معاشی استحکام بڑا چیلنج  حکومت کو لانگ ٹرم پالیسیاں بنانا ہونگی

نئی حکومت کو درپیش چیلنجز اور ان کا حل...

حکومت کو سیاسی انتقامی کارروائیوں کے بجائے چیلنجز سے نمٹنے اور عوام کو ریلیف دینے پر توانائی خرچ کرنا ہوگی ۔ فوٹو : فائل

TOKYO:
گزشتہ ماہ وجود میں آنے والے نئی حکومت کو مختلف محاذ پر سنگین چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سیاسی، معاشی، داخلی اور خارجہ محاذ پر صورتحال بدترین ہے۔

معاشی عدم استحکام، ڈالر کی اونچی اڑان، بیرونی قرضوں میں اضافہ، تیزی سے بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری اور غربت نئی حکومت کے لیے درد سر بن چکی ہے۔ معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں اور دوست ممالک سے بھی ریلیف لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف نے حال ہی میں سعودی عرب کا دورہ کیا ہے۔

سیاسی حوالے سے اپوزیشن جماعت تحریک انصاف جلسے کر رہی ہے ، سابق وزیراعظم عمران خان نے 20 مئی کے بعد کسی بھی وقت اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی کال دینے کا اعلان کیا ہے۔

عمران خان جلد انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اس حوالے سے اداروں پر دباؤ ڈالنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ن) نے بھی عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا ہے اور مختلف شہروں میں جلسے کیے جا رہے ہیں۔

پنجاب کی بات کریں تو یہاں مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز نے بطور وزیراعلیٰ حلف اٹھا لیا ہے مگر تحریک انصاف کے گورنر پنجاب عمر چیمہ پنجاب حکومت کیلئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ عدلیہ، الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کے رہنماؤں اور سپورٹرز کی جانب سے سوشل میڈیا پر مہم چلائی جا رہی ہے، جلسوں میںتنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

امریکی سازش اور حقیقی آزادی کا بیانیہ تحریک انصاف کے سپورٹرز میں مقبول ہو چکا ہے جو نہ صرف جلسوں میں شریک ہوکر بلکہ سوشل میڈیا پر اداروں اور نئی حکومت کے خلاف تنقید کر کے دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور حکومت کی مشکلات میں ہر ممکن اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔

نئی حکومت نے بھی تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو نشانے پر رکھا ہے، فارن فنڈنگ کیس، توشہ خانہ کے تحائف، سرکاری بلٹ پروف گاڑی، سابق خاتون اول کی دوست فرح گوگی کی مبینہ کرپشن اور اس طرح دیگر الزامات کے ذریعے عمران خان کو کاونٹر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس سارے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ''نئی حکومت کو درپیش چیلنجز اور ان کا حل'' کے موضوع پر خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہر معاشیات اورسیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ

(سیاسی تجزیہ نگار )

ہر نئی آنے والی حکومت نے مسائل کا ملبہ ماضی کی حکومت پر ڈالا مگر خود کچھ نہیں کیا۔ بدقسمتی سے ہر حکومت نے کاسمیٹک اقدامات اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی سے کام لیا۔ ایسے اقدامات کیے جن سے وقتی طور پر سب اچھا نظر آنے لگامگر اس کے دیرپا اچھے نتائج نہ ہوسکے۔ اس وقت قوم تین بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومتیں دیکھ چکی ہے۔

تینوں نے ہی شارٹ ٹرپ پالیسیوں اور قرضوں کے ذریعے معاملات چلانے کی کوشش کی، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، احساس پروگرام جیسے منصوبوں سے وقتی فائدہ لیا اور ملک کو کوئی لانگ ٹرپ پالیسی نہیں دی۔

