غیرمعمولی اقدامات کی ضرورت
حکومت کے لیے سرکاری گندم کی قیمت فروخت متعین کرنا بھی مشکل بنا ہوا ہے
وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں جمعے کے روزاسلام آباد میں اعلیٰ سطح کا اہم اجلاس ہوا، جس میں رواں برس ملک بھر میں گندم کی پیداوار کے حوالے سے وزیراعظم کو تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔ اس اجلاس میں ہی وزیراعظم نے گندم خریداری کا ہدف بڑھانے کا حکم بھی دیا ہے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ رواں سال گندم کی مجموعی پیداوار کا ہدف 28 اعشاریہ 89 ملین میٹرک ٹن لگایا گیا تھا جب کہ متوقع پیدوا ر26اعشاریہ 173ملین رہنے کی امید ہے۔ گندم کی ملکی سطح پر مجموعی کھپت کا تخمینہ 30 اعشاریہ 79ملین میٹرک ٹن لگایا گیا ہے۔ وزیراعظم کو آگاہ کیا گیا کہ گندم کی پیداوار کے ہدف اور متوقع پیداوار میں فرق کی وجوہات میں گندم کی کاشت میں کمی، پانی کی قلت اور کھاد کا بحران ہے۔
یہ بھی بتایا گیا کہگندم کی امدادی قیمتکااعلان بھی تاخیر سے کیا گیا جس کی وجہ سے گندم کی کاشت میں 2 فیصد کمی کا رجحان بھی دیکھنے میں آیا۔اس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلی بھی گندم کے طے شدہ ہدف کے حصول میں بڑی رکاوٹ رہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ گندم کی حکومتی سطح پر خریداری کے حوالے سے پنجاب 91 اعشاریہ 66 فیصد، سندھ 49 اعشاریہ 29 فیصد، بلوچستان 15اعشاریہ 29 فیصد جب کہ پاسکو نے 100 فیصد ہدف حاصل کر لیا ہے۔
وزیرِ اعظم کو عوامی ریلیف کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے بھی آگاہ کیا گیا،انھیں بتایا گیا کہ حکومت کی فلوز ملز کو گندم کی فراہمی پر سبسڈی، آٹے کے دس کلو کے تھیلے کی 400 روپے کی قیمت پر فراہمی، بلوچستان میں یوٹیلٹی اسٹورز کے ذریعے سستے آٹے کی فراہمی اور خیبر پختونخوا کو 2 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی فراہمی ان اقدامات میں شامل ہیں۔ وزیرِ اعظم نے حکام کو خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ مل کر صوبائی کھپت کی نشاندہی کرنے اور ان کی مطلوبہ گندم کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ہدایات جاری کیں۔
وزیر اعظم نے گندم کی اسمگلنگ کو روکنے کی ہدایات بھی جاری کیں۔ اس کے علاوہ ملک میں گندم کی چوری اور کرپشن کے خاتمے کے لیے جامع لائحہ عمل مرتب کرنے اور گندم ذخیرہ کرنے کے لیے سائیلوز کی تعمیر کی حکمتِ عملی تیار کرکے جلد پیش کرنے کی بھی ہدایات جاری کیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گندم کی کاشت کے دنوں میں مجرمانہ غفلت، بد انتظامی اور لاپرواہی نے کھاد کا بحران پیدا کیا جس کی وجہ سے کسانوں اور ملک کو نقصان پہنچا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ غلط فیصلوں اور بر وقت حکمتِ عملی نہ ہونے کی وجہ سے ہم گندم کی ملکی ضروریات پوری کرنے کی بجائے گندم کی درآمد کرنے والا ملک بنا دیے گئے، گندم کی سپورٹ پرائس کے دیر سے اعلان سے نہ صرف کسانوں کی کاشت میں کمی پیدا ہوئی بلکہ اس کا فائدہ براہ راست ذخیرہ اندوزوں کو پہنچانے کی کوشش کی گئی۔
