مہنگائی کم کرنے کے حکومتی اعلانات
حکومت چھوٹی چکیوں کو گندم سپلائی کرے، اس سے عام صارفین کو گلی محلوں میں آسانی سے آٹا مل جائے گا
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز پر دالوں،بیسن اور کھجور وغیرہ پر جاری سبسڈی ختم کردی ہے،اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔
یوں یوٹیلٹی اسٹورز پر دالیں 10 روپے فی کلو گرام تک، بیسن 20 روپے، کوکنگ آئل 20 روپے فی لٹر سمیت دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن نے اپنے اعلامیے میں کہا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن نے رمضان ریلیف پیکیج کامیابی سے مکمل کیا ہے، چینی 70 روپے فی کلو گرام ، 10 کلو گرام آٹے کا تھیلا 400 روپے اورگھی 260 روپے فی کلو گرام کے حساب سے ہی دستیاب ہوگا۔
وفاقی حکومت کی طرف سے 19اشیاء کے بجائے اب پانچ اشیاء پر سبسڈی دی جائے گی، چاول اور دالوں پر بھی سبسڈی دی جائے گی، اشیاء کی خریداری کی مقدار کی حد مقرر کردی ہے ، چینی 5 کلو، آٹا 40 کلو تک ملے گا، گھی 5 کلو کی حد کے ساتھ، شناختی کارڈ کی ضرورت اب بھی برقرار رہے گی۔یوٹیلیٹی اسٹورز پر دستیاب دیگر برانڈڈ اشیاء کی قیمتیں بھی عام مارکیٹ سے انتہائی کم ہیں۔
ادھر ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی وصوبائی حکومت نے آٹے کی موجودہ قیمتوں میں 200 تا 300 روپے فی 20 کلو تھیلا تک کمی کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔ ممکنہ طور پر 20 کلو آٹا تھیلا کی قیمت ایک ہزار تا1050 روپے کے درمیان مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔
ان قیمتوں کا اطلاق ہونے کی صورت میں حکومت فی تھیلا 600 روپے سے زائد کی سبسڈی برداشت کرے گی۔ فلورملز کو سرکاری گندم کی فراہمی کا آغاز آیندہ ماہ کے بجائے آیندہ چند روز میں شروع ہونے کا قوی امکان ہے۔ مزید برآں وفاقی حکومت نے ملک میں گندم کے ذخائر کو مستحکم کرنے کے لیے کم ازکم20 لاکھ ٹن گندم امپورٹ کرنے پر بھی ورکنگ شروع کر دی ہے۔
اس حوالے سے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں سمری پیش کی جائے گی۔ ذرایع کے مطابق تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان آنے والے دنوں میں گندم آٹا کے حوالے سے سیاسی جنگ کی شدت بڑھ سکتی ہے جب کہ خیبرپختونخوا حکومت ان معاملات میں وفاقی حکومت کے ساتھ زیادہ تعاون کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ اس وقت حکومت 2200 روپے میں فی من گندم خرید رہی ہے۔
سرکاری فارمولہ کے تناسب سے بیس کلو آٹا تھیلا کی قیمت 1300 روپے کے لگ بھگ بنتی ہے لیکن وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ حمزہ شہباز نے وزراء اور بیوروکریٹس کے ساتھ مشاورت کے بعد اصولی فیصلہ کر لیا ہے کہ آٹا کی نئی قیمت تحریک انصاف حکومت کی قیمت سے کم رکھی جائے گی۔
گزشتہ 14 برس کے دوران (ن) لیگ اور تحریک انصاف کی حکومتوں کے دور میں آٹا پر دی گئی سبسڈی کی مد میں محکمہ خوراک نے آج بھی 440 ارب روپے محکمہ خزانہ پنجاب سے وصول کرنا ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک برس کے دوران پنجاب کی فلورملز نے 58 لاکھ ٹن نجی اور36 لاکھ ٹن سے زیادہ سرکاری گندم کی پسائی کی ہے۔
اسی رسد وطلب کو معیار بنایا جائے تو حکومت پنجاب اگر 45 لاکھ ٹن سے زیادہ گندم خریدتی ہے اور 4 لاکھ سے زیادہ کیری فارورڈ اسٹاکس موجود رہتے ہیں اور امپورٹڈ گندم میں سے 10 لاکھ ٹن گندم پنجاب کو مل جاتی ہے تو پھر فلورملز کے پاس موجود نجی گندم اور اوپن مارکیٹ میں ملز کے لیے دستیاب گندم کو ملا کر پنجاب کی ضرورت پوری ہو جائے گی۔
ذرایع کے مطابق خیبر پختونخوا میں 220 کے لگ بھگ فعال ملز ہیں، وہاں6 رولر باڈی فی مل کے مطابق کوٹہ ملتا ہے جو 6 ہزار ٹن یومیہ تک ہوتا ہے، روزانہ 10 ہزار ٹن کے لگ بھگ آٹا پنجاب سے کے پی کے کو فراہم کیا جاتا ہے۔
بعض حکومتی حکام کی رائے میں خیبر پختونخوا کو وفاق کی جانب سے سبسڈائزڈ گندم دینے کا فائدہ کم ہوگا کیونکہ عالمی منڈی میں گندم کی قیمت زیادہ ہونے اور پاکستانی گندم کی قیمت کم ہونے کے باعث اس کے افغانستان کے راستے اسمگلنگ کے امکانات زیادہ ہیں۔
اس طرح مافیا گندم کی اسمگلنگ سے اربوں روپے کما لے گا اور حکومتی سبسڈی کا فائدہ عوام کے بجائے اسمگلروں کو زیادہ ہو گا۔ ایک طویل عرصے سے ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ ایک مافیا سستے داموں گندم خرید کر اسے افغانستان اسمگل کر دیتا ہے جس کے باعث ملک میں گندم کا بحران پیدا ہو جاتا اور حکومت کو عوامی ضرورت پوری کرنے کے لیے مجبوراً گندم درآمد کرنا پڑتی ہے۔
حکومت باہر سے مہنگے داموں گندم خریدتی اور اسے سستے داموں ملک میں فراہم کرتی ہے۔ اس طرح قومی خزانے پر بھی بڑا بوجھ پڑتا ہے۔ادھر وزیراعظم میاں شہباز شریف نے گزشتہ روز خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ میں بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان تب ہی ترقی کرے گا، جب خیبر پختونخوا بھی پنجاب کے ساتھ ہی ترقی کرے ، بلوچستان اور سندھ ترقی کرے گا، اگر اکیلا پنجاب ترقی کرتا ہے تو یہ پاکستان کی ترقی نہیں ہے۔
انھوں نے گندم اور آٹے کی بات کرتے ہوئے ، عوام سے کہا کہ آٹے کی جو قیمت کل اور پرسوں پنجاب میں ہوگی ،وہی قیمت خیبرپختونخوا میں بھی ہوگی، میں خیبر پختونخوا کو پاکستان کا عظیم صوبہ بنا کر دم لوں گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے سابق حکومت کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہاں پچھلے8 برس تحریک انصاف کی حکومت چلی آرہی ہے، مجھے بتائیں اس حکومت نے صوبے میں کتنے نئے اسپتال بنائے اور کتنے مریضوں کو مفت علاج کی سہولتیں دیں۔انھوں نے کہا کہ پنجاب میں مفت علاج ہوتا تھا جو4 سال بعد اب دوبارہ شروع کرایا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ آٹا اور چینی غریب کی دسترس سے باہر ہو گئی، غریب پر زندگی تنگ ہوگئی، رمضان بازاروں اور یوٹیلیٹی اسٹورز میں چینی اور آٹا سستا کرایا اور خیبرپختونخوا کے زعما کو بھی بتایا لیکن اس پر کتنا عمل ہوا عوام بہتر جانتے ہیں۔
پنجاب اپنے پیسوں سے آٹا سستا کرے گا اور وہاں کا وزیراعلیٰ اس کا اعلان کرے گا اور میں خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سے بھی کہوں گا کہ وہ بھی صوبے میں آٹا سستا کریں۔ اگر وزیراعلیٰ کے پی نے صوبے میں آٹا سستا نہیں کیا تو مجھے خیبر پختونخوا کی ہر دکان میں آٹا سستا فراہم کرنے کا طریقہ آتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا پورن میں گرڈسٹیشن تین مہینوں میں بنانے کی پوری کوشش کروں گا، یہاں میڈیکل کالج بنانے کا اعلان کرتا ہوں۔ انھوں نے بشام کے لیے 2 ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے کہا بشام خوازہ خیل ایکسپریس وے پہلے ہی اسکیم میں شامل ہے اور اس پر کام تیز ہوگا۔
