ورثے میں کیا چھوڑیں گے
بے شک پائیدار امن کی ضمانت میدان جنگ میں نہیں بلکہ مذاکرات کی میز پر حاصل ہوتی ہے۔
بے شک پائیدار امن کی ضمانت میدان جنگ میں نہیں بلکہ مذاکرات کی میز پر حاصل ہوتی ہے۔ لیکن طاقت کے فیصلے کے لیے پہلے جنگ بھی ضروری ہے۔ کیونکہ اگر کسی فریق کو زعم ہے کہ وہ جنگ سے سب کچھ حاصل کرسکتا ہے تو وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ''کچھ دو اور کچھ لو'' پر کیوں راضی ہو گا؟ علاوہ ازیں اگر جنگ ہی نہ ہو تو پھر کیا امن، کون سے مذاکرات، کیسی میز؟ آج کے پیش منظر کی وضاحت کے لیے اس کے پس منظر پر ایک سرسری نظر۔روس افغانستان کی کامیاب جنگ کے اختتام پر غیر ملکی مجاہدین کی اکثریت افغان بارڈر کے متصل پشتو قبائلی پٹی میں بس گئے۔ قبائلیوں نے بھی ان کو سر آنکھوں پر بٹھایا۔ ایک تو مہمان نوازی کی پختون روایت کے تحت اور دوسرے روس کے خلاف پختونوں کے شانہ بہ شانہ جہاد کرنے کی وجہ سے۔ بدقسمتی سے امریکا میں 9/11 کا افسوسناک حادثہ پیش آیا۔ جس کے متعلق آج ہنری کسنجر (مشہور زمانہ دانش ور، امریکا ٹاپ کلاس پالیسی ساز مشیر جو خود بھی یہودی ہیں) فرماتے ہیں ''ہر امریکی کو اس بات کا یقین ہے کہ 9/11 کا حادثہ اسرائیل اور اس کے حامیوں کی سازش تھی''۔ لیکن اس وقت حادثے کے فوری بعد اس حادثے کا سارا ملبہ القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن پر ڈال کر افغانستان کی طالبان گورنمنٹ سے ان کو امریکا کے حوالے کرنے کا مطالبہ کردیا۔
انکارکی صورت میں افغانستان پر چڑھائی کردی۔کارپٹ بمباری کرکے تورابورا کو کھنڈر بنادیا اور اس کے بعد افغانستان کو تورا بورا۔اس کے ساتھ ہی پاکستان کو ایک ''ریشمی تڑی'' لگا کر دہشتگردی کی جنگ میں اپنا حلیف بنا لیا۔ اورکل کے غیر ملکی مجاہدین کو آج کے دہشتگرد قرار دے کر پاکستان سے ان کو فلش آؤٹ کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ سرحدی قبائل آڑے آگئے۔ چنانچہ مطلوبہ افراد کو پکڑ کے حوالے کرنے اور ڈرون سے نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا جس میں بے گناہ قبائل بھی نشانہ بننے لگے۔ اس طرح وہاں TTP وجود میں آئی۔ یوں امریکا "Do More" کا ''تھیم سانگ'' الاپنے لگا۔ پاکستان کی ڈالر پرست اشرافیہ بیرون ملک اثاثے بناتی رہی، بیرون ملک مقیم پاکستانی مزدور (جو ووٹ دینے کے بھی اہل نہیں) زرمبادلہ کی ترسیل کے ریکارڈ پر ریکارڈ قائم کرتے رہے۔ یوں معاشی بھنور میں پاکستان ڈوبتا رہا، ابھرتا رہا، ڈبکیاں کھاتا رہا، لیکن زندہ رہا۔ غرق نہیں ہوا۔ لیکن کب تک؟ کراچی پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی میں چک آگئی۔ پاکستان کی چیخیں نکلنے لگیں۔ عوام کے ذہنوں میں شک کے ناگ پھنکارنے لگے۔ ہر فرد چیخنے لگا مذاکرات ہوں یا آپریشن کل نہیں آج، آج نہیں ابھی۔''چڑیا گھر آنیوالے تماش بین ٹھیک پانچ بجے شیر کے پنجرے کے سامنے جمع ہوجاتے تھے۔ کیونکہ وہاں ایک شخص (جس کا نام شیردل تھا) آتا پنجرے کے باہر کھڑا ہوکر ایک K-2 کی سگریٹ پیتا اور پنجرے میں گھس کر شیر سے مقابلہ کرتا اسے پچھاڑ کر واپس باہر آجاتا تھا۔ ایک دن جب اس نے K-2 کی سگریٹ پی کر جوں ہی پنجرے کے اندر قدم رکھا شیر نے اس کو سنبھلنے ہی نہیں دیا وہیں دبوچ لیا۔
