طالبان نے خواتین سے متعلق سخت فیصلے واپس نہ لیے تو انتہائی قدم اُٹھائیں گے امریکا

ہمارے پاس ایسے ٹولز ہیں جن سے طالبان پر دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے، ترجمان وزارت خارجہ


ویب ڈیسک May 10, 2022
امیر طالبان نے خواتین کیلیے عوامی مقامات پر برقع کو لازمی قرار دیا تھا، فوٹو: فائل

امریکا نے خبردار کیا ہے کہ اگر طالبان حکومت افغانستان میں خواتین پر غیر ضروری گھر سے باہر نکلنے، برقع پہننے کی شرط اور لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق اپنے سخت فیصلوں کو واپس نہیں لیتا تو سخت اقدامات پر مجبور ہوں گے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا ہے کہ طالبان سے خواتین کے عوامی مقامات پر برقع پہننے کو لازمی قرار دینے کے حکم کو واپس لینے کے لیے براہ راست بات کی ہے۔

ترجمان نیڈ پرائس نے مزید کہا کہ اگرخواتین سے متعلق سخت فیصلوں کو واپس نہیں لیا جاتا تو امریکا طالبان پر دباؤ بڑھانے کے لیے سخت اقدامات بھی اٹھا سکتا ہے۔ ہمارے پاس بہت سے ایسے ٹولز ہیں جنھیں استعمال کر کے طالبان پر دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ان اقدامات اور ٹولز سے متعلق وضاحت نہیں کی تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا افغانستان میں امدادی کاموں اور فنڈز کی فراہمی کو مشروط کرسکتا ہے۔

ترجمان امریکی وزارت خارجہ کا یہ بیان اُس وقت سامنے آیا ہے جب امیرِ طالبان ملا ہبتہ اللہ اخوندزادہ نے ہفتے کے روز خواتین کو عوامی مقامات پر چہرہ اور سر سے پاؤں تک ڈھانپنے والا برقع پہننے کا حکم دیا ہے۔

یہ خبر پڑھیں : امیرِطالبان نے خواتین کے لیے برقع پہننا لازمی قرار دیدیا

اس حکم سے ایک ماہ قبل ہی امیرِ طالبان کی مداخلت پر ہی لڑکیوں کے سیکنڈری اسکولوں کو کھلنے کے ایک ہی گھنٹے بعد دوبارہ بند کرنے کا حکم جاری کیا گیا تھا جب کہ تاحال خواتین کو ملازمتوں پر واپس سے روک رکھا ہے۔

طالبان کے ان اقدامات کو عالمی قوتیں ماضی کی سخت گیر حکمرانی کی دستخطی پالیسی کی طرف واپسی قرار دے رہے ہیں جب طالبان نے 1996 سے 2001 کے دوران اپنے پہلے دور حکومت میں ایسی ہی سخت پالیسیاں نافذ کی تھیں۔

گزشتہ برس اگست میں جب طالبان نے افغانستان میں اقتدار سنبھالا تھا تو فروری 2019 میں امریکا کے ساتھ کیے گئے امن معاہدے کے تحت عالمی قوتوں کو توقع تھی کہ طالبان دوسرے دور حکومت میں خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا پاس کریں گے۔

طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین سمیت اعلیٰ قیادت بھی لڑکیوں کی تعلیم، خواتین کی ملازمتوں پر واپسی اور اقلیتوں سمیت تمام طبقات کو کابینہ میں جگہ دینے کا وعدہ کرتے آئے ہیں۔

تاہم طالبان کی قیادت کا مؤقف تھا کہ ان اقدامات کے لیے کچھ وقت درکار ہوگا تاکہ تعلیمی اداروں اور ملازمت کی جگہوں پر خواتین کے لیے علیحدہ اور خصوصی انتظامات کیے جا سکیں جو شریعت اور افغان کلچر کے عین مطابق ہو۔

طالبان قیادت کی ان یقین دہانیوں کے بعد امیرِ طالبان کے کی جانب سے جاری کیے گئے دو سخت حکم ناموں کے باعث عالمی قوتوں کی تشویش میں اضافہ ہوگیا ہے اور اس حوالے سے طالبان کی قطر میں قیادت سے بات چیت جاری ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں