خودکشی یا قتل نویں جماعت کے طالبعلم کی قبرکشائی
3مارچ کو گھر سے 16سالہ علی رضا کی پھندا لگی لاش ملی، ورثا نے بغیر پولیس کارروائی کے لاش سپرد خاک کردی تھی
PESHAWAR:
بلال کالونی کے رہائشی نویں کلاس کے طالب علم کی قبر کشائی کردی گئی۔
3 مارچ کو نیو کراچی سیکٹر فائیو ڈی میں گھر کے اندر سے 16 سالہ علی رضا ولد اسلم حسین کی پھندا لگی لاش ملی تھی، لاش کو اہل خانہ نے عباسی شہید اسپتال پہنچایا جہاں ڈاکٹروں نے معائنے کے بعد موت کی تصدیق کردی ، ورثا بغیر پولیس کارروائی کے لاش اپنے ہمراہ لے گئے اور اسے نیوکراچی صنعتی ایریا کے صدیق آباد قبرستان میں سپرد خاک کردیا۔
اہل خانہ کے مطابق لاش چھت پر جانے والے زینے کے دروازے پر تھی، رسی علی کے گلے میں لپٹی ہوئی تھی اور اس کا دوسرا سرا دروازے کی چھت سے بندھا ہوا تھا جبکہ اس کی اونچائی بھی اتنی نہیں تھی کہ اس سے لٹک کر علی خودکشی کرسکے ، چند روز بعد اہل خانہ نے جب مزید کچھ معلومات کیں تو انھیں شک ہوا کہ علی کو قتل کرکے خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
اہل خانہ نے مشاورت کے بعد پولیس سے رابطہ کیا اور تمام تر صورتحال سے آگاہ کیا ، بلال کالونی پولیس نے واقعے کا مقدمہ الزام نمبر 170/22 بجرم دفعہ 302 کے تحت علی رضا کی والدہ زہرہ کنول کی مدعیت میں 13 مارچ کو علی کی ہلاکت کے 10 روز بعد درج کر کے تحقیقات شروع کی اس سلسلے میں پولیس حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے دوران سب سے پہلے لاش کا معائنہ انتہائی ضروری تھا جس کے لیے متعلقہ عدالت سے قبر کشائی کی درخواست کی گئی۔
عدالت سے اجازت نامہ حاصل کرنے کے بعد تمام تر مروجہ قوانین کے تحت مجسٹریٹ کی نگرانی میں قبر کشائی کی گئی ، قبر کشائی کے موقع پر میڈیکل بورڈ میں ڈاؤ یونیورسٹی کے فارنسک میڈیسن کے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ پروفیسر ڈاکٹر ذکی الدین احمد ، سول اسپتال کے ایم ایل او ڈاکٹر گلزار علی سولنگی اور سندھ گورنمنٹ اسپتال سعود آباد کے ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر سہیل احمد یار خان شامل تھے۔
قبر کشائی کر کے لاش کے نمونے کیمیائی تجزیے کیلیے لیبارٹری بھیج دیے گئے ہیں جس کی رپورٹ کی روشنی میں قانونی کارروائی مزید آگے بڑھائی جائے گی۔
علی رضا کے اہل خانہ کاسوتیلے بھائی قمر پر شک کا اظہار
علی رضا کے اہل خانہ نے سوتیلے بھائی قمر اور دیگر پر شک کا اظہار کردیا ، واقعے سے کچھ دیر قبل چھت پر قمر اور اسکے ساتھیوں کو دیکھا گیا تھا، علی کی ایک چپل چھت پر پڑے گدے میں دھنسی ہوئی ملی جبکہ دوسری چپل چند فٹ کے فاصلے پر تھی۔
علی رضا کے ماموں راؤ حنیف نے ایکسپریس کو بتایا کہ علی رضا کے والد اسلم نے پہلی بیوی کو طلاق دے دی تھی جس سے اس کا ایک بیٹا اور 5 بیٹیاں ہیں لیکن کچھ عرصہ قبل اس کے بڑے بیٹے قمر نے دوبارہ ان سے ملنا جلنا شروع کردیا۔
اسلم جس بلڈنگ میں رہتا ہے اس کا ایک ایک پورشن اپنی دونوں بیویوں کے نام کرنا چاہتا تھا جس کا ذکر اس نے بارہا کیا لیکن قمر نے ہمیشہ مخالفت کی تھی، دونوں خاندانوں کے درمیان بات بڑھ گئی تھی اور قمر نے دھمکیاں بھی دیں جس پر قمر کے خلاف بلال کالونی تھانے میں درخواست بھی دی گئی تھی، واقعے کے بعد سے اسلم نے علی رضا پر سختیاں شروع کردیں اور اسے تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
واقعے سے تین روز قبل بھی اس نے علی کو بہت زیادہ تشدد کا نشانہ بنایا جس پر غصے میں علی گھر سے چلا گیا تھا لیکن وہ واپس آ گیا تھا اور اسی دوران اسلم اور قمر نے مشہور کر دیا کہ علی خودکشی کرنا چاہتا ہے۔
پولیس حکام شفاف تحقیقات یقینی بنا کر انصاف فراہم کریں،اہل خانہ
