عازمین حج کے لیے سہولت

غریب و متوسط طبقے کے لیے فریضہ حج کی ادائیگی تقریباً ناممکن ہوکر رہ گئی ہے۔

advo786@yahoo.com

ایک خوش کن خبر ہے کہ حکومت نے فریضہ حج کی ادائیگی کے خواہش مند غریب شہریوں کی سہولت کے لیے حج کی ادائیگی کے لیے بحری سروس شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم کی منظوری کے بعد اس سروس کا آغاز آیندہ حج ایام سے ہوگا۔ وزیر پورٹس و شپنگ نے بتایا ہے کہ حج پر ساڑھے تین لاکھ کے قریب اخراجات آتے ہیں جس کی وجہ سے غریب آدمی کے لیے حج کا فریضہ انجام دینا بڑا مشکل کام ہے۔ اس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے سستے حج کا منصوبہ بنایا ہے، اس سلسلے میں یورپ سے تیز رفتار بحری جہاز حاصل کیے جا رہے ہیں جن کے ذریعے حاجیوں کو 6 دنوں کے اندر سعودی عرب پہنچایا جائے گا، انھیں کھانے پینے کی سہولیات بھی فراہم کی جائے گی، اس کے علاوہ تاجر برادری کے اشتراک سے جہازوں میں تجارتی سامان بھی ساتھ لے جایا جائے گا۔ اس سلسلے میں کسٹم اور امیگریشن کے معاملات پر بھی بات چیت چل رہی ہے، اس کے علاوہ اگلے مرحلے میں بلوچستان کے راستے ایران جانے والے زائرین کو بھی بحری راستے سے ایران بھیجا جائے گا۔ حکومت کی یہ کوششیں بلاشبہ لائق تحسین ہیں۔

حج و عمرہ کی ادائیگی ہر مسلمان کی جستجو و تمنا ہوتی ہے۔ غریب سے غریب مسلمان بھی کم معاشی وسائل ہونے کے باوجود بھی اپنا پیٹ کاٹ کر بنیادی ضروریات کو نظر انداز اور بہت سے فرائض کو موخر کرکے فریضہ حج کی ادائیگی کی کوششیں کرتا ہے لیکن آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی اور کاروباری نقطہ نظر سے حج وعمرہ کے روز افزوں اخراجات ، ہیرا پھیری، لوٹ مار اور کرپشن کی وجہ سے اس کا متحمل نہیں ہو پاتا۔ غریب و متوسط طبقے کے لیے فریضہ حج کی ادائیگی تقریباً ناممکن ہوکر رہ گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے بحری سفری سہولت کی وجہ سے حج کرایوں میں تین چوتھائی کے قریب کمی واقع ہوگی کیونکہ اس منصوبے کے تحت بحری کرایے کی شرح 25 سے 30 ہزار روپے رکھی گئی ہے جس کی وجہ سے غریب متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو بڑی سہولت میسر آجائے گی۔

عازمین حج کے لیے حکومت پاکستان نے ابتدا میں غیر منافع بخش بنیادوں پر حج پالیسی متعارف کروائی تھی جس میں وقتاً فوقتاً بہتری لانے کی کوششیں بھی کی جاتی رہیں لیکن وزارت مذہبی امور میں نااہل، بددیانت اور خوف خدا سے بے بہرہ افراد کی تعیناتی اور سیاسی مداخلت و مفادات کی وجہ سے اس کی کارکردگی خراب سے خراب تر ہوتی گئی اور مسائل، مصائب اور شکایتوں میں اضافہ ہوتا گیا، ان خرابیوں، کوتاہیوں اور شکایات کا ازالہ کرنے کے بجائے حکومت نے پرائیویٹ حج اسکیم کا اجرا کرکے اس عمل میں پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کو شامل کر ڈالا جس کی وجہ سے کسی بہتری کے بجائے مزید خرابیاں رونما ہوئیں اور کرپشن اور ملی بھگت کا سلسلہ وزارت مذہبی امور سے ٹور آپریٹرز تک دراز ہوگیا۔ عازمین حج و عمرہ کی پریشانیوں اور مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔

رہائش، خوراک، سفری سہولیات، معاہدات کی خلاف ورزی کے لاتعداد واقعات سامنے آنے لگے جن پر حکومت نے کوئی توجہ نہ دی تو اس گمبھیر صورت حال پر عدالتوں کو ایکشن لینا پڑا۔ عدالت عظمیٰ کی کارروائیوں کے نتیجے میں وزیر و مشیر وزارت حج و مذہبی امور اور ٹور آپریٹرز جیلوں میں گئے، حجاج کو ان کی اضافی رقوم واپس کروائی گئیں۔ بدعنوانی اور لوٹ مار کو دیکھ کر سعودی حکومت بھی حرکت میں آئی، پاکستانی حکام سے سرکاری سطح پر اس کی شکایت کی گئی اور کافی ٹور آپریٹرز کو بلیک لسٹ کرکے تین سال تک کے لیے نئی رجسٹریشن پر پابندی عائد کردی گئی، مجبوراً حکومت پاکستان نے بھی سیکڑوں ٹور آپریٹرز کے لائسنس منسوخ کیے تھے۔ کم سرمایہ کاری اور کم مالی خطرات کے اس کاروبار میں راتوں رات دولت مند بننے کے خواہش مند عاقبت نااندیش عناصر کو حکومتی حلقوں کی آشیرباد اور پشت پناہی بھی حاصل ہے جو ایک منظم مافیا کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔


ہمارے ملک میں ایک تو وہ طبقہ ہے جو دیگر مذہبی فرائض کی ادائیگی کے بعد فریضہ حج و عمرہ کی ادائیگی کی تڑپ و جستجو میں لگا رہتا ہے اور بمشکل ہی اس کا متحمل ہوتا ہے، دوسری جانب ارباب اقتدار و اختیار اور مراعات یافتہ طبقہ ہے جس نے ان مذہبی عبادات کو سیاسی و سماجی رسم کی حیثیت دے ڈالی ہے۔ سیاست دانوں کے لیے یہ فریضہ سیاسی حالات سے وقتی فرار حاصل کرنے، سیاسی جوڑ توڑ، ڈیل اور رابطوں کا بہترین ذریعہ بن چکا ہے۔ خوشنودی، پذیرائی کے لیے رشوت کے طور پر سیاسی حلیفوں اور کارکنوں کو سرکاری خرچ پر حج و عمرہ پر بھیجنے کا رجحان جڑیں پکڑ چکا ہے۔ پرائیویٹ ٹور آپریٹرز مختلف قسم کے پرتعیش اور مختصر دورانیے کے ایسے حج و عمرہ پیکیج بھی متعارف کرائے جاتے ہیں جن کے اخراجات 20 لاکھ فی کس بتائے جاتے ہیں۔ حالانکہ حج کی اصل روح، تربیت اور فلسفہ یہ ہے کہ ایک مسلمان کفن کی صورت حج کا احرام باندھ کر گھر سے نکلتا ہے، اپنے پیاروں کو زندگی کے تمام معاملات کو چھوڑ کر سفر کی مشقتیں برداشت کرتا، اﷲ کے حضور پیش قدمی کرتا ہے، عرفات میں حشر کے میدان کی طرح اﷲ کے حضور پیش ہوتا ہے، مزدلفہ میں رات کھلے آسمان تلے بسر کرتا ہے جہاں نہ کوئی ادنیٰ ہوتا ہے نہ اعلیٰ، نہ امیر نہ غریب، نہ حاکم نہ محکوم، سب کے پیر و سر ننگے ہوتے ہیں، ایک جیسا لباس ہوتا ہے، ہر کوئی اپنی مشقتیں خود برداشت کرتا ہے بلکہ حکم ہے کہ حج کی مشقتیں و صعوبتیں بیان نہ کی جائیں۔

