جنگ کے خار زاروں سے امن کی مرغزاروں تک
کوئی واقعہ جب رونما ہوتا ہے تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ آگے چل کر اس کے کیا اثرات مرتب ہونیوالے ہیں۔
مارچ کا مہینہ آغاز ہوا۔ ہمارے برصغیر اور وسطی ایشیا میں یہ بہار کا مہینہ ہے، برف پگھلتی ہے اور نوخیز کونپلیں زمین کا سینہ چیر کر اپنی چھب دکھاتی ہیں۔ اردو، ہندی، بنگلہ، فارسی، ترکی، پنجابی، سندھی اور ہماری دوسری زبانوں میں سکل بن پھول رہی سرسوں، اور بہار آمد بہ آب و تاب و رنگ و بو و زیب وفر کی گنگناہٹ، پھولوں کی رسمساہٹ اور سرسوں کی سونے ایسی پیلاہٹ، اداس دلوں کو بھی مسکرانے پر مجبورکردیتی ہے۔ شاید اسی لیے دنیا کے اکثر ملکوں میں مارچ کا مہینہ عورتوں کی جدوجہد سے منسوب ہوا۔ مارچ کے حوالے سے پاکستانی عورتوں کی مختلف تنظیمیں اپنے حقوق اور اپنی کارگزاریوں کے حوالے سے جشن منائیں گی، لوگوں کو یاد دلائیں گی کہ اب جب کہ 2008ء سے ملک میں جمہوریت قائم ہے، پاکستانی عورتوں کو جہاں ان کے آئینی اور مساوی حقوق ملنے چاہئیں، وہیں خود انھیں بھی ایک آزاد شہری کے طور پر اپنے فرائض کی بجا آوری سے روگردانی نہیں کرنی چاہیے۔ جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کا فرض صرف یہی نہیں کہ وہ اپنے حقوق طلب کریںان کی ذمے داری یہ بھی ہے کہ ایک آزاد شہری کے طور پر وہ اپنے فرائض کی بجا آوری میں بھی کسی طرح کی کوتاہی نہ برتیں۔ آج ایک جمہوری فضا میں یہ بات کہنی بہت آسان ہے لیکن 1983ء کے اس دور کو یاد کیجیے جب اس ملک پر ایک غاصب حکمران ضیاء الحق کی بادشاہی تھی۔ عورتوں کو مساوی شہری کے درجے سے گرایا جاچکا تھا۔ ان کے خلاف ایک آرڈیننس کے ذریعے سیاہ قوانین نافذ کیے جاچکے تھے۔ ظلم کے اس قہرناک موسم میں 31 برس پہلے لاہور کی کچھ باشعور عورتوں نے یہ طے کیا کہ جس طرح علمائے سُو کی طرف سے مذہب کی خود ساختہ تشریح کے نام پر عورتوں کے سیاسی اورجمہوری حقوق چھینے جارہے ہیں، اس کے خلاف انھیں آواز اٹھانی چاہیے۔
12 فروری 1983ء کا دن تھا۔ جب لگ بھگ چالیس پچاس عورتیں اور لڑکیاں اپنا حق مانگتی ہوئی مال روڈ پر نکلیں، ان میں روبینہ سہگل، عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی، خاور ممتاز، لالہ رخ، فریدہ شہید، بشریٰ اعتزاز احسن، طاہرہ مظہرعلی خان اور نگہت سعید خان کے علاوہ بھی دوسری کئی خواتین تھیں۔ لاہور کی مال روڈ پر وہ مشکل سے پچاس ساٹھ گز آگے گئی ہوں گی کہ پولیس کا ایک جتھا ان پر ٹوٹ پڑا، سروں پر لاٹھیاں پڑیں اور خون کی دھاریں پھوٹ بہیں۔ وہ جب زمین پر گر گئیں تو انھیں بے دردی سے مارا گیا۔ یہ خبر لاہور ہائی کورٹ میں بیٹھے ہوئے پاکستان کے مشہور باغی اور انقلابی شاعر حبیب جالب اور وکیلوں تک پہنچی تو وہ ان عورتوں کا ساتھ دینے کے لیے دوڑ پڑے۔ جالب صاحب نے اپنے شعر پڑھنے شروع کردیے...ان اشعار کو سن کر عورتیں جوش سے بھر گئیں اور انھوں نے پٹتے ہوئے بھی نعرے لگانے شروع کردیے۔ پولیس والوں کو غصہ آگیا کہ یہ کون شخص ہے جو ان عورتوں کی ہمت بڑھا رہا ہے۔ انھوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ،ایک لاٹھی گھما کر جالب صاحب کے سرپر جمادی، ان کا سر کھل گیا اور چہرہ خون سے بھرگیا۔ وہ جن عورتوں کو بچانے گئے تھے، اب وہی ان کو پولیس کی لاٹھیوں سے بچانے لگیں۔ یوں پاکستانی عورتوں کی اس جدوجہد میں باضمیر پاکستانی مردوں کا لہو بھی شامل ہوگیا۔ عورتیں حوالات گئیں، جالب صاحب اسپتال گئے۔ دوسرے دن چند انگریزی اخباروں میں لہولہان عورتوں اور شاعر انقلاب جالب کی تصویریں چھپیں۔ کہنے کو یہ ایک معمولی سا واقعہ تھا لیکن یہ واقعہ ایک بڑی جہدوجہد کا آغاز بن گیا۔ یہی سبب ہے کہ پاکستانی عورت اپنے حقوق کی جدوجہد کا دن 12 فروری کو مناتی ہے۔
کوئی واقعہ جب رونما ہوتا ہے تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ آگے چل کر اس کے کیا اثرات مرتب ہونیوالے ہیں۔ لاہور کے وہ پولیس والے جنھوں نے 12 فروری 1983ء کو مارشل لا کے خلاف اور جمہوری حقوق کے لیے احتجاج کرنیوالی مٹھی بھر عورتوں کے جلوس کا راستہ روکا تھا، ان پر لاٹھیاں برسائی تھیں، تشدد کیا تھااسے ایک عام سا واقعہ سمجھا گیا اتنا معمولی کہ یہ واقعہ بیشتر اردو اخباروں میں ''خبر'' کے طور پر بھی شایع نہیں ہوا۔ انگریزی اخباروں کو دعا دیجیے جنھوں نے اس بارے میں لکھا تو سہی۔ جنرل ضیا الحق کا زمانہ تھا سب ہی سہمے ہوئے تھے۔ جنرل موصوف اپنے خیال میں پاکستانی سماج کی گندگیاں صاف کرنے کے لیے خدا کی طرف سے مامور کیے گئے تھے چنانچہ ہر ظلم روا تھا اور ان کا دیا ہوا ہر حکم شریعت کے عین مطابق۔
وہ اور ان کا ساتھ دینے والوں کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ دین کی من پسند تشریح و تعبیر سے ایک وسیع المشرب سماج کو وہ کیسا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان کی بنیادوں میں وہ بارود بچھ رہی ہے جو ہمارے سماج کو پارہ پارہ کردے گی۔ اس واقعے کو 31 برس گزر چکے لیکن روزانہ ہمارے شہروں اور قریوں میں بے گناہ بچے، عورتیں اور نوجوان لقمۂ اجل ہورہے ہیں۔ اپنے پیروں سے چل کر کسی نئی امید کی تلاش میں نکلنے والے لوتھڑوں کی گٹھریاں بن جاتے ہیں۔ ایسی گٹھریاں جن میں سے ان کی مائیں بھی انھیں ڈھونڈ نہیں پاتیں اور عمر اس موہوم امید میں گزار دیتی ہیں کہ شاید ان کے بیٹے دھماکے سے دور کسی اور جگہ ہوں، شاید ان کی یادداشت چلی گئی ہو اور کسی دن وہ لوٹ کر گھر آجائیں۔ لیکن باردو کے پروں پر سفر کرنے والے بھلا کب واپس آتے ہیں۔
میں اسے اپنی خوش نصیبی سمجھتی ہوں کہ پچھلے برس مجھے اس جشن میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور میں پاکستانی عورتوں کی اس جدوجہد کے 30 سالہ جشن میں شریک تھی۔ اس جشن میں یوں تو پاکستان بھر کی عورتیں موجود تھیں لیکن سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس میں وزیرستان، سوات اور دوسرے شورش زدہ علاقو ںکی عورتیں بھی شریک تھیں۔ ان کی روح اور بدن پر ایک ایسی جنگ کے زخم تھے جو ہم پر ہمارے نااہل اورناعاقبت اندیش حکمرانوں نے مسلط کردی تھی۔ ان عورتوں نے ہمیں اپنی برادری اور اپنے آپ پر ہونیوالے ستم کی داستان سنائی تھی۔ اس روز لاہور کی اسی مال روڈ پر جس پر ہماری عورتوں اور جالب صاحب کا خون 1983 ء میں گرا تھا، اسی سڑک پر لگ بھگ 100 عورتیں ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتی ہوئی چل رہی تھیں۔ یہ عورتوں کی جدوجہد کی بسنت تھی۔ اس بسنت کے رنگ ہر برس گہرے ہوتے جائینگے۔