اہل خانہ نے اعلیٰ حکام سے انصاف کی اپیل کر دی ہے، اہل خانہ کا کہنا ہے کہ علی نویں کلاس کا طالب علم تھا ، وہ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔
علی رضا کے ماموں راؤ حنیف نے بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں انصاف ملے کیونکہ انھیں شک ہے کہ قمر اس کیس کی تفتیش پر بھی اثر انداز ہونے کی پوری کوشش کرے گا، علی کے ساتھ جس دن یہ واقعہ پیش آیا ہے اس سے اگلے روز اس کا پیپر تھا، وہ نویں جماعت کا طالب علم تھا، رات کے وقت وہ علاقے میں ہی اسنوکر کھیلنے جاتا تھا اور علی اسنوکر کا ایک بہترین کھلاڑی تھا۔
انھوں نے آئی جی سندھ مشتاق مہر اور ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن سے اپیل کی ہے کہ واقعے کی تحقیقات شفاف طور پر کرائی جائے تاکہ انھیں انصاف مل سکے۔
قمر نے ساتھیوں کے ہمراہ علی کو قتل کرکے لاش لٹکا دی، ماموں راؤ حنیف
متوفی علی کے ماموں راؤ حنیف نے ایکسپریس کو مزید بتایا کہ وقوعے کے وقت علی باہر گیا ہوا تھا ، وہ کب واپس آیا اس کی والدہ کو معلوم نہیں ہو سکا جبکہ اس کی عادت تھی کہ وہ باہر جاتے وقت یا گھر میں آتے وقت والدہ کو ضرور بتاتا تھا ، جب رات ساڑھے گیارہ بجے تک اس کا کچھ پتہ نہ چلا تو اسے پہلے گھر میں تلاش کیا اور والدہ ڈھونڈتے ہوئے چھت پر جانے لگیں تو زینے کے دروازے پر چھت کی طرف اس کی لاش ملی جبکہ چھت پر پڑے ایک پرانے گدے کے اندر اس کی ایک چپل دھنسی ہوئی تھی، دوسری چپل کچھ فٹ کے فاصلے پر چھت سے ہی ملی بعدازاں جب علاقہ مکینوں سے معلومات حاصل کی تو پتہ چلا کہ قمر نے کسی کے ذریعے علی کو بلوایا تھا اور اسے کہا تھا کہ سیدھے چھت پر آجانا کچھ بات کرنی ہے۔
راؤ حنیف نے مزید بتایا کہ ہمیں شک ہے کہ قمر نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قتل کرنے کے بعد لاش لٹکادی اور واقعے کو خودکشی کا رنگ دے دیا۔
بلال کالونی کے رہائشی نویں کلاس کے طالب علم کی قبر کشائی کردی گئی۔
3 مارچ کو نیو کراچی سیکٹر فائیو ڈی میں گھر کے اندر سے 16 سالہ علی رضا ولد اسلم حسین کی پھندا لگی لاش ملی تھی، لاش کو اہل خانہ نے عباسی شہید اسپتال پہنچایا جہاں ڈاکٹروں نے معائنے کے بعد موت کی تصدیق کردی ، ورثا بغیر پولیس کارروائی کے لاش اپنے ہمراہ لے گئے اور اسے نیوکراچی صنعتی ایریا کے صدیق آباد قبرستان میں سپرد خاک کردیا۔
اہل خانہ کے مطابق لاش چھت پر جانے والے زینے کے دروازے پر تھی، رسی علی کے گلے میں لپٹی ہوئی تھی اور اس کا دوسرا سرا دروازے کی چھت سے بندھا ہوا تھا جبکہ اس کی اونچائی بھی اتنی نہیں تھی کہ اس سے لٹک کر علی خودکشی کرسکے ، چند روز بعد اہل خانہ نے جب مزید کچھ معلومات کیں تو انھیں شک ہوا کہ علی کو قتل کرکے خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
اہل خانہ نے مشاورت کے بعد پولیس سے رابطہ کیا اور تمام تر صورتحال سے آگاہ کیا ، بلال کالونی پولیس نے واقعے کا مقدمہ الزام نمبر 170/22 بجرم دفعہ 302 کے تحت علی رضا کی والدہ زہرہ کنول کی مدعیت میں 13 مارچ کو علی کی ہلاکت کے 10 روز بعد درج کر کے تحقیقات شروع کی اس سلسلے میں پولیس حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے دوران سب سے پہلے لاش کا معائنہ انتہائی ضروری تھا جس کے لیے متعلقہ عدالت سے قبر کشائی کی درخواست کی گئی۔
عدالت سے اجازت نامہ حاصل کرنے کے بعد تمام تر مروجہ قوانین کے تحت مجسٹریٹ کی نگرانی میں قبر کشائی کی گئی ، قبر کشائی کے موقع پر میڈیکل بورڈ میں ڈاؤ یونیورسٹی کے فارنسک میڈیسن کے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ پروفیسر ڈاکٹر ذکی الدین احمد ، سول اسپتال کے ایم ایل او ڈاکٹر گلزار علی سولنگی اور سندھ گورنمنٹ اسپتال سعود آباد کے ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر سہیل احمد یار خان شامل تھے۔