وزیراعظم پاکستان نے حکومت سنبھالتے ہی رابطہ عوام مہم جاری کردی ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ کابینہ اور بیوروکریسی سے بھی رابطے میں ہیں جب کہ میڈیا کو بھی حقائق سے آگاہ کر رہے ہیں۔انھوں نے مختصر مدت میں سعودی عرب اور یو اے ای کا دورہ بھی کیا ہے۔
اس سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ملک اور عوام کو درپیش سنگین مسائل سے پوری طرح آگاہ ہے اور مسائل کو حل کرنے کی سنجیدہ کو شش بھی کررہی ہے ، لیکن پاکستان کا معاشی بحران اتنا گہرا ہے کہ اسے حل کرنے کے لیے غیرمعمولی اقدامات اور فیصلوں کی ضرورت ہے۔
گندم، آٹے ، چینی، کوکنگ آئل اور کھاد وغیرہ کی قلت کیوں پیدا ہوتی ہے، ان وجوہات سے حکومت اور ریاستی مشینری بخوبی آگاہ ہے۔ فلور ملز مالکان اور گندم کے بڑے ڈیلر ماضی میں بھی مصنوعی بحران پیدا کرتے آئے ہیں، اس بار بھی ایسا ہی ہونے کا خدشہ ہے۔ گندم اور آٹے کی اسمگلنگ روکنے کے لیے حکومت کو سخت اقدامات کرنا چاہیے اور سب سے پہلے ملک کی ضروریات پوری کرنی چاہیے۔
اس وقت بھی کسانوں سے سرکاری ریٹ سے کم نرخوں پر گندم خریدی جا رہی ہے۔چھوٹے کسان کے پاس بار دانہ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ گندم کو ذخیرہ کرسکتا ہے۔طاقتور اور بڑے زمیندار سرکار سے باردانہ بھی حاصل کرلیتے ہیں اور اپنی گندم کو پورے نرخوں پر بیچتے ہیں اور ان کے چیک بھی جلدی جاری ہوجاتے ہیں جب کہ چھوٹا کاشتکار سسٹم کی اس خرابی کے باعث سستی گندم بیچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
حکومت چھوٹی چکیوں کو گندم سپلائی کرے، اس سے عام صارفین کو گلی محلوں میں آسانی سے آٹا مل جائے گا اور فلور ملز بھی اپنے نرخوں میں استحکام لانے پر مجبور ہوجائیں گی۔افغانستان اور ایران کے بارڈر پر کنٹرول رکھا جائے اورا سمگلنگ روکنے کا تسلسل برقرار رہے تو پاکستان میں گندم اور آٹے کی قیمتوں میں استحکام آجائے گا اور عوام کے سستے داموں گندم اور آٹا ملے گا۔
یوں یوٹیلٹی اسٹورز پر دالیں 10 روپے فی کلو گرام تک، بیسن 20 روپے، کوکنگ آئل 20 روپے فی لٹر سمیت دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن نے اپنے اعلامیے میں کہا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن نے رمضان ریلیف پیکیج کامیابی سے مکمل کیا ہے، چینی 70 روپے فی کلو گرام ، 10 کلو گرام آٹے کا تھیلا 400 روپے اورگھی 260 روپے فی کلو گرام کے حساب سے ہی دستیاب ہوگا۔
وفاقی حکومت کی طرف سے 19اشیاء کے بجائے اب پانچ اشیاء پر سبسڈی دی جائے گی، چاول اور دالوں پر بھی سبسڈی دی جائے گی، اشیاء کی خریداری کی مقدار کی حد مقرر کردی ہے ، چینی 5 کلو، آٹا 40 کلو تک ملے گا، گھی 5 کلو کی حد کے ساتھ، شناختی کارڈ کی ضرورت اب بھی برقرار رہے گی۔یوٹیلیٹی اسٹورز پر دستیاب دیگر برانڈڈ اشیاء کی قیمتیں بھی عام مارکیٹ سے انتہائی کم ہیں۔
ادھر ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی وصوبائی حکومت نے آٹے کی موجودہ قیمتوں میں 200 تا 300 روپے فی 20 کلو تھیلا تک کمی کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔ ممکنہ طور پر 20 کلو آٹا تھیلا کی قیمت ایک ہزار تا1050 روپے کے درمیان مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔
ان قیمتوں کا اطلاق ہونے کی صورت میں حکومت فی تھیلا 600 روپے سے زائد کی سبسڈی برداشت کرے گی۔ فلورملز کو سرکاری گندم کی فراہمی کا آغاز آیندہ ماہ کے بجائے آیندہ چند روز میں شروع ہونے کا قوی امکان ہے۔ مزید برآں وفاقی حکومت نے ملک میں گندم کے ذخائر کو مستحکم کرنے کے لیے کم ازکم20 لاکھ ٹن گندم امپورٹ کرنے پر بھی ورکنگ شروع کر دی ہے۔
