ہماری ریاست کی چار کمزوریاں
ہمارے ملک میں جتنے بھی ٹیکس لگ رہے ہیں وہ صرف نوکری پیشہ طبقے پر ٹھونسے جا رہے ہیں
ہماری ریاست کی بہت سی کمزوریاں ہیں جنھیں یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر ہمارے ٹیکس کے نظام میں بہت سی کمزوریاں ہیں جن میں بہتری کی اشد ضرورت ہے۔ایسا ہی کچھ حال ہمارے نظام عدل وانصاف کا ہے۔اس میں بہت سی اصلاحات کی ضرورت ہے ،تیسرا اہم مسئلہ ہمارے ملک کا انتخابی نظام ہے جس میں بہت سی خرابیاں ہیں،چوتھا اور اہم مسئلہ ہماری خارجہ پالیسی ہے جو ابھی بھی اسی پرانی ڈگر پر چل رہی ہے۔ ہمارے ملک میں جتنے بھی ٹیکس لگ رہے ہیں وہ صرف نوکری پیشہ طبقے پر ٹھونسے جا رہے ہیں ۔اس بوسیدہ نظام سے ہمارے جاگیرداروں ،سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کو کافی حد تک ریلیف ملا ہے جس کا انھوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ٹیکس عائد کرنے کا کام ہماری پارلیمنٹ میں موجود لوگ کرتے ہیں۔اگر پارلیمنٹ میں موجود ممبران کا جائزہ لیا جائے تو زیادہ تر تعداد جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی ہے۔ماضی میں پارلیمنٹ کے اندر ن لیگ کے دور حکومت میں سرمایہ داروں،صنعتکاروں کا غلبہ ہوتا تھا،جب کہ پیپلز پارٹی کے دور میں جاگیرداروں اور وڈیروں کی اکثریت تھی لیکن اب اسمبلی میں موجود جاگیردار صنعت کار بھی بن چکے ہیں۔ اسمبلی میں ملازمت پیشہ افراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔اسی وجہ سے جب بھی نیا ٹیکس لگایا جاتا ہے تو اس میں یہی نوکری پیشہ طبقہ پستا ہے۔جہاں تک عدل وانصاف کی بات ہے ہمارے ملک کا نظام عدل بہت کمزور ہے ۔عام شہری کو اپنا حق حاصل کرتے کرتے عمر بیت جاتی ہے ۔لیکن اسے انصاف نہیں ملتا اس کی وجہ بھی اسمبلیوں میں موجود ہمارے نمائندے ہیں۔وہ اتنے طاقتور ہیں کہ انھیں عدالتی انصاف کی ضرورت ہی نہیں۔یہ اپنا حق عدالتوں سے باہر حاصل کرنے کی طاقت و استطاعت رکھتے ہیں۔ عدل وانصاف کی کمزوری کی دوسری وجہ قانون نافذ کرنے والا ادارہ ''پولیس'' ہے۔ہماری پولیس 1947 سے لے کر آج تک عوام سے زیادہ حکمرانوں کی فرماں بردار رہی ہے۔تیسرا سب سے اہم مسئلہ ہمارا انتخابی نظام ہے۔
ہمارے انتخابی نظام میں عام،کمزور اور متوسط طبقے کی کوئی جگہ نہیں کیونکہ اس طبقے کی پاس نہ تو پیسہ اور طاقت ہے اور نہ ہی اثر و رسوخ ۔اس لیے اس کا موجودہ انتخابی نظام کے ذریعے اسمبلی میں پہنچنا ناممکن ہے۔ ہمارے ملک کا چوتھا اہم مسئلہ ہماری خارجہ پالیسی ہے جب تک ہماری جمہوری حکومت کو عوام سپورٹ نہیں کریں گے اس وقت تک ہماری خارجہ پالیسی سیاستدانوں کی بجائے غیر ملکی قوتوں اور دفاعی اداروں کے پاس گروی رہے گی۔ اگر ماضی کی طرف نظر دوڑائیں تو بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی گئی۔ دوتہائی اکثریت لے کر اقتدار میں آنیوالے میاں صاحب کو اٹک جیل میں ڈال دیا گیا۔اس وقت ضروری تھا کہ ہمارے عوام سڑکوں پر نکل کر جمہوری نظام کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے۔ اپنے جمہوری راہنما کو جو دوتہائی مینڈیٹ دیا تھا اس کو سڑکوں پر آکر عملی جامہ پہناتے ۔لیکن اس وقت عوام سوتے رہے۔ آمر اس کا فائدہ اٹھا کر جمہوریت کو نقصان پہنچاتا رہا ۔جس کی وجہ سے ہمارے سیاسی حکمران کمزورسے کمزور ہوتے چلے گئے۔ جمہوریت کو قوت بخشنے کا واحد طریقہ عوام کے باشعور ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے متحرک ہونے پر منحصر ہے۔کسی بھی آمر یا غیر آئینی قوت کی طرف سے آئین شکنی کی صورت میں عوام کثیر تعداد میں سڑکوں پر آجائیں تو کسی بھی آئین شکن کا حوصلہ پست ہوسکتا ہے۔اسی طرح جب ہمارے منتخب شدہ لیڈران کو یقین ہوجائے گا کہ ان کے اقتدار میں رہنے کے پیچھے بیرونی سپورٹ یا کسی ملکی طاقتور طبقے کی آشیر آباد کے بجائے بھرپور عوامی سپورٹ ہے تو صرف اسی صور ت میں ہمارے حکمران خالص عوامی بہبود کے لیے راست اقدام لے سکیں گے۔
ہمارے انتخابی نظام میں عام،کمزور اور متوسط طبقے کی کوئی جگہ نہیں کیونکہ اس طبقے کی پاس نہ تو پیسہ اور طاقت ہے اور نہ ہی اثر و رسوخ ۔اس لیے اس کا موجودہ انتخابی نظام کے ذریعے اسمبلی میں پہنچنا ناممکن ہے۔ ہمارے ملک کا چوتھا اہم مسئلہ ہماری خارجہ پالیسی ہے جب تک ہماری جمہوری حکومت کو عوام سپورٹ نہیں کریں گے اس وقت تک ہماری خارجہ پالیسی سیاستدانوں کی بجائے غیر ملکی قوتوں اور دفاعی اداروں کے پاس گروی رہے گی۔ اگر ماضی کی طرف نظر دوڑائیں تو بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی گئی۔ دوتہائی اکثریت لے کر اقتدار میں آنیوالے میاں صاحب کو اٹک جیل میں ڈال دیا گیا۔اس وقت ضروری تھا کہ ہمارے عوام سڑکوں پر نکل کر جمہوری نظام کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے۔ اپنے جمہوری راہنما کو جو دوتہائی مینڈیٹ دیا تھا اس کو سڑکوں پر آکر عملی جامہ پہناتے ۔لیکن اس وقت عوام سوتے رہے۔ آمر اس کا فائدہ اٹھا کر جمہوریت کو نقصان پہنچاتا رہا ۔جس کی وجہ سے ہمارے سیاسی حکمران کمزورسے کمزور ہوتے چلے گئے۔ جمہوریت کو قوت بخشنے کا واحد طریقہ عوام کے باشعور ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے متحرک ہونے پر منحصر ہے۔کسی بھی آمر یا غیر آئینی قوت کی طرف سے آئین شکنی کی صورت میں عوام کثیر تعداد میں سڑکوں پر آجائیں تو کسی بھی آئین شکن کا حوصلہ پست ہوسکتا ہے۔اسی طرح جب ہمارے منتخب شدہ لیڈران کو یقین ہوجائے گا کہ ان کے اقتدار میں رہنے کے پیچھے بیرونی سپورٹ یا کسی ملکی طاقتور طبقے کی آشیر آباد کے بجائے بھرپور عوامی سپورٹ ہے تو صرف اسی صور ت میں ہمارے حکمران خالص عوامی بہبود کے لیے راست اقدام لے سکیں گے۔