تشبیب صنعت توشیح پر ایک اہم کتاب

دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی کتاب کا منظوم ذکر صنعت توشیح میں بس پہلے مصرعے کے پہلے حرف تک محدود ہے

nasim.anjum27@gmail.com

ممتاز شاعر اور مبصر ابن عظیم فاطمی کی کتاب '' تشبیب'' حال ہی میں شایع ہوئی ہے ،یہ تعارف، تبصرے اور تجزیے پر مبنی ہے۔ ابن عظیم فاطمی کی شاعرانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اس کی خاصیت یہ بھی ہے کہ فاطمی صاحب نے صنعت توشیح چورخی /چہار رخی میں اپنے شاعرانہ جوہر کو جلا بخشی ہے۔

اسی حوالے سے کتاب کے پبلشر اے خیام بھائی نے معلوماتی مضمون لکھا ہے جوکہ اس کتاب کا مقدمہ ہے۔ اے خیام کا نام لکھتے ہوئے دل بہت اداس ہوا ہے کہ وہ اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ہیں۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔

اے خیام کے مضمون کا عنوان ہے ''تشبیب'' ایک نئی روایت کی داغ بیل ڈالتی ہوئی کتاب۔ وہ لکھتے ہیں ''ابن عظیم فاطمی شاعر ہیں، افسانہ نویس ہیں، مبصر ہیں، نظامت کار ہیں ان خصوصیات میں وہ بطور شاعر زیادہ نمایاں ہیں کہ ایک شعری مجموعہ ''سلگتی مسافتیں'' منصہ شہود پر لا چکے ہیں اور کئی مجموعے ترتیب پا کر اشاعت کے منتظر ہیں۔

ابن عظیم فاطمی کے نزدیک شاعری کی روایت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی کتاب کا منظوم ذکر صنعت توشیح میں بس پہلے مصرعے کے پہلے حرف تک محدود ہے اور ہر مصرعے کے پہلے حرف کو ترتیب دے کر کتاب کا نام مکمل کیا جاتا ہے لیکن ابن عظیم فاطمی نے اسے بڑی وسعت دی ہے اس صنعتِ توشیح میں انھوں نے کتاب کے نام کو تو مدنظر رکھا ہی ہے اس کتاب کا منظوم تبصرہ بھی مرتب کر دیا ہے اور کتاب کے مصنف کا تعارف بھی ضروری سمجھا ہے اور کتاب کے خصوصی پہلوؤں، مثلاً عنوانات، مزاج، متن، خراج تحسین کا منظوم ذکر ہے اور یہ سب صنعت توشیح کی پابندیوں کے ساتھ کیا ہے۔

اس صنعت ِ توشیح میں انھوں نے خود کو مزید پابند اس طرح کیا ہے کہ اسے چورخی/چہار رخی بنا دیا ہے، اس طرح ایک نئی روایت کی بنیاد ڈال دی ہے۔ میں اپنی اس بات کو ایک مثال کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں، اس کتاب میں یاور امان کی کتاب ''انہدام'' پر بھی طبع آزمائی کی گئی ہے، یاور امان اپنے ڈھب کے ایک الگ ہی شاعر تھے، ان کا ڈکشن دیگر شاعروں سے کچھ مختلف تھا، ان کے مزاج کو سمجھ کر ان کو خراج تحسین ان ہی کے مزاج کے مطابق کرنا کچھ آسان نہ تھا۔ یاور امان کا ایک شعر ہے۔

عدو یوں تو میرا تگڑا بہت ہے

مگر میں نے اسے رگڑا بہت ہے

ابن عظیم فاطمی نے ''انہدام کے نام'' میں اسی مزاج کو برقرار رکھا ہے۔

اسی طرز تخاطب کے سبب لفڑا بھی ہوگا

اسی سے باتوں باتوں میں جھگڑا بھی ہوگا

ابن عظیم کی یہ کتاب کئی جہتوں میں حیرت انگیز بھی ہے اور فنی اعتبار سے ایک تاریخ رقم کرتی ہوئی کتاب ہے۔

کتاب میں 26 مضامین صنعت توشیح کے حوالے سے درج ہیں۔ ابن عظیم فاطمی نے اپنے معاصرین اور عہد ساز قلم کاروں کا ان کے علم و فن کے حوالے سے بہت بصیرت افروز محاکمہ کیا ہے، ان کی شاعری کا یہی کمال ہے کہ دانش و بینش سے مرصع ہے۔ پڑھتے جائیے مزہ دوبالا ہوتا جائے گا اس کی وجہ تسلسل کا قائم رہنا ہے۔

''چہک اٹھی لفظوں کی چھاگل کے نام'' یہ ڈاکٹر وزیر آغا کی شعری کلیات کا نام ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا ادبی جریدہ ''اوراق'' کے مدیر اعلیٰ، شاعر، نقاد اور انشائیہ نگار تھے۔ عہد ساز علمی شخصیت تھے۔ جناب فاطمی نے ڈاکٹر وزیر آغا کے اوراق زندگی کا بھرپور جائزہ لیا ہے۔ تعلیم، شادی، تنقید و شاعری، انشائیہ نگاری وغیرہ۔ اپنے قارئین کو اس بات سے بھی آگاہ کیا ہے کہ وزیر آغا کو کون کون سے ایوارڈ سے نوازا گیا، اس ضمن میں وہ بتاتے ہیں کہ 1985 میں تمغہ امتیاز جب کہ 1999 میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا اس کے علاوہ 2004 میں مسعود کھدر پوش ایوارڈ بھی دیا گیا۔