ادھر سبسڈائز سرکاری گندم کی فراہمی بند ہونے کے بعد فلورملز نے آٹے کی قیمت میں اضافہ کر دیا، 10کلو تھیلا کی پرچون قیمت 650روپے جب کہ 20کلو تھیلا کی پرچون قیمت 1300 روپے کردی گئی ہے ۔ رمضان پیکیج کے لیے فلورملز کو 1400 روپے فی من سبسڈائزڈ سرکاری گندم دی کر دس کلو آٹا تھیلا 400 روپے میں فروخت کرایا جا رہا تھا ، عید تعطیلات ختم ہونے کے بعد محکمہ خوراک نے سبسڈائزڈ گندم کی فراہمیبند کردی جس کے بعد فلورملز نے آتے کی قیمت میں اضافہ کردیا ہے۔
فلور ملز مالکان کا موقف ہے کہ انھیں مارکیٹ سے گندم خرید کر آٹا تیار کرنا پڑ رہا ہے ، جنوبی پنجاب میں گندم قیمت 2260 روپے جب کہ وسطی اورشمالی پنجاب میں 2330 روپے تک گندم دستیاب ہے جس کے سبب فلور ملز نے اسی تناسب سے آٹے قیمتوں کو بڑھا دیا ہے۔
فلور ملز کا کہنا ہے کہ بیس کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت1310 روپے بنتی ہے لیکن فلورملز ایسوسی ایشن نے عوامی مفاد میں دس روپے کم کرتے ہوئے قیمت1300 روپے مقرر کی ، جنوبی پنجاب میں دس کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 625 روپے اور بیس کلو کی 1250 روپے ہوگی کیونکہ وہاں فلورملز کو نسبتا سستی گندم ملی ہے ۔ فلورملز مالکان کا کہنا ہے کہ ہم نے قیمت نہیں بڑھائی بلکہ سرکاری کوٹہ بند ہونے کے بعد نجی گندم کی قیمتوں کے مطابق آٹا قیمت مقرر ہوئی جسے اضافہ نہیں کہا جا سکتا ۔
ادھر سرکاری گندم کی قبل از وقت ریلیز پر حکومت الجھاؤ کا شکار ہے ۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ محکمہ خوراک اور پاسکو کے پاس اتنی وافر گندم موجود نہیں کہ فوری اس کی ریلیز شروع کردی جائے جب کہ روس یوکرین جنگ کے سبب سستے داموں گندم امپورٹ کرنا بھی ممکن دکھائی نہیں دے رہا، اس وقت اگر پنجاب حکومت گندم امپورٹ کرتی ہے تو اسے امپورٹڈ گندم 5300 روپے فی من قیمت ( پنجاب پہنچ) سے کم پر گندم نہیں ملے گی۔
حکومت کے لیے سرکاری گندم کی قیمت فروخت متعین کرنا بھی مشکل بنا ہوا ہے کیونکہ 2200 روپے من قیمت پر خریدی گندم کو سابقہ فارمولہ کے تحت 2350 روپے میں فلورملز کو فراہم کر کے بیس کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 1300 روپے بنے گی لیکن حکومت کم قیمت پر آٹا فروخت کرانا چاہتی ہے ، حکومت کا ایک بڑا حلقے کا موقف ہے کہ آٹے کی قیمت نہایت کم کرنے کے بعد غیر معمولی منافع خوری جنم لے گی، آٹامارکیٹ سے غائب ہونا شروع ہوجائے تو حکومت کی ساکھ شدید متاثر ہوگی اور اربوں روپے کی سبسڈی بھی ضایع ہوجائے گی ۔ ماضی میں ایسا ہوتا آیا ہے۔سستی روٹی اسکیم ہو یا لنگر خانے ، سب سرکاری خزانے کا ضایع ثابت ہوئے۔