حج کی ادائیگی کے دوران حجاج کے کپڑوں اور اجسام پر جمع ہونیوالے گرد و غبار اور میل کچیل پر اﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں فخر کرتا ہے اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہوسکتی ہے۔ یہ تعلیمات عام مسلمانوں کے علم میں ہوتی ہیں، کاش ہم ان پر غور اور عمل کرکے حج و عمرہ جیسی عبادات کی اصل روح کو برقرار رکھ سکیں۔ دنیا کے بہت سے اسلامی بلکہ بعض غیر اسلامی ممالک میں بھی عازمین حج کو اس فریضے کی ادائیگی میں سرکاری سطح پر بہت سی رعایت و مراعات فراہم کی جاتی ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے عازمین حج کے لیے بحری جہازوں کے ذریعے سفری سہولت کی فراہمی بھی ایک مستحسن اور قابل تعریف اقدام ہے۔ حکومت کو اس سہولت کے اجرا سے قبل اس قسم کے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے اس سہولت کا فائدہ غریب و متوسط طبقے کو پہنچے مثلاً یہ کہ اگر کسی نے پہلے فریضہ حج ادا کیا ہوا ہو تو اس کو یہ سہولت فراہم نہ کی جائے، سہولت سے استفادہ حاصل کرنیوالے سے اقرار نامہ لیا جائے کہ وہ ہوائی سفر کے اخراجات کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔

اس بحری سفر میں سامان اور اس کے وزن کی بھی ایک متوازن حد مقرر کی جائے تاکہ کاروباری ذہنیت کے لوگ اس کا غلط استعمال نہ کرسکیں اور سب سے زیادہ اس کی سیکیورٹی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ بحری جہاز تک ممنوع اشیا اور منشیات وغیرہ کا پہنچانا نسبتاً آسان ہے، خاص طور پر ایک ہفتے پر محیط اس بحری سفر کے دوران کسی سادہ لوح یا بزرگ حاجی کے سامان میں رد و بدل یا کچھ شامل کردینا کوئی بڑی بات نہیں ہے کیونکہ زاد حج کی اشیا میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ چند سال پیشتر کراچی کے عازمین عمرہ کے دو خاندانوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جن کی چپلوں میں ٹور آپریٹرز کے کارندوں نے ہیروئن چھپا رکھی تھی، اگر جامعہ بنوری کے مہتمم سعودی فرماں روا تک رسائی اور سینیٹ اور قومی اسمبلی اپنے اجلاس میں اس مسئلے پر آواز بلند نہ کرتیں تو ان کی گردن زنی ہوچکی ہوتی۔

حکومت کو وزارت مذہبی امور کے معاملات کا ازسر نو اور سنجیدگی سے جائزہ لے کر اس کو نااہل، بددیانت افراد سے پاک کرکے سیاست اور مفادات سے بالاتر ہوکر اچھی شہرت کے حامل دین کی سوجھ بوجھ اور خوف خدا رکھنے والے افراد کو تعینات کرنا چاہیے۔ عام کرایوں اور حج و عمرہ کے کرایوں کے فرق اور ٹیکس ختم کرکے رعایتی نرخ مقرر کرنے چاہئیں، ٹور آپریٹرز کی رجسٹریشن کی سخت شرائط اور معیار مقرر کرکے صرف ایسے آپریٹرز کو خدمات کی ذمے داری سونپنی چاہیے جو اسے محض کاروبار نہیں بلکہ دینی فریضہ سمجھ کر سرانجام دیں۔ بلیک لسٹ ہونے والا شخص یا ادارہ کسی دوسرے نام سے یہ کام دوبارہ نہ حاصل کرسکے۔ کوٹے کی تقسیم دیانتدارانہ ہونی چاہیے، پرائیویٹ ٹور آپریٹرز اور عازمین کے درمیان ایک تحریری معاہدے کا جامع متن تیار کرکے حکومت کو اس کے ضامن کے طور پر دستخط کرکے اس پر عمل کو یقینی بنانا چاہیے، حکومت کے شکایتی سیل کو فعال متحرک اور ہر قسم کے دباؤ سے آزاد کرکے اس کی کارکردگی کو مانیٹر کیا جانا چاہیے، ایسی ریگولیٹری باڈی بھی بنانی چاہیے جو معاہدے کے خلاف ورزی کی صورت میں متعلقہ ٹور آپریٹرز کا لائسنس منسوخ اور سیکیورٹی ضبط کرنے کا اختیار رکھتی ہو۔
Load Next Story