کہ حکومتی مشیر معید یوسف اس کی تردید کرتے رہے کہ امریکا نے تو اڈے مانگے ہی نہیں۔
عمران خان نے پہلے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کا خیر مقدم کیا مگر تحریک کامیاب ہوتے دیکھ کر تحریک کو اپنے خلاف امریکا کی سازش قرار دے دیا اور اب ایک طبقہ عمران خان کے کرپشن کے کامیاب بیانیے کے بعد سازش کے بیانیے پر اپنا سر دھن رہا ہے اور ملک میں کوئی نہیں جو ان دعوؤں کا پردہ چاک کرسکے جب کہ ملک میں الزامات کی سیاست یا شاید غلط الزامات کی انتہا ہو چکی ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے سابق وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کی ہے کہ انھوں نے صحافیوں پر جو الزامات عائد کیے ہیں ان کے ثبوت دیں یا اپنے مبینہ الزامات واپس لے کر معافی مانگیں کیونکہ صحافیوں پر عائد کیے گئے الزامات کی وجہ سے ان کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔بعض اطلاعات کے مطابق حکومت کے خاتمے کے بعد پی ٹی آئی کے جلسوں میں صحافیوں سے ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔
پی ایف یو جے نے کہا ہے کہ صحافیوں پر جھوٹے الزامات کا ثبوت ملنے پر وہ خود ایسے صحافیوں کے خلاف کارروائی کرے گی۔ پی ایف یو جے کے مطابق اقتدار سے قبل عمران خان نے ایک سینئر صحافی پر 35 پنکچر کا الزام لگایا تھا اور بعد میں اس بیان کو سیاسی قرار دیا تھا اور جھوٹے الزام پر معافی بھی نہیں مانگی تھی۔
دس ارب روپے کی آفر کا الزام لگانے پر میاں شہباز شریف نے عمران خان پر ہتک عزت کا مقدمہ بھی کر رکھا ہے اور خیبرپختون خوا کے پی ٹی آئی رہنما نے بھی جھوٹا الزام لگانے پر عدالت میں مقدمہ کیا ہوا ہے مگر پاکستان میں ایسے ہتک عزت کے مقدمات کے بعض وجوہات کے باعث سالوں فیصلے نہیں ہوتے جس کی وجہ سے جھوٹے الزامات لگانا اب عام ہو چکا ہے اور جھوٹے الزامات اور بیانات پر جلد سزا نہ ملنے کی وجہ سے ملکی سیاست میں جھوٹ عروج پر پہنچ چکا ہے اور جس کے دل میں جو آتا ہے وہ بول دیتا ہے کیونکہ اسے پتا ہوتا ہے کہ جھوٹے الزامات اور بیانات پر کوئی پکڑ ہی نہیں ہے۔
عمران خان ملک کے واحد قومی رہنما ہیں جنھوں نے اپنی سیاست کی بنیاد ہی قومی رہنماؤں کو بدعنوان، چور اور ڈاکو قرار دے کر رکھی اور اپنے جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں ان پر شدید الزامات لگائے تھے اور سابق حکمرانوں پر کرپشن کے سنگین الزامات لگائے تھے اور دعویٰ کیا تھا کہ میں ان کی کرپشن ختم کرنے کے لیے سیاست میں آیا تھا اور اقتدار میں آ کر ملکی دولت لوٹنے والے ان کرپٹ سابق حکمرانوں کو سزائیں دلائیں گے اور ان سے لوٹی ہوئی دولت نکلوائیں گے جو انھوں نے بیرون ملک جمع کرا رکھی ہے اور کرپشن کی رقم سے جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔
ماضی میں اقتدار میں رہنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) خود ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتی رہی تھیں جن کی وجہ سے ان کی حکومتیں برطرف بھی ہوئی تھیں مگر وہ پھر اقتدار میں آ جاتی تھیں۔ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار میں آ کر پی پی اور (ن) لیگ کی کرپشن پر دونوں کے لیے نیب بنوایا مگر 9 سال میں کچھ ثابت نہ ہو سکا اور دونوں پارٹیاں پھر اقتدار میں آئیں۔ عمران خان نے ماضی کے حکمرانوں کو کرپٹ، چور اور ڈاکو قرار دے کر ان کے خلاف اتنا موثر پروپیگنڈا کیا کہ عوام نے عمران خان کی تمام باتوں پر یقین کرکے 2018میں انھیں اقتدار میں لانے کے لیے بڑی تعداد میں ووٹ دیے۔