پاکستان میں معاشی ابھی تک جاری ہے۔وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کو ورثے میں جو مسائل ملے ہیں ، ان میں ملکی معیشت کی بحال اور گڈ گورننس سب سے اہم ہے۔ اس وقت معیشت کی حالت انتہائی خراب ہے ۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس میں جو حقائق سامنے آئے تھے، اس کے بعد وزیراعظم نے بھی کہا تھا کہ ان کے اندازے سے زیادہ معاشی اعدادوشمار تشویش ناک ہیں۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضع کیا تھا کہ معیشت تباہ حال ہے اور ملک کو مفلوک الحالی سے بچانا ہے۔ گزشتہ پونے چار برس میں جو کچھ ہوا ہے ، وہ ناقابل یقین ہے۔ وزیراعظم کی باتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال کس حد تک پتلی ہوچکی ہے۔
نئی حکومت کے لیے معاشی مسائل پر قابو پانا آسان کام نہیں ہے۔ ملکی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے روایتی پالیسیوں سے کام نہیں چلے گا بلکہ غیر معمولی پالیسیاں اختیار کرنا ہوں گی اور اس کے ساتھ ساتھ سخت قسم کا مالیاتی ڈسپلن قائم کرنا ہو گا۔ گندم، آٹے ، چینی اور کھاد کے بحران پر قابو پانے کے لیے افغانستان اور ایران بارڈر پر جدید ترین نگرانی سٹسم کی ضرورت ہے۔بارڈر سیکیورٹی فورس ، کسٹمز حکام کی میرٹ پر تعیناتی انتہائی ضروری ہے ۔
ڈیوٹی میں کوتاہی اور غفلت کرنے والے اہلکاروں کی جوابدہی کا فول پروف نظام ہونا چاہیے تاکہ گندم سمیت دیگر اجناس کی اسمگلنگ نہ ہوسکے۔ مرکزی حکومت کو چاروں صوبوں سے گندم کے ذخائر اور مقدار کے اعداوشمار منگوانے کی ضرورت ہے تاکہ جن صوبوں میں ضرورت سے کم گندم پیدا ہوئی ہے، انھیں مرکز گندم فراہم کرسکے۔پنجاب کے راولپنڈی اور رحیم یار خان ڈویژنز میں قائم فلور ملز کی تعداد اور انھیں فراہم کی جانے والی گندم کی مقدار کا تعین کرنا انتہائی ضروری ہے۔ایسے اقدامات کے ذریعے ہی گندم اور آٹے میں خود کفیل ہوا جاسکتاہے۔
اعلی ریاستی عہدے داروں کو حاصل سرکاری فنڈز اور سرکاری اراضی اور رہائشی و کمرشل پلاٹ الاٹ کرنے کے استحقاقی اور صوابدیدی اختیارات ختم کر دیے جائیں ' اب وقت آ گیا ہے کہ قانونی کرپشن کے دروازے بند کردیے جائیں ، جیسے توشہ خانہ میں موجود تحائف کا معاملہ ہے۔ شہباز شریف حکومت کو ان تحائف کے حوالے سے قانون میں موجود چور دروازے مکمل طور پر بند کر دینے چاہئیں۔
صدر مملکت، وزیراعظم، گورنرز ، اسپیکرز اور دیگر سرکاری عہدے کے عہدے ملک کے عوام اور ریاست کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں۔ انھیں اس ملک کے شہریوں سے وصول ہونے والے ٹیکسوں سے تنخواہیں اور دیگر مراعات دی جاتی ہیں۔ ان عہدوں کو جو تحائف ملتے ہیں، وہ ریاست اور عوام کی ملکیت ہوتے ہیں۔ صدر 'وزیراعظم یا کوئی اور بڑا عہدے دار انھیں خریدنے 'اپنے پاس رکھنے ' کسی کو گفٹ دینے یا فروخت کرنے کا مجاز نہیں ہونا چاہیے۔
پاکستان کی معیشت آج جس حال میں ہے اس کی وجہ پہلے سے مراعات یافتہ طبقات کو استحقاق اور صوابدیدی اختیارات کے تحت قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے کا اختیار ملنا ہے۔ اگر قیام پاکستان کے بعد سے لے کر اب تک صرف سربراہان حکومت کو ملنے والے تحائف کی مالیت کا تعین کیا جائے تو وہ اربوں ڈالر تک چلی جائے گی۔ اب پاکستان کو ایک طبقے کے مفادات پورے کرنے کے لیے چلانا بند کرنا ہو گا۔سری لنکا کا معاشی میلٹ ڈاؤن ہمارے پالیسی سازوں کے سامنے ہے۔
