عمران کا لانگ مارچ 

عمران خان اس بار حکومت پاکستان امریکا کو کھلے عام جب کہ اسٹیبلشمنٹ کو دبے لفظوں میں للکار رہے ہیں

ISLAMABAD:
ملک کا سیاسی منظرنامہ اس وقت سنسنی خیزی ،تشویش اور بے سمت مسافرت کا ایک ایسا ڈرامہ ہے جسے نہ چاہتے ہوئے بھی سب کو دیکھنا پڑ رہا ہے۔ حکومت ، حزب اختلاف، عوام اور اسٹیبلشمنٹ بیک وقت اس منظر نامے کے کردار ہیں۔

نواز شریف کی حکومت کے خاتمے اور ان کی تاحیات نااہلی کے بعد سے لے کر اب تک ملک کا سیاسی نظام مسلسل طلاطم اور بے یقینی کا شکار ہے۔ایک طرف وفاق اور پنجاب کی نوزائیدہ مخلوط حکومتیں legitimacy کی لڑائی میں پڑی ہیں۔ادھر عمران خان ہر طرف سے حملہ آور ہونے کی کوشش میں ہے۔عوام کو بے روزگاری کا سامنا ہے، اسٹیبلشمنٹ تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ملک کی معیشت اور خارجہ پالیسی دہائی دے رہی ہے کہ نہ سمجھو گے تو مٹ جا گے، لیکن مجال ہے جو کان پر جوں رینگے۔

شدید گرم موسم کے دوران سیاسی بھٹی کو عمران خان اپنے لانگ مارچ کے ذریعے مزید دہکانے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔اب مریم نواز بھی میدان میں آ چکی ہیں ۔فارن فنڈنگ کیس اور منحرفین ارکان اسمبلی کے فیصلے کیا چاند چڑھا ئیں گے، اس کا سبھی کو انتظار ہے۔بے بس اور بے کس عوام حکمرانوں سے پوچھ رہے ہیں کہ 75 سال گزرنے کے باوجود ہم اپنے سیاسی نظام کی سمت کا تعین کیوں نہ کر سکے۔

ہم نے صدارتی نظام اور پارلیمانی نظام کا نشہ بھی لے لیا اور بلا شرکت غیرے کئی دہائیوں تک ڈکٹیٹر شپ بھی دیکھ لی، آئین اور قانون کی گردان بھی سن لی لیکن ہمارا دائرے کا سفر ختم ہونے کو نہیں آرہا۔پاکستان کی سیاست پر نظر رکھنے والوں نے اس سفر کو آسان بنانے کے لیے ایک ہی نسخہ تجویز کیا ہے کہ جس کا کام اسی کو سانجھے کی مصداق سیاست کا کام صرف سیاستدانوں کو دے دیا جائے تو معاملات کچھ عرصے بعد خود ہی اپنی ڈگر پر آ جائیں گے ورنہ دائرے کا سفر کبھی ختم نہ ہوگا۔

عمران خان نے شہباز شریف کی حکومت کو چیلنج کرتے ہوئے 20 مئی کے بعد کسی بھی وقت اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کردیا ہے اور اس وقت تک دارالحکومت میں دھرنے کا عزم کیا ہے جب تک عام انتخابات کا اعلان نہیں ہو جاتا۔جلسے جلوس لانگ مارچ اور دھرنے دینا ، آئینی اور قانونی حق ہے ، ماضی قریب میں بھی یہ گر کئی بار سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے آزمایا لیکن اس کی بنیاد پر حکومتوں کا خاتمہ نہ ہوا ، صرف ملک کی معاشی صورتحال اور امن و امان کے قیام میں دشواری ہوئی ہے۔


عمران خان سے خواہ کتنا ہی اختلاف کریں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ بیانیے بنانے کا ماسٹرہے ۔ سوشل میڈیا کے ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے عمران خان نے درجنوں ایسے بیانیہ بنائے جو اب تک زبان زد عام ہیں۔ ان میں 2014کے اسمبلی کو جعلی قرار دینا، چار حلقوں کو کھولنا،35 پنکچر لگانا،نواز شریف کو بھگوڑا کہنا،زرداری سب سے بڑی بیماری اور مولانا کو ڈیزل کا خطاب دینا ،موجودہ حکومت کو امپورٹڈ اور امریکی خط کو سازش کہنا شامل ہیں۔بیانیہ بنانے کے اس عمل میں نون لیگ اور پیپلزپارٹی اس کے پاسنگ بھی نہیں ہیں۔

بھٹو کے بعد عمران خان پاکستان کی ایسی کرشماتی شخصیت ھیں جو عمر کے اس حصے میں پوری توانائی اور پرجوش انداز عوام سے خطاب کرتے ہیں کہ وہ ان کی طرف توجہ دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔نون لیگ میں مریم نواز کے سوا کوئی ایسا لیڈر نہیں جو عوام کو اپنی جانب متوجہ کر سکے۔ مریم نواز بہت حد تک کرشماتی شخصیت ہیں۔ اس کے بعد بلاول بھٹو ہیں جن میں توانائی اور علم تو موجود ہے لیکن وہ ابھی تک عوام کو پوری طرح کنیکٹ نہیں کر سکے۔

نواز شریف کی شخصیت میں کرشمے کا عنصر تو موجود نہیں لیکن ان میں تدبر، متانت، برداشت اور سیاسی راستے نکالنے کا فن سب سے زیادہ ہے۔انھوں نے نون لیگ کو تنظیمی اور سیاسی اعتبار یار سے جس طرح آزمائش کی گھڑی میں متحد رکھا وہ ایک مثال ہے۔ ان کی پاکستان میں غیر موجودگی کا نقصان ن لیگ کو تسلسل سے ہو رہا ہے۔ زرداری سیاسی اعتبار سے استاد سے کم نہیں، وہ ناممکن کو ممکن بنانے کا فن بھی خوب جانتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان، نواز شریف، زرداری، فضل الرحمن، سراج الحق اور ایم کیو ایم اب تک اپنے بل بوتے پر کبھی اقتدار حاصل نہ کر سکے ۔ یہ بات کسی حد تک خوش آئند ہے کہ اس بار پیپلز پارٹی نون لیگ اور جمیعت علما اسلام اور دوسری پارٹیوں نے مل کر پہلی بار پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے پارلیمان سے باہر نکلنے پر مجبور کیا لیکن عمران خان نے بھی ان کی اس کاوش کو جس چابکدستی سے سے سازشی قرار دیا، یہ ان ہی کا کمال ہے۔عمران خان کے اس بیانے اور لانگ مارچ کے اعلان نے پی ٹی ایم کو متحد رہنے پر مجبور کر دیا ورنہ خیال کیا جاتا تھا تھا کہ یہ مخلوط حکومت تشکیل کے دوران ہی بکھر جائے گی۔

عمران خان اس بار حکومت پاکستان امریکا کو کھلے عام جب کہ اسٹیبلشمنٹ کو دبے لفظوں میں للکار رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان کے بازوں میں کتنا زور ہے۔عمران خان غلامی اور آزادی کے نعروں کے ساتھ ساتھ میر جعفر اور میر صادق کا استعارہ بھی استعمال کر رہے ہیں اور ہینڈلر کہہ کر بھی سوئے ہوئے کو جگا رہے ہیں۔ ان سب اشاروں نے اس سیاسی کھیل کے منظرنامے کو دلچسپ، سنسنی خیز اور پریشان کن بنا دیا ہے۔اس سیاسی ڈرامے یا تحریک کا انجام کیا ہوگا، اس کے لیے ہمیں چند ہفتے انتظار کرنا ہوگا۔
Load Next Story