اس حوالے سے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں سمری پیش کی جائے گی۔ ذرایع کے مطابق تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان آنے والے دنوں میں گندم آٹا کے حوالے سے سیاسی جنگ کی شدت بڑھ سکتی ہے جب کہ خیبرپختونخوا حکومت ان معاملات میں وفاقی حکومت کے ساتھ زیادہ تعاون کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ اس وقت حکومت 2200 روپے میں فی من گندم خرید رہی ہے۔
سرکاری فارمولہ کے تناسب سے بیس کلو آٹا تھیلا کی قیمت 1300 روپے کے لگ بھگ بنتی ہے لیکن وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ حمزہ شہباز نے وزراء اور بیوروکریٹس کے ساتھ مشاورت کے بعد اصولی فیصلہ کر لیا ہے کہ آٹا کی نئی قیمت تحریک انصاف حکومت کی قیمت سے کم رکھی جائے گی۔
گزشتہ 14 برس کے دوران (ن) لیگ اور تحریک انصاف کی حکومتوں کے دور میں آٹا پر دی گئی سبسڈی کی مد میں محکمہ خوراک نے آج بھی 440 ارب روپے محکمہ خزانہ پنجاب سے وصول کرنا ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک برس کے دوران پنجاب کی فلورملز نے 58 لاکھ ٹن نجی اور36 لاکھ ٹن سے زیادہ سرکاری گندم کی پسائی کی ہے۔
اسی رسد وطلب کو معیار بنایا جائے تو حکومت پنجاب اگر 45 لاکھ ٹن سے زیادہ گندم خریدتی ہے اور 4 لاکھ سے زیادہ کیری فارورڈ اسٹاکس موجود رہتے ہیں اور امپورٹڈ گندم میں سے 10 لاکھ ٹن گندم پنجاب کو مل جاتی ہے تو پھر فلورملز کے پاس موجود نجی گندم اور اوپن مارکیٹ میں ملز کے لیے دستیاب گندم کو ملا کر پنجاب کی ضرورت پوری ہو جائے گی۔
ذرایع کے مطابق خیبر پختونخوا میں 220 کے لگ بھگ فعال ملز ہیں، وہاں6 رولر باڈی فی مل کے مطابق کوٹہ ملتا ہے جو 6 ہزار ٹن یومیہ تک ہوتا ہے، روزانہ 10 ہزار ٹن کے لگ بھگ آٹا پنجاب سے کے پی کے کو فراہم کیا جاتا ہے۔
بعض حکومتی حکام کی رائے میں خیبر پختونخوا کو وفاق کی جانب سے سبسڈائزڈ گندم دینے کا فائدہ کم ہوگا کیونکہ عالمی منڈی میں گندم کی قیمت زیادہ ہونے اور پاکستانی گندم کی قیمت کم ہونے کے باعث اس کے افغانستان کے راستے اسمگلنگ کے امکانات زیادہ ہیں۔
اس طرح مافیا گندم کی اسمگلنگ سے اربوں روپے کما لے گا اور حکومتی سبسڈی کا فائدہ عوام کے بجائے اسمگلروں کو زیادہ ہو گا۔ ایک طویل عرصے سے ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ ایک مافیا سستے داموں گندم خرید کر اسے افغانستان اسمگل کر دیتا ہے جس کے باعث ملک میں گندم کا بحران پیدا ہو جاتا اور حکومت کو عوامی ضرورت پوری کرنے کے لیے مجبوراً گندم درآمد کرنا پڑتی ہے۔
حکومت باہر سے مہنگے داموں گندم خریدتی اور اسے سستے داموں ملک میں فراہم کرتی ہے۔ اس طرح قومی خزانے پر بھی بڑا بوجھ پڑتا ہے۔ادھر وزیراعظم میاں شہباز شریف نے گزشتہ روز خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ میں بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان تب ہی ترقی کرے گا، جب خیبر پختونخوا بھی پنجاب کے ساتھ ہی ترقی کرے ، بلوچستان اور سندھ ترقی کرے گا، اگر اکیلا پنجاب ترقی کرتا ہے تو یہ پاکستان کی ترقی نہیں ہے۔