پاکستان میں رومانیت پسندی، حقائق سے چشم پوشی اور ذاتی اور گروہی مفادات کی وجہ سے کوئی حکومت معاشی پالیسی کا رخ درست سمت میں نہیں رکھ سکی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت اس حوالے سے کیا کرتی ہے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ رواں سال گندم کی مجموعی پیداوار کا ہدف 28 اعشاریہ 89 ملین میٹرک ٹن لگایا گیا تھا جب کہ متوقع پیدوا ر26اعشاریہ 173ملین رہنے کی امید ہے۔ گندم کی ملکی سطح پر مجموعی کھپت کا تخمینہ 30 اعشاریہ 79ملین میٹرک ٹن لگایا گیا ہے۔ وزیراعظم کو آگاہ کیا گیا کہ گندم کی پیداوار کے ہدف اور متوقع پیداوار میں فرق کی وجوہات میں گندم کی کاشت میں کمی، پانی کی قلت اور کھاد کا بحران ہے۔
یہ بھی بتایا گیا کہگندم کی امدادی قیمتکااعلان بھی تاخیر سے کیا گیا جس کی وجہ سے گندم کی کاشت میں 2 فیصد کمی کا رجحان بھی دیکھنے میں آیا۔اس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلی بھی گندم کے طے شدہ ہدف کے حصول میں بڑی رکاوٹ رہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ گندم کی حکومتی سطح پر خریداری کے حوالے سے پنجاب 91 اعشاریہ 66 فیصد، سندھ 49 اعشاریہ 29 فیصد، بلوچستان 15اعشاریہ 29 فیصد جب کہ پاسکو نے 100 فیصد ہدف حاصل کر لیا ہے۔
وزیرِ اعظم کو عوامی ریلیف کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے بھی آگاہ کیا گیا،انھیں بتایا گیا کہ حکومت کی فلوز ملز کو گندم کی فراہمی پر سبسڈی، آٹے کے دس کلو کے تھیلے کی 400 روپے کی قیمت پر فراہمی، بلوچستان میں یوٹیلٹی اسٹورز کے ذریعے سستے آٹے کی فراہمی اور خیبر پختونخوا کو 2 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی فراہمی ان اقدامات میں شامل ہیں۔ وزیرِ اعظم نے حکام کو خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ مل کر صوبائی کھپت کی نشاندہی کرنے اور ان کی مطلوبہ گندم کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ہدایات جاری کیں۔
وزیر اعظم نے گندم کی اسمگلنگ کو روکنے کی ہدایات بھی جاری کیں۔ اس کے علاوہ ملک میں گندم کی چوری اور کرپشن کے خاتمے کے لیے جامع لائحہ عمل مرتب کرنے اور گندم ذخیرہ کرنے کے لیے سائیلوز کی تعمیر کی حکمتِ عملی تیار کرکے جلد پیش کرنے کی بھی ہدایات جاری کیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گندم کی کاشت کے دنوں میں مجرمانہ غفلت، بد انتظامی اور لاپرواہی نے کھاد کا بحران پیدا کیا جس کی وجہ سے کسانوں اور ملک کو نقصان پہنچا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ غلط فیصلوں اور بر وقت حکمتِ عملی نہ ہونے کی وجہ سے ہم گندم کی ملکی ضروریات پوری کرنے کی بجائے گندم کی درآمد کرنے والا ملک بنا دیے گئے، گندم کی سپورٹ پرائس کے دیر سے اعلان سے نہ صرف کسانوں کی کاشت میں کمی پیدا ہوئی بلکہ اس کا فائدہ براہ راست ذخیرہ اندوزوں کو پہنچانے کی کوشش کی گئی۔
