غلامی سے نجات کا نعرہ
اس مقصد کو پانے کے لیے قوم کو اپنے پیروں پرکھڑا ہونا پڑے گا
کہنے اور سننے کو یہ نعرہ ہر انسان کو اچھا لگتا ہے۔ قوم یہ نعرہ سنتے سنتے جوانی سے بڑھاپے تک جاچکی ہے لیکن حقیقت میں اس جانب کوئی ٹھوس حکمت عملی کبھی نہیں دیکھی گئی۔ دیکھا جائے تو تحریک پاکستان کا محور بھی یہی نعرہ تھا۔
14 اگست 1947 کو ہم نے اپنے لیے ایک علیحدہ مملکت تو حاصل کرلی لیکن غلامی سے نجات کا خواب پھر بھی پورا نہیں ہوسکا۔ ہم ایک غلامی سے نکل کر دوسرے کی غلامی میں چلے گئے۔ برطانوی تسلط سے آزاد ہوکر امریکا کی ہشت پالی گرفت اور شکنجے میں جکڑ دیے گئے۔
ہمارے یہاں جتنے بھی سویلین حکمراں اقتدار میں آئے اُن سب میں سے صرف ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے نظریہ اور منشور کے تحت قوم کو کمیونزم اور سوشلسٹ نظام کی طرف لے جانے کی کوشش کی لیکن انھوں نے بھی جب ایوب خان حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو اس کی وجہ اس غلامی سے قوم کو چھٹکارا ہرگز نہیں تھا، بلکہ وہ تو تاشقند میں ہونے والے بھارت کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کو لے کر میدان میں اترے تھے۔
تاشقند کی جس بلی کو تھیلے سے باہر نکالنے کا وعدہ انھوں نے قوم سے کیا تھا وہ اُن کی وفات تک پورا نہ ہوسکا، وہ اگر امریکا کے خلاف سرگرم ہوتے تو تاشقند معاہدے کے خلاف ہرگز آواز نہیں اُٹھاتے۔ اس معاہدے سے تو درحقیقت امریکا کو سبکی کا سامنا ہوا تھا اور وہ سوویت یونین کے مقابلے میں عالمی سیاست میں مات کھا گیا تھا ، مگر بھٹو صاحب نے اس معاہدے کے خلاف ایک تحریک شروع کرکے ایوب خان کو سبق سکھانے میں دراصل امریکا کی درپردہ مدد کی تھی۔ یہ اور بات ہے وہ اس قوم کے دل کی آواز بنتے چلے گئے۔
دوسری جانب مشرقی پاکستان میں بھی عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے شیخ مجیب الرحمن بھی کچھ ایسے ہی سوشلسٹ نظریات کے حامی اور دعویدار تھے مگر اُن کی سیاست کا اصل مقصد اور محور کچھ اور تھا اور جس میں وہ قوم کو جگانے اور جوش دلانے میں اتنے کامیاب ہوگئے کہ 1970 کے عام انتخابات میں 156 نشستیں لے کر واضح اکثریت حاصل کرگئے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہماری تاریخ کا ایک بد ترین باب ہے ۔
ہمارے اس نئے دور کے سیاستدان عمران خان نے بھی بھٹو صاحب کی طرز پر ایک نئے پاکستان کا نعرہ بلند کیا تھا اور2018ء کا الیکشن بھی انھوں نے اسی نعرے کی تحت جیتا تھا۔
بھٹو صاحب نے نئے پاکستان کی شکل میں ایک سوشلسٹ پاکستان بنانے کی کوشش کی تھی اور وہ صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کو بھی قومی تحویل میں لے آئے۔ انھوں نے اپنے منشور کے مطابق فوری طور پر عمل کرکے یہ ثابت بھی کر دیا کہ وہ واقعی ایک پرعزم اور پر عمل لیڈر ہیں ، وہ جذباتی نعروں کے بجائے حقیقی اور عملی سیاست پر یقین رکھتے ہیں، جب کہ خان صاحب نے اس کے بالکل برعکس اپنی کہی ہر بات سے یوٹرن لے کر قوم کو ایک اچھا اور بہتر نیا پاکستان دینے کے بجائے پرانے پاکستان سے بھی بد ترین حالات پیداکر دیے۔