قبر کشائی کر کے لاش کے نمونے کیمیائی تجزیے کیلیے لیبارٹری بھیج دیے گئے ہیں جس کی رپورٹ کی روشنی میں قانونی کارروائی مزید آگے بڑھائی جائے گی۔
علی رضا کے اہل خانہ کاسوتیلے بھائی قمر پر شک کا اظہار
علی رضا کے اہل خانہ نے سوتیلے بھائی قمر اور دیگر پر شک کا اظہار کردیا ، واقعے سے کچھ دیر قبل چھت پر قمر اور اسکے ساتھیوں کو دیکھا گیا تھا، علی کی ایک چپل چھت پر پڑے گدے میں دھنسی ہوئی ملی جبکہ دوسری چپل چند فٹ کے فاصلے پر تھی۔
علی رضا کے ماموں راؤ حنیف نے ایکسپریس کو بتایا کہ علی رضا کے والد اسلم نے پہلی بیوی کو طلاق دے دی تھی جس سے اس کا ایک بیٹا اور 5 بیٹیاں ہیں لیکن کچھ عرصہ قبل اس کے بڑے بیٹے قمر نے دوبارہ ان سے ملنا جلنا شروع کردیا۔
اسلم جس بلڈنگ میں رہتا ہے اس کا ایک ایک پورشن اپنی دونوں بیویوں کے نام کرنا چاہتا تھا جس کا ذکر اس نے بارہا کیا لیکن قمر نے ہمیشہ مخالفت کی تھی، دونوں خاندانوں کے درمیان بات بڑھ گئی تھی اور قمر نے دھمکیاں بھی دیں جس پر قمر کے خلاف بلال کالونی تھانے میں درخواست بھی دی گئی تھی، واقعے کے بعد سے اسلم نے علی رضا پر سختیاں شروع کردیں اور اسے تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
واقعے سے تین روز قبل بھی اس نے علی کو بہت زیادہ تشدد کا نشانہ بنایا جس پر غصے میں علی گھر سے چلا گیا تھا لیکن وہ واپس آ گیا تھا اور اسی دوران اسلم اور قمر نے مشہور کر دیا کہ علی خودکشی کرنا چاہتا ہے۔
پولیس حکام شفاف تحقیقات یقینی بنا کر انصاف فراہم کریں،اہل خانہ
اہل خانہ نے اعلیٰ حکام سے انصاف کی اپیل کر دی ہے، اہل خانہ کا کہنا ہے کہ علی نویں کلاس کا طالب علم تھا ، وہ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔
علی رضا کے ماموں راؤ حنیف نے بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں انصاف ملے کیونکہ انھیں شک ہے کہ قمر اس کیس کی تفتیش پر بھی اثر انداز ہونے کی پوری کوشش کرے گا، علی کے ساتھ جس دن یہ واقعہ پیش آیا ہے اس سے اگلے روز اس کا پیپر تھا، وہ نویں جماعت کا طالب علم تھا، رات کے وقت وہ علاقے میں ہی اسنوکر کھیلنے جاتا تھا اور علی اسنوکر کا ایک بہترین کھلاڑی تھا۔
انھوں نے آئی جی سندھ مشتاق مہر اور ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن سے اپیل کی ہے کہ واقعے کی تحقیقات شفاف طور پر کرائی جائے تاکہ انھیں انصاف مل سکے۔
قمر نے ساتھیوں کے ہمراہ علی کو قتل کرکے لاش لٹکا دی، ماموں راؤ حنیف
متوفی علی کے ماموں راؤ حنیف نے ایکسپریس کو مزید بتایا کہ وقوعے کے وقت علی باہر گیا ہوا تھا ، وہ کب واپس آیا اس کی والدہ کو معلوم نہیں ہو سکا جبکہ اس کی عادت تھی کہ وہ باہر جاتے وقت یا گھر میں آتے وقت والدہ کو ضرور بتاتا تھا ، جب رات ساڑھے گیارہ بجے تک اس کا کچھ پتہ نہ چلا تو اسے پہلے گھر میں تلاش کیا اور والدہ ڈھونڈتے ہوئے چھت پر جانے لگیں تو زینے کے دروازے پر چھت کی طرف اس کی لاش ملی جبکہ چھت پر پڑے ایک پرانے گدے کے اندر اس کی ایک چپل دھنسی ہوئی تھی، دوسری چپل کچھ فٹ کے فاصلے پر چھت سے ہی ملی بعدازاں جب علاقہ مکینوں سے معلومات حاصل کی تو پتہ چلا کہ قمر نے کسی کے ذریعے علی کو بلوایا تھا اور اسے کہا تھا کہ سیدھے چھت پر آجانا کچھ بات کرنی ہے۔
راؤ حنیف نے مزید بتایا کہ ہمیں شک ہے کہ قمر نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قتل کرنے کے بعد لاش لٹکادی اور واقعے کو خودکشی کا رنگ دے دیا۔