اگر کوئی پالیسی بنی تو بعد میںا ٓنے والی حکومت نے اس کا تسلسل برقرار نہیں رکھا۔ نواز شریف حکومت کا موٹر وے بنانے کا منصوبہ تھا، معاہدہ ہوگیا مگر بعد میں آنے والی حکومت نے منصوبہ روک دیا، اس میں تاخیر ہوئی، اس کی لاگت بڑھی اور ملک کو معاشی طور پر نقصان ہوا۔ ہمارے برعکس بنگلہ دیش کی معاشی حالت بہتر ہے جس کی وجہ لانگ ٹرم پالیسیاں اور ان کا تسلسل ہے۔

خالدہ ضیاء اور حسینہ واجد ایک دوسرے کی شدید مخالف ہیں مگر وہاں حکومت بدلنے سے لانگ ٹرم پالیسیوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ تسلسل برقرار رکھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ہر آنے والی حکومت ماضی کی حکومت کی پالیسیاں صرف اس لیے ختم کر دیتی ہے کہ کریڈٹ اس حکومت کو جائے گا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں نہیں گروہ ہیں اور لیڈر نہیں شخصیات ہیں جن کی وجہ سے ملک کو تاحال مسائل درپیش ہیں۔

تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہمارا ایک بڑا مسئلہ ہے، جب تک اس پر قابو نہیں پایا جائے گا تب تک کسی بھی پالیسی کا فائدہ نہیں ہوگا، اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ چین اور بنگلہ دیش نے آبادی کنٹرول کی اور اپنے وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن اگر ہم آبادی کنٹرول نہیں کریں گے تو ہمارے وسائل ہمیشہ کم ہی رہیں گے۔ موجودہ حکومت کے پاس وقت کم اور مسائل زیادہ ہیں، یہ وقتی اقدامات کریں گے، قرضے لیں گے اور معیشت کو وقتی طور پر سنبھالا دینے کی کوشش کریں گے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ آئی ایم ایف اور سعودی عرب سے امداد کے ذریعے معاملات کو بہتر کیا جاسکے۔

ملک کو اس وقت قومی سوچ کی ضرورت ہے، اقتدار کی جنگ میں ملک کا نقصان ہورہا ہے، جب تک ذاتیات ختم نہیں ہونگی، گروہ نہیں ٹوٹیں گے، لیڈر پیدا نہیں ہونگے، قومی ویژن کی قیادت نہیںا ٓئے گی تب تک ملکی مسائل حل نہیں ہونگے بلکہ سنگین ہوتے جائیں گے۔

خود عمران خان تسلیم کر چکے ہیں کہ انہوں نے بعض فیصلے غلط لیے، انہیں کمپرومائزز کی وجہ سے نقصان ہوا اور وہ مخلوط حکومت کی وجہ سے بلیک میل ہوئے۔ ناخواندگی اور شعور نہ ہونے کی وجہ سے ملک کو نقصان ہورہا ہے۔ اس وقت جتنی پولرائزیشن ہوچکی ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگلا سیٹ اپ بھی مخلوط ہوگا۔

میرے نزدیک عمران خان نے جس طرح حکومت کی، اس سے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔ سارا ٹیکس غریب دے رہا ہے جبکہ امراء عیاشی کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے بار بار چیئرمین ایف بی آر اور وزیر خزانہ بدلے، معیشت کو سنجیدگی سے نہیں لیا جس کی وجہ سے مسائل سنگین ہوتے گئے۔ ہمارے ہاں اپنی کمزوری کو مذہب کارڈ کے تحت چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے، میرے نزدیک یہ سب سے کمزور حربہ ہوتا ہے۔ ایک طرف یورپی یونین سے جی ایس پی پیلس ٹیٹس مانگتے ہیں اور دوسری طرف سازش کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔


ہماری معیشت امریکا اور یورپ کی مارکیٹ کی وجہ سے ہی چل رہی ہے، دیکھنا تو یہ ہے کہ کیا چیز ہمارے ملکی مفاد میں ہے۔ بدقسمتی سے ہمیں ایسی لیڈر شپ ہی نہیں ملی جو صرف ملک کیلئے سوچے۔85ء کے غیر جماعتی انتخابات سے ملک کو نقصان پہنچا، اب پیسے کی بنیادی پر سیاست ہورہی ہے، ہر طرف کمپرومائزز کیے جاتے ہیں۔ سیاست اور اقتدار خدمت کے بجائے صرف مفادات کی گیم بن چکی ہے جو افسوسناک ہے۔ نئی حکومت کی بات کریں تو یہ غیر فطری اتحاد ہے، اسے قائم رکھنا خاصا مشکل ہوگا۔

بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی

(دفاعی تجزیہ نگار)

سیاسی عدم استحکام بہت سارے مسائل کو جنم دیتا ہے ۔ اس میں ایک بڑا مسئلہ معاشی چیلنج ہے جس کے باعث آنے والے دنوں میں مسائل سنگین ہوسکتے ہیں ۔جو حکومتیں انتخابات کے ذریعے وجود میں آتی ہیں ان کی ساکھ بہتر ہوتی ہے، عوام انہیں تسلیم کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے خود ووٹ کے ذریعے انہیں منتخب کیا ہوتا ہے۔ اب جو حکومت آئی ہے اس کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔

عدم اعتماد آئینی طریقہ ہے مگر عمران خان کے حوالے سے یہ عدم اعتماد اندرونی نہیں تھی، امریکا سے پیسہ آیا جس کے خلاف اب تک ہیش ٹیگ چل رہے ہیں۔ عالمی اخبارات میں جو کارٹون شائع ہورہے ہیں وہ بطور پاکستانی ہم سب کیلئے تضحیک آمیز ہیں۔

موجودہ کابینہ میں زیادہ تر لوگوں پر کیسز ہیں، یہ حکومت متنازعہ ہے، عوام میں اس کی مقبولیت ہے اور نہ ہی قبولیت۔ یہ حکومت اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکے گی، اس میں پروفیشنل لوگوں کی کمی ہے، اس میں کپیسٹی نہیں ہے، اگر سستی شہرت کی طرف جائیں گے تو ان کے لیے مزید مسائل پیدا ہونگے۔ ہم ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں، روس سے فائدہ بھارت اٹھا رہا ہے، ہمارے ہاں سے چینی بھی واپس جا رہے ہیں، خارجہ محاذ پر ہمارے لیے چیلنجز سنگین ہیں، سٹرٹیجک لحاظ سے خطے میں مسائل ہیں جن سے نمٹنے کیلئے موجودہ حکومت میں صلاحیت نہیں ہے۔

تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تو خطرناک صورتحال پیدا ہوجائے گی، اس جماعت پر فارن فنڈنگ کیس کے تحت پابندی لگانا خانہ جنگی طرف لے جاسکتا ہے۔

پاکستان کے سکیورٹی اداروں کو ایجنڈے کے تحت بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کا جواب حکومت اور پارلیمان نے دینا ہوتا ہے مگر غیر موثر حکومت اس کا جواب نہیں دے پا رہی۔اس وقت حالات خوفناک ہیں، اگر ہم سول وار سے بچنا چاہتے ہیں اور ملک میں استحکام لانا چاہتے ہیں تو فوری طور پر جلد انتخابات کی جانب بڑھنا ہوگا، بصورت دیگر شدید مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد ارشد

(سابق ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی)

پاکستان زرعی ملک ہے مگر یہاں زراعت کو نظر انداز کیا گیا۔ دنیا کی جدید ٹیکنالوجی، آلات اور جنیاتی طور پر بہتر ورائٹی کی ملک میں حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ امریکا، کینیڈا، چین سمیت دنیا کے بیشتر ممالک فصلوں کی جو 90 فیصد اقسام کھا رہے ہیں وہ ہمارے ہاں نہیں ہیں۔ وہ فصلیں جنیاتی طور پر بہتر ہیں مگر ہمارے ملک میں پیسٹی سائڈز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارا ملک ممنوعہ پیسٹی سائڈز کی جنت بن چکا ہے جس سے نقصان ہورہا ہے۔ حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے اور جدید ٹیکنالوجی کو زرعی شعبے میں لانا چاہیے اور دنیا کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہیے۔