اُن کا وژن اورسوچ کیا ہے ابھی تک واضح نہیں ہے ، وہ اگر الیکشن سے پہلے انڈوں اور مرغیوں کے کاروبار کو ملک کی ترقی کے لیے اہم قرار دیدیتے تو شاید قوم انھیں کبھی بھی اقتدار کے اس اعلیٰ منصب پر فائز نہ کرتی، یہ منصوبہ تو انھوں نے بعد میں ظاہر کیا تھا۔ افسوس تو یہ ہے کہ وہ اس چھوٹے سے منصوبے کو بھی اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں مکمل نہ کرسکے۔ ایک دو دن کے لیے پنجاب کے کچھ علاقوں میں پانچ مرغیاں اور ایک مرغا تقسیم کیا جاتا دیکھا گیا جس کے بعد وہ بہت جلد متروک بھی ہوگیا۔
اپنے دور کے آخری ایام میں جب انھیں پورا یقین ہوگیا کہ وہ اب پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت برقرار نہیں رکھ سکتے ہیں تو انھوں نے تاشقند کی بلی کی مانند اپنی جیب سے ایک خط لہرا کے غیر ملکی سازش کا انکشاف کر ڈالا۔ وہ اس خط کو عوام کے سامنے لانا بھی نہیں چاہتے اور اُس کی تحقیقات کے لیے کسی کمیشن کو بھی نہیں مانتے ہیں۔ بس جب تک کام چلتا رہے گا وہ اس سازش کا رولا ڈالتے رہیں گے۔
دیکھا جائے تو عدم اعتماد کی تحریک ایک واحد قانونی اور دستوری آپشن ہے جس کے تحت ہمارے یہاں پرامن طریقے سے وزیر اعظم تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ جتنے بھی طریقے ہیں وہ سارے کے سارے غیر آئینی اور غیر قانونی کہلاتے ہیں۔ سابقہ اپوزیشن نے اگر یہ آپشن استعمال کیا توکیا غلط کیا ، وہ توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کی سیاست سے اجتناب کرتے ہوئے پر امن طریقہ سے اور آئین و دستور میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق ووٹ آف نو کانفیڈنس کے ذریعے ملک کا وزیر اعظم تبدیل کررہی تھی تو اس میں سازش کا عنصر کہاں سے آگیا۔
غلامی سے نجات اور غیر ملکی سازش کا نعرہ صرف اور صرف ایک سیاسی ہتھکنڈہ ہے جسے خان صاحب اگلے الیکشن تک استعمال کرتے رہیں گے ، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ غیر ملکی غلامی سے نجات کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے، صرف نعرے لگا کر غلامی سے نجات حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔
اپنے دور میں انھوں نے خود کوئی عمل ایسا نہیں کیا جس سے اُن کے اس نعرے کو تقویت ملتی دکھائی دیتی ہو ، وہ اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں تو اطاعت ، غلامی اور تابعداری کی مکمل تصویر بنے رہے۔
کسی مرحلہ پر مزاحمت نہیں دکھائی۔ امریکا کے حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے تمام جتن کر ڈالے ۔ اس وقت اس غلامی سے نجات کا ذرہ بھر بھی خیال نہیں آیا ، پھر اچانک کیا ہوا کہ سارا نظریہ اور بیانیہ ہی تبدیل ہو گیا۔
غلامی سے نجات کا نعرہ بہت دلکش اور دلفریب ہوتا ہے مگر اس مقصد کو پانے کے لیے قوم کو اپنے پیروں پرکھڑا ہونا پڑے گا۔ غیر ملکی قرضوں اور امداد کی بیساکھیوں پر کھڑے ہو کر ایسے نعروں سے اپنی جھوٹی انا کو تو تسکین دی جاسکتی ہے لیکن حقیقی معنوں میں غلامی سے نجات حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔ ہمیں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پہلے خود کو اس قابل بنانا ہوگا۔ اس کے علاوہ ساری باتیں محض سیاسی اسٹنٹ اور شعبدہ بازی کے سوا کچھ نہیں۔