انھوں نے گندم اور آٹے کی بات کرتے ہوئے ، عوام سے کہا کہ آٹے کی جو قیمت کل اور پرسوں پنجاب میں ہوگی ،وہی قیمت خیبرپختونخوا میں بھی ہوگی، میں خیبر پختونخوا کو پاکستان کا عظیم صوبہ بنا کر دم لوں گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے سابق حکومت کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہاں پچھلے8 برس تحریک انصاف کی حکومت چلی آرہی ہے، مجھے بتائیں اس حکومت نے صوبے میں کتنے نئے اسپتال بنائے اور کتنے مریضوں کو مفت علاج کی سہولتیں دیں۔انھوں نے کہا کہ پنجاب میں مفت علاج ہوتا تھا جو4 سال بعد اب دوبارہ شروع کرایا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ آٹا اور چینی غریب کی دسترس سے باہر ہو گئی، غریب پر زندگی تنگ ہوگئی، رمضان بازاروں اور یوٹیلیٹی اسٹورز میں چینی اور آٹا سستا کرایا اور خیبرپختونخوا کے زعما کو بھی بتایا لیکن اس پر کتنا عمل ہوا عوام بہتر جانتے ہیں۔
پنجاب اپنے پیسوں سے آٹا سستا کرے گا اور وہاں کا وزیراعلیٰ اس کا اعلان کرے گا اور میں خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سے بھی کہوں گا کہ وہ بھی صوبے میں آٹا سستا کریں۔ اگر وزیراعلیٰ کے پی نے صوبے میں آٹا سستا نہیں کیا تو مجھے خیبر پختونخوا کی ہر دکان میں آٹا سستا فراہم کرنے کا طریقہ آتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا پورن میں گرڈسٹیشن تین مہینوں میں بنانے کی پوری کوشش کروں گا، یہاں میڈیکل کالج بنانے کا اعلان کرتا ہوں۔ انھوں نے بشام کے لیے 2 ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے کہا بشام خوازہ خیل ایکسپریس وے پہلے ہی اسکیم میں شامل ہے اور اس پر کام تیز ہوگا۔
وزیراعظم پاکستان نے حکومت سنبھالتے ہی رابطہ عوام مہم جاری کردی ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ کابینہ اور بیوروکریسی سے بھی رابطے میں ہیں جب کہ میڈیا کو بھی حقائق سے آگاہ کر رہے ہیں۔انھوں نے مختصر مدت میں سعودی عرب اور یو اے ای کا دورہ بھی کیا ہے۔
اس سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ملک اور عوام کو درپیش سنگین مسائل سے پوری طرح آگاہ ہے اور مسائل کو حل کرنے کی سنجیدہ کو شش بھی کررہی ہے ، لیکن پاکستان کا معاشی بحران اتنا گہرا ہے کہ اسے حل کرنے کے لیے غیرمعمولی اقدامات اور فیصلوں کی ضرورت ہے۔
گندم، آٹے ، چینی، کوکنگ آئل اور کھاد وغیرہ کی قلت کیوں پیدا ہوتی ہے، ان وجوہات سے حکومت اور ریاستی مشینری بخوبی آگاہ ہے۔ فلور ملز مالکان اور گندم کے بڑے ڈیلر ماضی میں بھی مصنوعی بحران پیدا کرتے آئے ہیں، اس بار بھی ایسا ہی ہونے کا خدشہ ہے۔ گندم اور آٹے کی اسمگلنگ روکنے کے لیے حکومت کو سخت اقدامات کرنا چاہیے اور سب سے پہلے ملک کی ضروریات پوری کرنی چاہیے۔
اس وقت بھی کسانوں سے سرکاری ریٹ سے کم نرخوں پر گندم خریدی جا رہی ہے۔چھوٹے کسان کے پاس بار دانہ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ گندم کو ذخیرہ کرسکتا ہے۔طاقتور اور بڑے زمیندار سرکار سے باردانہ بھی حاصل کرلیتے ہیں اور اپنی گندم کو پورے نرخوں پر بیچتے ہیں اور ان کے چیک بھی جلدی جاری ہوجاتے ہیں جب کہ چھوٹا کاشتکار سسٹم کی اس خرابی کے باعث سستی گندم بیچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
حکومت چھوٹی چکیوں کو گندم سپلائی کرے، اس سے عام صارفین کو گلی محلوں میں آسانی سے آٹا مل جائے گا اور فلور ملز بھی اپنے نرخوں میں استحکام لانے پر مجبور ہوجائیں گی۔افغانستان اور ایران کے بارڈر پر کنٹرول رکھا جائے اورا سمگلنگ روکنے کا تسلسل برقرار رہے تو پاکستان میں گندم اور آٹے کی قیمتوں میں استحکام آجائے گا اور عوام کے سستے داموں گندم اور آٹا ملے گا۔