ادھر سبسڈائز سرکاری گندم کی فراہمی بند ہونے کے بعد فلورملز نے آٹے کی قیمت میں اضافہ کر دیا، 10کلو تھیلا کی پرچون قیمت 650روپے جب کہ 20کلو تھیلا کی پرچون قیمت 1300 روپے کردی گئی ہے ۔ رمضان پیکیج کے لیے فلورملز کو 1400 روپے فی من سبسڈائزڈ سرکاری گندم دی کر دس کلو آٹا تھیلا 400 روپے میں فروخت کرایا جا رہا تھا ، عید تعطیلات ختم ہونے کے بعد محکمہ خوراک نے سبسڈائزڈ گندم کی فراہمیبند کردی جس کے بعد فلورملز نے آتے کی قیمت میں اضافہ کردیا ہے۔
فلور ملز مالکان کا موقف ہے کہ انھیں مارکیٹ سے گندم خرید کر آٹا تیار کرنا پڑ رہا ہے ، جنوبی پنجاب میں گندم قیمت 2260 روپے جب کہ وسطی اورشمالی پنجاب میں 2330 روپے تک گندم دستیاب ہے جس کے سبب فلور ملز نے اسی تناسب سے آٹے قیمتوں کو بڑھا دیا ہے۔
فلور ملز کا کہنا ہے کہ بیس کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت1310 روپے بنتی ہے لیکن فلورملز ایسوسی ایشن نے عوامی مفاد میں دس روپے کم کرتے ہوئے قیمت1300 روپے مقرر کی ، جنوبی پنجاب میں دس کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 625 روپے اور بیس کلو کی 1250 روپے ہوگی کیونکہ وہاں فلورملز کو نسبتا سستی گندم ملی ہے ۔ فلورملز مالکان کا کہنا ہے کہ ہم نے قیمت نہیں بڑھائی بلکہ سرکاری کوٹہ بند ہونے کے بعد نجی گندم کی قیمتوں کے مطابق آٹا قیمت مقرر ہوئی جسے اضافہ نہیں کہا جا سکتا ۔
ادھر سرکاری گندم کی قبل از وقت ریلیز پر حکومت الجھاؤ کا شکار ہے ۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ محکمہ خوراک اور پاسکو کے پاس اتنی وافر گندم موجود نہیں کہ فوری اس کی ریلیز شروع کردی جائے جب کہ روس یوکرین جنگ کے سبب سستے داموں گندم امپورٹ کرنا بھی ممکن دکھائی نہیں دے رہا، اس وقت اگر پنجاب حکومت گندم امپورٹ کرتی ہے تو اسے امپورٹڈ گندم 5300 روپے فی من قیمت ( پنجاب پہنچ) سے کم پر گندم نہیں ملے گی۔
حکومت کے لیے سرکاری گندم کی قیمت فروخت متعین کرنا بھی مشکل بنا ہوا ہے کیونکہ 2200 روپے من قیمت پر خریدی گندم کو سابقہ فارمولہ کے تحت 2350 روپے میں فلورملز کو فراہم کر کے بیس کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 1300 روپے بنے گی لیکن حکومت کم قیمت پر آٹا فروخت کرانا چاہتی ہے ، حکومت کا ایک بڑا حلقے کا موقف ہے کہ آٹے کی قیمت نہایت کم کرنے کے بعد غیر معمولی منافع خوری جنم لے گی، آٹامارکیٹ سے غائب ہونا شروع ہوجائے تو حکومت کی ساکھ شدید متاثر ہوگی اور اربوں روپے کی سبسڈی بھی ضایع ہوجائے گی ۔ ماضی میں ایسا ہوتا آیا ہے۔سستی روٹی اسکیم ہو یا لنگر خانے ، سب سرکاری خزانے کا ضایع ثابت ہوئے۔
پاکستان میں معاشی ابھی تک جاری ہے۔وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کو ورثے میں جو مسائل ملے ہیں ، ان میں ملکی معیشت کی بحال اور گڈ گورننس سب سے اہم ہے۔ اس وقت معیشت کی حالت انتہائی خراب ہے ۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس میں جو حقائق سامنے آئے تھے، اس کے بعد وزیراعظم نے بھی کہا تھا کہ ان کے اندازے سے زیادہ معاشی اعدادوشمار تشویش ناک ہیں۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضع کیا تھا کہ معیشت تباہ حال ہے اور ملک کو مفلوک الحالی سے بچانا ہے۔ گزشتہ پونے چار برس میں جو کچھ ہوا ہے ، وہ ناقابل یقین ہے۔ وزیراعظم کی باتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال کس حد تک پتلی ہوچکی ہے۔