14 اگست 1947 کو ہم نے اپنے لیے ایک علیحدہ مملکت تو حاصل کرلی لیکن غلامی سے نجات کا خواب پھر بھی پورا نہیں ہوسکا۔ ہم ایک غلامی سے نکل کر دوسرے کی غلامی میں چلے گئے۔ برطانوی تسلط سے آزاد ہوکر امریکا کی ہشت پالی گرفت اور شکنجے میں جکڑ دیے گئے۔
ہمارے یہاں جتنے بھی سویلین حکمراں اقتدار میں آئے اُن سب میں سے صرف ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے نظریہ اور منشور کے تحت قوم کو کمیونزم اور سوشلسٹ نظام کی طرف لے جانے کی کوشش کی لیکن انھوں نے بھی جب ایوب خان حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو اس کی وجہ اس غلامی سے قوم کو چھٹکارا ہرگز نہیں تھا، بلکہ وہ تو تاشقند میں ہونے والے بھارت کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کو لے کر میدان میں اترے تھے۔
تاشقند کی جس بلی کو تھیلے سے باہر نکالنے کا وعدہ انھوں نے قوم سے کیا تھا وہ اُن کی وفات تک پورا نہ ہوسکا، وہ اگر امریکا کے خلاف سرگرم ہوتے تو تاشقند معاہدے کے خلاف ہرگز آواز نہیں اُٹھاتے۔ اس معاہدے سے تو درحقیقت امریکا کو سبکی کا سامنا ہوا تھا اور وہ سوویت یونین کے مقابلے میں عالمی سیاست میں مات کھا گیا تھا ، مگر بھٹو صاحب نے اس معاہدے کے خلاف ایک تحریک شروع کرکے ایوب خان کو سبق سکھانے میں دراصل امریکا کی درپردہ مدد کی تھی۔ یہ اور بات ہے وہ اس قوم کے دل کی آواز بنتے چلے گئے۔
دوسری جانب مشرقی پاکستان میں بھی عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے شیخ مجیب الرحمن بھی کچھ ایسے ہی سوشلسٹ نظریات کے حامی اور دعویدار تھے مگر اُن کی سیاست کا اصل مقصد اور محور کچھ اور تھا اور جس میں وہ قوم کو جگانے اور جوش دلانے میں اتنے کامیاب ہوگئے کہ 1970 کے عام انتخابات میں 156 نشستیں لے کر واضح اکثریت حاصل کرگئے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہماری تاریخ کا ایک بد ترین باب ہے ۔
ہمارے اس نئے دور کے سیاستدان عمران خان نے بھی بھٹو صاحب کی طرز پر ایک نئے پاکستان کا نعرہ بلند کیا تھا اور2018ء کا الیکشن بھی انھوں نے اسی نعرے کی تحت جیتا تھا۔
بھٹو صاحب نے نئے پاکستان کی شکل میں ایک سوشلسٹ پاکستان بنانے کی کوشش کی تھی اور وہ صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کو بھی قومی تحویل میں لے آئے۔ انھوں نے اپنے منشور کے مطابق فوری طور پر عمل کرکے یہ ثابت بھی کر دیا کہ وہ واقعی ایک پرعزم اور پر عمل لیڈر ہیں ، وہ جذباتی نعروں کے بجائے حقیقی اور عملی سیاست پر یقین رکھتے ہیں، جب کہ خان صاحب نے اس کے بالکل برعکس اپنی کہی ہر بات سے یوٹرن لے کر قوم کو ایک اچھا اور بہتر نیا پاکستان دینے کے بجائے پرانے پاکستان سے بھی بد ترین حالات پیداکر دیے۔