یہ ایک پرانی حقیقت ہے کہ جنگ کا سب سے بڑا صدمہ عورت جھیلتی ہے۔ وہ اس فضا سے محروم ہوجاتی ہے جس میں وہ چین آرام سے اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتی ہے بچوں کی پرورش کرتی ہے جنگ اُسے در بہ در کردیتی ہے ماں، باپ، بھائی بہن، شوہر،بیٹیاں، بیٹے، سکھی سہیلیاں، بھانجے بھتیجے، قریبی رشتوں سے محروم ہوتی ہے اور اب ایک بار پھر ظالمانہ و سفاکانہ جنگ ہمارے سروں پر تلی ہوئی ہے۔ اس مرتبہ دوست اور دشمن کے چہرے لباس، نعرے اور دعوی ایک جیسے ہیں یہ بہت مشکل جنگ ہے۔ شورش زدہ علاقوں سے وہ کہاں دھکیلی جائے گی ؟ ٹرالروں میں بیٹیوں، بیٹوں، طوطے کے پنجرے اور میمنے کی حیران آنکھوں کو دیکھتی ہوئی وہ کہاں تک جائے گی ؟ اسے کچھ نہیں معلوم۔ مسجدیں اور امام بارگاہیں محفوظ نہیں دربار اور آستانوں میں نفرتیں اور ہلاکتیں پھیرا ڈالتی ہیں۔
اس جنگ کے ایک نہیں کئی محاذ ہیں جن پر کامیابیوں کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خلاف فیصلہ کن اقدامات جو بروئے کار لائے جارہے ہیں ان کی اہمیت اور افادیت یقینا اہم ہے تاہم، پائیدار کامیابی کے لیے اس سوچ کو فروغ دینا ہوگا کہ تنوع میں ہی ہم سب کی بقا مضمر ہے۔ معاشرتی و سماجی تنوع اور رنگا رنگی کو ختم کر کے کوئی اپنی سوچ سب پر مسلط کرنے کی کوشش نہ کرے کیونکہ ایسا ہونا عملاً ممکن نہیں۔ تنوع کے احترام پر مبنی اس سوچ اور فکر کا فروغ صرف ایک جمہوری نظام میں ممکن ہے کیونکہ یہ نظام کسی بھی ریاست میں بسنے والے ہر طبقے، گروہ اور ملک کی نمائندگی اور بنیادی انسانی آزادیوں کی ضمانت فراہم کرتا ہے، سب شہریوں کو بلا امتیاز مساوی حقوق دیتا ہے اور ہتھیار کی نہیں دلیل کی طاقت کو تسلیم کرتا ہے۔ پاکستان میںہتھیار اور دلیل کے درمیان ایک جنگ جاری ہے۔ اس جنگ میں ہمیں دلیل کی فتح کو یقینی بنانا ہوگا۔ آج ہم جن آفتوں میں گھرے ہوئے ہیں وہ عارضی ہیں۔ان آفتوں کے باوجود یہ بہار کا موسم ہے، ایک ایسی بہار کا جس میں سرسوں کے زرد پھولوں کے ساتھ لالے کے لہو پھول ہیں۔ عورتوں اور مردوں کی مشترک جدوجہد کا راستہ طویل ہے، یہ جنگ کے خار زاروں سے گزر کر امن کے مرغزاروں تک جاتا ہے اور وہی ہم سب کی منزل ہے۔
12 فروری 1983ء کا دن تھا۔ جب لگ بھگ چالیس پچاس عورتیں اور لڑکیاں اپنا حق مانگتی ہوئی مال روڈ پر نکلیں، ان میں روبینہ سہگل، عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی، خاور ممتاز، لالہ رخ، فریدہ شہید، بشریٰ اعتزاز احسن، طاہرہ مظہرعلی خان اور نگہت سعید خان کے علاوہ بھی دوسری کئی خواتین تھیں۔ لاہور کی مال روڈ پر وہ مشکل سے پچاس ساٹھ گز آگے گئی ہوں گی کہ پولیس کا ایک جتھا ان پر ٹوٹ پڑا، سروں پر لاٹھیاں پڑیں اور خون کی دھاریں پھوٹ بہیں۔ وہ جب زمین پر گر گئیں تو انھیں بے دردی سے مارا گیا۔ یہ خبر لاہور ہائی کورٹ میں بیٹھے ہوئے پاکستان کے مشہور باغی اور انقلابی شاعر حبیب جالب اور وکیلوں تک پہنچی تو وہ ان عورتوں کا ساتھ دینے کے لیے دوڑ پڑے۔ جالب صاحب نے اپنے شعر پڑھنے شروع کردیے...ان اشعار کو سن کر عورتیں جوش سے بھر گئیں اور انھوں نے پٹتے ہوئے بھی نعرے لگانے شروع کردیے۔ پولیس والوں کو غصہ آگیا کہ یہ کون شخص ہے جو ان عورتوں کی ہمت بڑھا رہا ہے۔ انھوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ،ایک لاٹھی گھما کر جالب صاحب کے سرپر جمادی، ان کا سر کھل گیا اور چہرہ خون سے بھرگیا۔ وہ جن عورتوں کو بچانے گئے تھے، اب وہی ان کو پولیس کی لاٹھیوں سے بچانے لگیں۔ یوں پاکستانی عورتوں کی اس جدوجہد میں باضمیر پاکستانی مردوں کا لہو بھی شامل ہوگیا۔ عورتیں حوالات گئیں، جالب صاحب اسپتال گئے۔ دوسرے دن چند انگریزی اخباروں میں لہولہان عورتوں اور شاعر انقلاب جالب کی تصویریں چھپیں۔ کہنے کو یہ ایک معمولی سا واقعہ تھا لیکن یہ واقعہ ایک بڑی جہدوجہد کا آغاز بن گیا۔ یہی سبب ہے کہ پاکستانی عورت اپنے حقوق کی جدوجہد کا دن 12 فروری کو مناتی ہے۔
کوئی واقعہ جب رونما ہوتا ہے تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ آگے چل کر اس کے کیا اثرات مرتب ہونیوالے ہیں۔ لاہور کے وہ پولیس والے جنھوں نے 12 فروری 1983ء کو مارشل لا کے خلاف اور جمہوری حقوق کے لیے احتجاج کرنیوالی مٹھی بھر عورتوں کے جلوس کا راستہ روکا تھا، ان پر لاٹھیاں برسائی تھیں، تشدد کیا تھااسے ایک عام سا واقعہ سمجھا گیا اتنا معمولی کہ یہ واقعہ بیشتر اردو اخباروں میں ''خبر'' کے طور پر بھی شایع نہیں ہوا۔ انگریزی اخباروں کو دعا دیجیے جنھوں نے اس بارے میں لکھا تو سہی۔ جنرل ضیا الحق کا زمانہ تھا سب ہی سہمے ہوئے تھے۔ جنرل موصوف اپنے خیال میں پاکستانی سماج کی گندگیاں صاف کرنے کے لیے خدا کی طرف سے مامور کیے گئے تھے چنانچہ ہر ظلم روا تھا اور ان کا دیا ہوا ہر حکم شریعت کے عین مطابق۔
وہ اور ان کا ساتھ دینے والوں کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ دین کی من پسند تشریح و تعبیر سے ایک وسیع المشرب سماج کو وہ کیسا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان کی بنیادوں میں وہ بارود بچھ رہی ہے جو ہمارے سماج کو پارہ پارہ کردے گی۔ اس واقعے کو 31 برس گزر چکے لیکن روزانہ ہمارے شہروں اور قریوں میں بے گناہ بچے، عورتیں اور نوجوان لقمۂ اجل ہورہے ہیں۔ اپنے پیروں سے چل کر کسی نئی امید کی تلاش میں نکلنے والے لوتھڑوں کی گٹھریاں بن جاتے ہیں۔ ایسی گٹھریاں جن میں سے ان کی مائیں بھی انھیں ڈھونڈ نہیں پاتیں اور عمر اس موہوم امید میں گزار دیتی ہیں کہ شاید ان کے بیٹے دھماکے سے دور کسی اور جگہ ہوں، شاید ان کی یادداشت چلی گئی ہو اور کسی دن وہ لوٹ کر گھر آجائیں۔ لیکن باردو کے پروں پر سفر کرنے والے بھلا کب واپس آتے ہیں۔