وزیر آغا پر لکھی جانے والی کتابوں کی فہرست بھی طویل ہے ،یہ کتابیں انڈیا اور پاکستان دونوں جگہوں میں شایع ہوئیں۔ انشائیوں کے 6 مجموعے شایع ہوئے، ڈاکٹر وزیر آغا کی ادبی خدمات کے حوالے سے بارہ مقالات ایم اے کی سطح پر لکھے گئے اسی طرح 2008 سے 2015 میں 6 مقالات ایم فل کے طلبا نے تحریر کیے اور اسناد حاصل کیں۔ وزیر آغا پر انڈیا اور پاکستان کے طالب علموں نے پی ایچ ڈی کیا۔ 7 ستمبر 2010 ایک خاص اور اداس دن تھا جس دن یہ آسمان ادب پر روشنی بکھیرتا ہوا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا لیکن اپنے ادبی و علمی کارناموں کی بدولت شعر و سخن کی دنیا میں امر ہو گیا، اپنے چاہنے والوں اور قدر دانوں کے دلوں میں اور صفحہ قرطاس پر ہمیشہ زندہ رہے گا۔ یہ اشعار شاید انھوں نے اپنے لیے ہی تخلیق کیے تھے جو نذر قارئین ہیں۔

آسماں پر ابر پارے کا سفر میرے لیے

خاک پر مہکا ہوا چھوٹا سا گھر میرے لیے

آشنا نظروں سے دیکھیں رات بھر تارے تجھے

گھورتی آنکھوں کی یہ بستی مگر میرے لیے


لے گئی ہے ساری خوشبو چھین کر ٹھنڈی ہوا

پتیاں بکھری پڑی ہیں خاک پر میرے لیے

ابن عظیم فاطمی نے آخری سطور میں لکھا ہے کہ ان کی تحریروں کے حوالے سے اپنی ناقص علمیت کے اظہار سے سورج کو چراغ دکھاؤں جو ''آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے'' کے مصداق ہے۔ اس لیے منظوم خراج تحسین کی طرف بڑھتا ہوں اس صنعتِ توشیح میں حسب معمول ان کی کتابوں کے حوالے اور ان کے مزاج و اظہار کی صورت بھی بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

چہک اٹھی لفظوں کی چھاگل کے نام

چ ۔

چمک فکر و ہنر کی چھائی ہے جس کا ہنر وہ سچ

''چہک اٹھی ہے لفظوں کی جو چھاگل'' کون جائے بچ

ہ۔

ہمہ گیری کا ایک عالم ہیں ''غزلیں'' اہل فن آگاہ

ک۔

ہنر کی ''شام اور سائے'' دکھائیں اہل فن کو راہ

کسی کو بن گئے ہیں ''نردبان'' ان کے ہنر بے شک

ایسے ہی فنی لوازمات کے ساتھ جناب فاطمی نے بہت اہم کتابوں پر دلکش طرز میں شاعری کی جوت جلائی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا پر بھرپور مضمون لکھنے کے بعد ہندوستان کے معروف ناول نگار، نقاد، محقق، افسانہ نگار اور ''شب خون'' جیسے منفرد رسالے کے مدیر اعلیٰ جناب شمس الرحمن فاروقی کی علمی و شعری و ادبی خدمات پر فاطمی صاحب نے صنعت توشیح پیش کی ہے اور ان کی زیست کے بارے میں معلومات بہم پہنچائی ہیں۔

صنعت توشیح جس کا عنوان ہے ''مجلس آفاق میں پروانہ سال کے نام'' ۔ مضمون کی طوالت کے باعث ''آسمان محراب'' کی ایک رباعی پر اکتفا کرتے ہیں:

شیطاں کسی طرح سے مرتا ہی نہیں

بندے سے نہ مالک سے ڈرتا ہی نہیں

گمنامی و ذلت کے بھی غاروں سے عمیق

دل ایسا جہنم ہے کہ بھرتا ہی نہیں

ابن عظیم فاطمی نے بہت جامع، مدلل اور خوبصورت مضامین خلوص دل کے ساتھ لکھے ہیں ہر مضمون اپنی مثال آپ ہے، چند کے نام درج کر رہی ہوں، صبا اکرام کی ''اعتراف و انحراف کے نام''، سرور غزالی کی ''سورج کا اغوا کے نام'' صفدر علی انشا کی ''آ بیل کے نام''، زیب ازکار حسین کی ''دور ازکار افسانے، کے نام''، سید انور جاوید ہاشمی کی ''انتظار کے پودے کے نام''، نسیم انجم کے ناول ''نرک'' کے نام، نسیم انجم کی گلاب فن اور دوسرے افسانے کے نام''، انور ظہیر رہبر کی عکس آواز کے نام، شاکر انور کی ''دھواں'' کے نام۔ ڈاکٹر تنویر انور خان کی شگون کے پھول کے نام۔ آخر میں اس دعا کے ساتھ کہ اللہ کرے ابن عظیم فاطمی کی بقیہ کتب بھی جلد سے جلد منظر عام پر آئیں تاکہ ان کی تحریریں ہم سب کے لیے معلومات اور اضافے کا باعث بنیں۔
Load Next Story