اُن کا وژن اورسوچ کیا ہے ابھی تک واضح نہیں ہے ، وہ اگر الیکشن سے پہلے انڈوں اور مرغیوں کے کاروبار کو ملک کی ترقی کے لیے اہم قرار دیدیتے تو شاید قوم انھیں کبھی بھی اقتدار کے اس اعلیٰ منصب پر فائز نہ کرتی، یہ منصوبہ تو انھوں نے بعد میں ظاہر کیا تھا۔ افسوس تو یہ ہے کہ وہ اس چھوٹے سے منصوبے کو بھی اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں مکمل نہ کرسکے۔ ایک دو دن کے لیے پنجاب کے کچھ علاقوں میں پانچ مرغیاں اور ایک مرغا تقسیم کیا جاتا دیکھا گیا جس کے بعد وہ بہت جلد متروک بھی ہوگیا۔
اپنے دور کے آخری ایام میں جب انھیں پورا یقین ہوگیا کہ وہ اب پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت برقرار نہیں رکھ سکتے ہیں تو انھوں نے تاشقند کی بلی کی مانند اپنی جیب سے ایک خط لہرا کے غیر ملکی سازش کا انکشاف کر ڈالا۔ وہ اس خط کو عوام کے سامنے لانا بھی نہیں چاہتے اور اُس کی تحقیقات کے لیے کسی کمیشن کو بھی نہیں مانتے ہیں۔ بس جب تک کام چلتا رہے گا وہ اس سازش کا رولا ڈالتے رہیں گے۔
دیکھا جائے تو عدم اعتماد کی تحریک ایک واحد قانونی اور دستوری آپشن ہے جس کے تحت ہمارے یہاں پرامن طریقے سے وزیر اعظم تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ جتنے بھی طریقے ہیں وہ سارے کے سارے غیر آئینی اور غیر قانونی کہلاتے ہیں۔ سابقہ اپوزیشن نے اگر یہ آپشن استعمال کیا توکیا غلط کیا ، وہ توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کی سیاست سے اجتناب کرتے ہوئے پر امن طریقہ سے اور آئین و دستور میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق ووٹ آف نو کانفیڈنس کے ذریعے ملک کا وزیر اعظم تبدیل کررہی تھی تو اس میں سازش کا عنصر کہاں سے آگیا۔
غلامی سے نجات اور غیر ملکی سازش کا نعرہ صرف اور صرف ایک سیاسی ہتھکنڈہ ہے جسے خان صاحب اگلے الیکشن تک استعمال کرتے رہیں گے ، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ غیر ملکی غلامی سے نجات کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے، صرف نعرے لگا کر غلامی سے نجات حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔
اپنے دور میں انھوں نے خود کوئی عمل ایسا نہیں کیا جس سے اُن کے اس نعرے کو تقویت ملتی دکھائی دیتی ہو ، وہ اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں تو اطاعت ، غلامی اور تابعداری کی مکمل تصویر بنے رہے۔
کسی مرحلہ پر مزاحمت نہیں دکھائی۔ امریکا کے حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے تمام جتن کر ڈالے ۔ اس وقت اس غلامی سے نجات کا ذرہ بھر بھی خیال نہیں آیا ، پھر اچانک کیا ہوا کہ سارا نظریہ اور بیانیہ ہی تبدیل ہو گیا۔
غلامی سے نجات کا نعرہ بہت دلکش اور دلفریب ہوتا ہے مگر اس مقصد کو پانے کے لیے قوم کو اپنے پیروں پرکھڑا ہونا پڑے گا۔ غیر ملکی قرضوں اور امداد کی بیساکھیوں پر کھڑے ہو کر ایسے نعروں سے اپنی جھوٹی انا کو تو تسکین دی جاسکتی ہے لیکن حقیقی معنوں میں غلامی سے نجات حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔ ہمیں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پہلے خود کو اس قابل بنانا ہوگا۔ اس کے علاوہ ساری باتیں محض سیاسی اسٹنٹ اور شعبدہ بازی کے سوا کچھ نہیں۔