عمران خان نے انتخابی مہم میں عوام کو باور کرایا تھا کہ ملک میں کرپشن، مہنگائی و بیروزگاری ہو تو حکمران چور ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم بن کر عمران خان سے لوگوں کو امید تھی کہ وہ کرپشن کی رقم ان سے نکلوائیں گے اور باہر سے لوٹی ہوئی رقم ملک میں آنے سے خوشحالی آئے گی۔
عمران خان نے کہا تھا کہ ان کے پاس بہترین معاشی ٹیم ہے اور قابل لوگوں کی انھیں پہچان ہے وہ ملک و قوم کو بدل کر رکھ دیں گے۔ وزیر اعظم بن کر انھوں نے اپنے تمام سیاسی مخالفین کو کرپشن کے الزام میں گرفتار ضرور کرایا مگر نیب اور وفاقی ادارے گرفتار ہونے والوں کی کرپشن کا کوئی ایک ثبوت عدالتوں میں پیش نہ کرسکے۔
حکومتی مخالفین کو سالوں جیل میں رکھا گیا۔ نیب نے احتساب عدالتوں کو گرفتار افراد کی کرپشن کا کوئی ثبوت نہ دیا اور ہائی کورٹس سے عمران خان کے تمام مخالف ضمانتوں پر رہا ہوتے رہے اور کسی ایک سیاسی مبینہ کرپٹ رہنما کو بھی سزا نہ ہو سکی۔ عمران خان اقتدار میں پونے چار سال کہتے رہے کہ چور ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑوں گا اور نہ انھیں این آر او دوں گا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کے منہ سے عوام بار بار یہی باتیں اور دعوے سنتے رہے۔ سپریم کورٹ نیب پر برستی رہی کہ کرپشن کے ثبوت دیں مگر حکومت کے پاس کرپشن کے ثبوت ہوتے تو عدالتوں کو دیے جاتے۔الزامات اور کرپشن کے ثبوت کے دعویدار مشیر احتساب شہزاد اکبر کو بھی ثبوت فراہم نہ کرنے کی ناکامی پر برطرف کرنا پڑا۔ ملک میں کرپشن کے الزامات تنقید کی زد میں آگئے۔ پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے قرار دیے گئے تمام مبینہ چور ڈاکوؤں کی کرپشن حقیقت کا روپ نہ دھار سکی اور کوئی مبینہ کرپٹ سزا نہ پا سکا۔
اقتدار کے پونے چار سال کم مدت نہیں ہوتی جو عمران خان کے دعوؤں میں گزر گئی۔ عمران خان مسلسل کہتے رہے کہ کرپٹ مقدمات میں ملوث رہنما مجھ سے این آر او لینا چاہتے ہیں مگر این آر او نہیں دوں گا نہیں دوں گا۔ اپوزیشن رہنما کہتے رہے کہ وزیر اعظم این آر او مانگنے والے کسی ایک رہنما کا نام ہی بتا دیں جو وزیر اعظم نہ بتا سکے۔
پونے چار سال وزیروں میں الزامات لگانے کی دوڑ کے مقابلے ہوتے رہے اور سابق وزیر اعظم نے عالمی سطح کے ایک معاملے کا بھی امریکا کے متعلق دعویٰ کردیا جب کہ حکومتی مشیر معید یوسف اس کی تردید کرتے رہے کہ امریکا نے تو اڈے مانگے ہی نہیں۔
عمران خان نے پہلے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کا خیر مقدم کیا مگر تحریک کامیاب ہوتے دیکھ کر تحریک کو اپنے خلاف امریکا کی سازش قرار دے دیا اور اب ایک طبقہ عمران خان کے کرپشن کے کامیاب بیانیے کے بعد سازش کے بیانیے پر اپنا سر دھن رہا ہے اور ملک میں کوئی نہیں جو ان دعوؤں کا پردہ چاک کرسکے جب کہ ملک میں الزامات کی سیاست یا شاید غلط الزامات کی انتہا ہو چکی ہے۔