میں اسے اپنی خوش نصیبی سمجھتی ہوں کہ پچھلے برس مجھے اس جشن میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور میں پاکستانی عورتوں کی اس جدوجہد کے 30 سالہ جشن میں شریک تھی۔ اس جشن میں یوں تو پاکستان بھر کی عورتیں موجود تھیں لیکن سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس میں وزیرستان، سوات اور دوسرے شورش زدہ علاقو ںکی عورتیں بھی شریک تھیں۔ ان کی روح اور بدن پر ایک ایسی جنگ کے زخم تھے جو ہم پر ہمارے نااہل اورناعاقبت اندیش حکمرانوں نے مسلط کردی تھی۔ ان عورتوں نے ہمیں اپنی برادری اور اپنے آپ پر ہونیوالے ستم کی داستان سنائی تھی۔ اس روز لاہور کی اسی مال روڈ پر جس پر ہماری عورتوں اور جالب صاحب کا خون 1983 ء میں گرا تھا، اسی سڑک پر لگ بھگ 100 عورتیں ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتی ہوئی چل رہی تھیں۔ یہ عورتوں کی جدوجہد کی بسنت تھی۔ اس بسنت کے رنگ ہر برس گہرے ہوتے جائینگے۔
یہ ایک پرانی حقیقت ہے کہ جنگ کا سب سے بڑا صدمہ عورت جھیلتی ہے۔ وہ اس فضا سے محروم ہوجاتی ہے جس میں وہ چین آرام سے اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتی ہے بچوں کی پرورش کرتی ہے جنگ اُسے در بہ در کردیتی ہے ماں، باپ، بھائی بہن، شوہر،بیٹیاں، بیٹے، سکھی سہیلیاں، بھانجے بھتیجے، قریبی رشتوں سے محروم ہوتی ہے اور اب ایک بار پھر ظالمانہ و سفاکانہ جنگ ہمارے سروں پر تلی ہوئی ہے۔ اس مرتبہ دوست اور دشمن کے چہرے لباس، نعرے اور دعوی ایک جیسے ہیں یہ بہت مشکل جنگ ہے۔ شورش زدہ علاقوں سے وہ کہاں دھکیلی جائے گی ؟ ٹرالروں میں بیٹیوں، بیٹوں، طوطے کے پنجرے اور میمنے کی حیران آنکھوں کو دیکھتی ہوئی وہ کہاں تک جائے گی ؟ اسے کچھ نہیں معلوم۔ مسجدیں اور امام بارگاہیں محفوظ نہیں دربار اور آستانوں میں نفرتیں اور ہلاکتیں پھیرا ڈالتی ہیں۔
اس جنگ کے ایک نہیں کئی محاذ ہیں جن پر کامیابیوں کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خلاف فیصلہ کن اقدامات جو بروئے کار لائے جارہے ہیں ان کی اہمیت اور افادیت یقینا اہم ہے تاہم، پائیدار کامیابی کے لیے اس سوچ کو فروغ دینا ہوگا کہ تنوع میں ہی ہم سب کی بقا مضمر ہے۔ معاشرتی و سماجی تنوع اور رنگا رنگی کو ختم کر کے کوئی اپنی سوچ سب پر مسلط کرنے کی کوشش نہ کرے کیونکہ ایسا ہونا عملاً ممکن نہیں۔ تنوع کے احترام پر مبنی اس سوچ اور فکر کا فروغ صرف ایک جمہوری نظام میں ممکن ہے کیونکہ یہ نظام کسی بھی ریاست میں بسنے والے ہر طبقے، گروہ اور ملک کی نمائندگی اور بنیادی انسانی آزادیوں کی ضمانت فراہم کرتا ہے، سب شہریوں کو بلا امتیاز مساوی حقوق دیتا ہے اور ہتھیار کی نہیں دلیل کی طاقت کو تسلیم کرتا ہے۔ پاکستان میںہتھیار اور دلیل کے درمیان ایک جنگ جاری ہے۔ اس جنگ میں ہمیں دلیل کی فتح کو یقینی بنانا ہوگا۔ آج ہم جن آفتوں میں گھرے ہوئے ہیں وہ عارضی ہیں۔ان آفتوں کے باوجود یہ بہار کا موسم ہے، ایک ایسی بہار کا جس میں سرسوں کے زرد پھولوں کے ساتھ لالے کے لہو پھول ہیں۔ عورتوں اور مردوں کی مشترک جدوجہد کا راستہ طویل ہے، یہ جنگ کے خار زاروں سے گزر کر امن کے مرغزاروں تک جاتا ہے اور وہی ہم سب کی منزل ہے۔