خام تیل کے بعد ہم خوردنی تیل کی امپورٹ سب سے زیادہ کرتے ہیں جو چھ بلین ہے۔ اگر زرعی شعبے کو بہتر کیا جائے تو اس حوالے سے بہتری لائی جاسکتی ہے۔ ملک میں ایسے بیشتر شعبے موجود ہیں جو90ا قسام کے ٹیکس دیتے ہیں، اور بعض شعبے 100 اقسام کے ٹیکس دیتے ہیں۔

بے جا اورا ضافی ٹیکسوں کے مسائل کی وجہ سے معیشت کو بڑے چیلنجز درپیش ہیں لہٰذا ملکی معاشی استحکام کیلئے ٹیکس ریفارمز لانا ہوں گی۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں جب عبداللہ یوسف نے امپورٹ ڈومینیٹنگ اکانومی دی تو ملک کو بہت فائدہ ہوا، عالمی ادارے بھی پریشان ہوگئے کہ کس طرح اتنا ٹیکس اکٹھا ہوا۔ میرے نزدیک اگر اب بھی ٹیکس کو امپورٹ بیسڈ کر دیا جائے، پورٹ پر ٹیکس لیا جائے اور نو ریفنڈ، نو آڈٹ کر دیا جائے تو بہت فائدہ ہوگا۔

بلا وجہ نوٹس اور خوف کی وجہ سے سرمایہ دار کام نہیں کرسکتے، ایک نوٹس آنے پر ساری توجہ اس نوٹس کی طرف ہو جاتی ہے جس سے پیداواری صلاحیت کم ہوجاتی ہے اور کام متاثر ہوتا ہے۔ اگر ٹیکس اصلاحات لائی جائیں تو فوری طور پر 50 فیصد بہتری آجائے گی۔

دبئی نے کنسٹرکشن کے شعبے سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے کنسٹرکشن پیکیج دیا مگر وہ کم مدت کیلئے تھا، چھ سے آٹھ ماہ میں تو کوئی صنعت نہیں لگ سکتی۔ مدت مقرر کرنے سے سوالات اٹھتے ہیں کیونکہ اندر موجود لوگوں کو پہلے سے معلوم ہوجاتا ہے اور وہ ایسی پالیسیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ماضی کی حکومت نے بعض مزید صنعتوں کو پیکیج دیا گیا مگر وہ بھی کم مدت کیلئے تھا، اگر ایسے پیکیج تمام شعبوں کو دیے جاتے، مدت مقرر نہ کی جاتی اور انہیں مانیٹری پالیسی کا حصہ بنایا جاتا تو معیشت کو بہت فائدہ ہوتا۔ ڈالر کی اونچی اڑان حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہے۔

آٹھ برس پہلے قانون تھا کہ ترسیلات زر سٹیٹ بینک کو جاتی تھی، اس کے نتیجے میں ڈالر آتے تھے، حکومت کو فائدہ ہوتا تھا لہٰذا اگر اب بھی ایسا کر دیا جائے تو معاشی طور پر بہتری لائی جاسکتی ہے۔

اس وقت سب کو موجودہ حکومت سے توقعات زیادہ ہیں کہ وہ معاشی طور پو ملک کو سنبھالا دینے کی کوشش کریں گے، اس حوالے سے حکومت آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے بیرونی قرضوں کی کوشش کر رہی ہے، اگر یہ ریلیف پیکیج اور قرضے مل گئے تو وقتی طور پر فائدہ ہوگا۔ لانگ فرم فائدے کیلئے زراعت، صنعت، کنسٹرکشن و دیگر شعبوں کو پیکیج دے کر بہتر کیا جائے اور اسے مانیٹری پالیسی کا حصہ بنایا جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس ریفارمز لائی جائیں تاکہ کاروباری طبقے کو سکون کا سانس ملے اور وہ پوری توجہ کے ساتھ ملکی معاشی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
Load Next Story