پٹرول کی قیمت میں کمی
پاکستان جیسے ترقی یافتہ ملک کے پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل سالانہ بنیادوں پر کریں
وفاقی حکومت نے پٹرول 2.73 روپے فی لیٹر سستا کر دیا جب کہ دیگر تمام پٹرولیم مصنوعات کی موجودہ قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نئی قیمتوں کا اطلاق یکم مارچ سے ہو گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے پٹرول سستا کرنے کے امر کو تجزیہ نگار جہاں خوش کن قرار دے رہے ہیں وہاں وہ شکوہ سنج بھی دکھائی دیتے ہیں کہ حکومت پٹرول مہنگا کرتے وقت تو کئی روپے کا اضافہ کر دیتی ہے اور یہ عذر تراشا جاتا ہے کہ چونکہ عالمی منڈی میں پٹرول مہنگا ہو گیا ہے اس لیے حکومت کو بھی مجبوراً ایسا کرنا پڑا ہے مگر جب پٹرول سستا کرنا ہوتا ہے تو معمولی قیمت کم کر کے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری جاتی ہے۔ تجزیہ نگاروں کی شکوہ گزاری بالکل بجا ہے کیونکہ پٹرول مہنگا ہونے سے پورے ملک کی معیشت کا ہر شعبہ اس سے متاثر ہوتا ہے اور اس آڑ میں ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی خودبخود بڑھ جاتے ہیں۔
نقل و حمل پر اٹھنے والے زائد اخراجات کا بوجھ عوام کے کندھوں پر لادتے ہوئے روزمرہ اشیا کی قیمتیں بھی بڑھا دی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں حکومتی اداروں کا کنٹرول کمزور ہونے کے باعث اشیا کی قیمتوں پر کوئی چیک نہیں ہے نتیجتاً تاجر حضرات قیمتیں بڑھانے میں قطعی آزاد ہیں۔ اس ساری صورت حال کے تناظر میں مہنگائی کا نیا طوفان آ جاتا ہے جس سے بالخصوص نچلا طبقہ متاثر ہوتا ہے۔ غریب جو پہلے ہی محدود وسائل کے باعث زندگی کی گاڑی بمشکل کھینچ رہا ہوتا ہے مزید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا مختصر المدت کا طریقہ کار معیشت کی روانی میں رکاوٹ کا باعث بن رہا اور صنعت کار کو غیریقینی حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حکومت پٹرول کی قیمتوں میں کمی بیشی کے مختصر المدت طریقہ کار کے بجائے سالانہ بنیادوں پر اس کا تعین کرے تاکہ اشیا کی قیمتوں میں سال بھر استحکام رہے اور معاشی پہیہ بھی روانی سے چلتا رہے۔
پاکستان جیسے ترقی یافتہ ملک کے پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل سالانہ بنیادوں پر کریں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں یہی طریقہ کار رائج ہے۔ عالمی منڈی سے تیل کی قیمتوں کو منسلک کرنے اور مختصر عرصے کے بعد اس کے تناظر میں ردوبدل کرنے سے صارفین کو فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ ویسے بھی پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات پر بہت زیادہ ٹیکس عائد ہیں۔ حکومت اگر ان ٹیکسوں میں خاطرخواہ کمی کرے اور قیمتوں کا تعین سالانہ میزانیے میں کرے تو تیل کی قیمتیں خاصی کم ہو جائیں گی جس سے عام آدمی کو بھی فائدہ پہنچے گا اور ملکی معیشت میں بھی استحکام آئے گا۔ ترقی یافتہ ملکوں میں معیشت ڈاکومیٹڈ ہے اور ساری معیشت ایک میکنزم کے تحت کام کرتی ہے اس لیے ان ملکوں میں اگر روزانہ کی بنیاد پر بھی قیمتوں کا تعین ہو تو معیشت کو کوئی فرق پڑتا ہے نہ صارفین سر اس کے بہت زیادہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ کمی سے بھی عام آدمی کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچے گا۔ بہرحال اب حکومت نے پٹرول کی قیمت میں جو چند روپے کمی کی ہے دیکھتے ہیں کہ اس کے معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گو ماضی میں مثبت اثرات کے ظہور کی کوئی مثال قرطاسِ معیشت پر رقم دکھائی نہیں پڑتی۔
نقل و حمل پر اٹھنے والے زائد اخراجات کا بوجھ عوام کے کندھوں پر لادتے ہوئے روزمرہ اشیا کی قیمتیں بھی بڑھا دی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں حکومتی اداروں کا کنٹرول کمزور ہونے کے باعث اشیا کی قیمتوں پر کوئی چیک نہیں ہے نتیجتاً تاجر حضرات قیمتیں بڑھانے میں قطعی آزاد ہیں۔ اس ساری صورت حال کے تناظر میں مہنگائی کا نیا طوفان آ جاتا ہے جس سے بالخصوص نچلا طبقہ متاثر ہوتا ہے۔ غریب جو پہلے ہی محدود وسائل کے باعث زندگی کی گاڑی بمشکل کھینچ رہا ہوتا ہے مزید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا مختصر المدت کا طریقہ کار معیشت کی روانی میں رکاوٹ کا باعث بن رہا اور صنعت کار کو غیریقینی حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حکومت پٹرول کی قیمتوں میں کمی بیشی کے مختصر المدت طریقہ کار کے بجائے سالانہ بنیادوں پر اس کا تعین کرے تاکہ اشیا کی قیمتوں میں سال بھر استحکام رہے اور معاشی پہیہ بھی روانی سے چلتا رہے۔
پاکستان جیسے ترقی یافتہ ملک کے پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل سالانہ بنیادوں پر کریں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں یہی طریقہ کار رائج ہے۔ عالمی منڈی سے تیل کی قیمتوں کو منسلک کرنے اور مختصر عرصے کے بعد اس کے تناظر میں ردوبدل کرنے سے صارفین کو فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ ویسے بھی پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات پر بہت زیادہ ٹیکس عائد ہیں۔ حکومت اگر ان ٹیکسوں میں خاطرخواہ کمی کرے اور قیمتوں کا تعین سالانہ میزانیے میں کرے تو تیل کی قیمتیں خاصی کم ہو جائیں گی جس سے عام آدمی کو بھی فائدہ پہنچے گا اور ملکی معیشت میں بھی استحکام آئے گا۔ ترقی یافتہ ملکوں میں معیشت ڈاکومیٹڈ ہے اور ساری معیشت ایک میکنزم کے تحت کام کرتی ہے اس لیے ان ملکوں میں اگر روزانہ کی بنیاد پر بھی قیمتوں کا تعین ہو تو معیشت کو کوئی فرق پڑتا ہے نہ صارفین سر اس کے بہت زیادہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ کمی سے بھی عام آدمی کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچے گا۔ بہرحال اب حکومت نے پٹرول کی قیمت میں جو چند روپے کمی کی ہے دیکھتے ہیں کہ اس کے معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گو ماضی میں مثبت اثرات کے ظہور کی کوئی مثال قرطاسِ معیشت پر رقم دکھائی نہیں پڑتی۔