نئی حکومت کے لیے معاشی مسائل پر قابو پانا آسان کام نہیں ہے۔ ملکی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے روایتی پالیسیوں سے کام نہیں چلے گا بلکہ غیر معمولی پالیسیاں اختیار کرنا ہوں گی اور اس کے ساتھ ساتھ سخت قسم کا مالیاتی ڈسپلن قائم کرنا ہو گا۔ گندم، آٹے ، چینی اور کھاد کے بحران پر قابو پانے کے لیے افغانستان اور ایران بارڈر پر جدید ترین نگرانی سٹسم کی ضرورت ہے۔بارڈر سیکیورٹی فورس ، کسٹمز حکام کی میرٹ پر تعیناتی انتہائی ضروری ہے ۔
ڈیوٹی میں کوتاہی اور غفلت کرنے والے اہلکاروں کی جوابدہی کا فول پروف نظام ہونا چاہیے تاکہ گندم سمیت دیگر اجناس کی اسمگلنگ نہ ہوسکے۔ مرکزی حکومت کو چاروں صوبوں سے گندم کے ذخائر اور مقدار کے اعداوشمار منگوانے کی ضرورت ہے تاکہ جن صوبوں میں ضرورت سے کم گندم پیدا ہوئی ہے، انھیں مرکز گندم فراہم کرسکے۔پنجاب کے راولپنڈی اور رحیم یار خان ڈویژنز میں قائم فلور ملز کی تعداد اور انھیں فراہم کی جانے والی گندم کی مقدار کا تعین کرنا انتہائی ضروری ہے۔ایسے اقدامات کے ذریعے ہی گندم اور آٹے میں خود کفیل ہوا جاسکتاہے۔
اعلی ریاستی عہدے داروں کو حاصل سرکاری فنڈز اور سرکاری اراضی اور رہائشی و کمرشل پلاٹ الاٹ کرنے کے استحقاقی اور صوابدیدی اختیارات ختم کر دیے جائیں ' اب وقت آ گیا ہے کہ قانونی کرپشن کے دروازے بند کردیے جائیں ، جیسے توشہ خانہ میں موجود تحائف کا معاملہ ہے۔ شہباز شریف حکومت کو ان تحائف کے حوالے سے قانون میں موجود چور دروازے مکمل طور پر بند کر دینے چاہئیں۔
صدر مملکت، وزیراعظم، گورنرز ، اسپیکرز اور دیگر سرکاری عہدے کے عہدے ملک کے عوام اور ریاست کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں۔ انھیں اس ملک کے شہریوں سے وصول ہونے والے ٹیکسوں سے تنخواہیں اور دیگر مراعات دی جاتی ہیں۔ ان عہدوں کو جو تحائف ملتے ہیں، وہ ریاست اور عوام کی ملکیت ہوتے ہیں۔ صدر 'وزیراعظم یا کوئی اور بڑا عہدے دار انھیں خریدنے 'اپنے پاس رکھنے ' کسی کو گفٹ دینے یا فروخت کرنے کا مجاز نہیں ہونا چاہیے۔
پاکستان کی معیشت آج جس حال میں ہے اس کی وجہ پہلے سے مراعات یافتہ طبقات کو استحقاق اور صوابدیدی اختیارات کے تحت قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے کا اختیار ملنا ہے۔ اگر قیام پاکستان کے بعد سے لے کر اب تک صرف سربراہان حکومت کو ملنے والے تحائف کی مالیت کا تعین کیا جائے تو وہ اربوں ڈالر تک چلی جائے گی۔ اب پاکستان کو ایک طبقے کے مفادات پورے کرنے کے لیے چلانا بند کرنا ہو گا۔سری لنکا کا معاشی میلٹ ڈاؤن ہمارے پالیسی سازوں کے سامنے ہے۔
پاکستان میں رومانیت پسندی، حقائق سے چشم پوشی اور ذاتی اور گروہی مفادات کی وجہ سے کوئی حکومت معاشی پالیسی کا رخ درست سمت میں نہیں رکھ سکی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت اس حوالے سے کیا کرتی ہے۔