دو تین پٹخیاں دیں اور باہر اچھال دیا، پھر اپنی جگہ جاکر بیٹھ گیا۔ جب شیر دل کے ہوش ٹھکانے آئے لوگوں نے حال پوچھا تو جواباً اس نے کہا ''میں تو K-2کی ایک سگریٹ پی کر گیا تھا، مگر لگتا ہے وہ K-2 کا پورا پاکٹ پی کر میرا انتظار کر رہا تھا۔''نئے چیف آف آرمی اسٹاف راحیل شریف کی آمد کے بعد ریاست مخالف عناصر نے حسب معمول ایک فوجی کانوائے کو نشانہ بنایا ۔ جواباً حیرت انگیز پھرتی کے ساتھ خلاف توقع انتہائی سخت ردعمل کا اظہارکیا گیا اور ان کے ٹھکانوں پر بمباری کی گئی جس کے نتیجے میں نہ صرف ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں بلکہ ان کے ذہن کے بند دریچے بھی کھل گئے اور واقعات کو اس کے صحیح تناظر میں دیکھنے لگے۔ مثلاً: انھوں نے پاک فوج کی صلاحیت کا غلط اندازہ لگایا۔9 ستمبر 2014 کو وزیر اعظم میاں نواز شریف نے آل پارٹی کانفرنس بلائی جس نے ان کو طالبان سے مذاکرات کا مینڈیٹ دیا جس میں مذاکرات کی کٹر مخالف پارٹیاں بھی شامل تھیں۔ محترم عرفان صدیقی کی سربراہی میں حکومتی مذاکراتی کمیٹی اور مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں طالبانی مذاکراتی کمیٹی تشکیل پائی۔ مذاکرات (واقعی) خوشگوار ماحول میں شروع ہوئے۔ مطالبات کا تبادلہ ہوا۔ یکایک کراچی میں پولیس کے زیر تربیت کمانڈوز کی بس کو نشانہ بنایا گیا 13 اہلکار جاں بحق ہو گئے۔ مذاکرات کے تسلسل میں خلل واقع ہوا۔ اس کے فوری بعد مہمند ایجنسی کے اغوا شدہ ایف سی کے 23 اہلکاروں کو ذبح کردیا گیا۔ جس کی ذمے داری مہمند ایجنسی کے TTP کے سربراہ نے قبول کی۔ مذاکرات میں ڈیڈ لاک آگیا۔
یاد رہے اس دوران ڈرون حملے مکمل طور پر بند رہے اب بھی بند ہیں۔ رہا شریعت کا سوال تو یہ 1973 کے آئین کی رو سے طے شدہ ہے۔ کیونکہ اس متفقہ آئین پر پاکستان کے تمام محترم بزرگ علمائے کرام کے دستخط ہیں۔ 1973 کے آئین کی رو سے شریعت کے خلاف قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ اگر ہوئی تو شریعت کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اگر شریعت کے نفاذ کے سلسلے میں مزید صراحت و وضاحت درکار ہو تو اسلامی نظریاتی کونسل سے رہنمائی بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔دراصل جنگ آزما افراد کا جذبہ سر آنکھوں پر لیکن ان کا رویہ نادانی کا شاہکار ہے۔ کیا فتح مکہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دشمنوں کو معاف کرنے کے بہانے نہیں ڈھونڈ رہے تھے؟ (2) کیسا ہی دشمن کیوں نہ ہو اپنا اپنا ہی ہوتا ہے۔ جب حکومتی اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات ہوتے تھے تو کیا لوگ بھپتیاں نہیں کستے تھے کہ یوں لگتا ہے طالبان، طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ (3) دنیا نے کبھی ایسے مذاکرات دیکھے نہیں؟ جس کی کامیابی کی دعا اس کے کٹر مخالف بھی کر رہے ہوں۔ مختصراً غلطیاں حکومت نے بھی کی ہوں گی، غلطیاں طالبان نے بھی کی ہوں گی۔ لیکن ایک بات یقینی ہے ہماری آنے والی نسلیں بے قصور ہیں، معصوم ہیں، ہمارے جگر کے ٹکڑے ہیں۔ کیا ان کے لیے ورثے میں تباہی چھوڑ کے جائیں گے؟