گفتگو میں سلیقہ لائیے
صرف گفتگو میں سلیقہ نہ ہونے کی وجہ سے معاملات بگڑتے چلے جاتے ہیں
لاہور:
گفتگو میں مٹھاس ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے بڑے بڑے معاملات باآسانی سلجھ جاتے ہیں۔ عام طور پر معاشرے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ صرف گفتگو میں سلیقہ نہ ہونے کی وجہ سے معاملات بگڑتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ نوبت لڑائی تک پہنچ جاتی ہے۔ جب اس طرح کی لڑائیوں کی وجوہات تلاش کی جائیں، تو اول ملیں گی نہیں اور اگر مل بھی جائیں تو سوچ کر ہنسی آجاتی ہے کہ اتنی سی بات کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی۔
ہوتا یہی ہے کہ کسی نے دورانِ گفتگو کوئی 'طعنہ دے دیا'، 'ذاتیات پر کوئی جملہ کس دیا'، 'ایسا مذاق کرلیا کہ دل آزاری ہوجائے' وغیرہ۔ بظاہر یہ چھوٹی چھوٹی باتیں محسوس ہورہی ہوتی ہیں، جب پوچھا جائے تو یہ کہا جاتا ہے کہ 'طعنہ ہی تو دیا تھا' صرف 'مذاق ہی تو کیا تھا'، لیکن اس ایک جملے کا نقصان جب اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہوتے ہیں (رشتے ناتے ٹوٹ رہے ہوتے ہیں)، تو سِوائے کف افسوس ملنے کے کچھ نہیں ہوتا۔ گفتگو میں سلیقہ کس طرح لایا جائے؟ اس پر چند گزارشات قلم بند کی جاتی ہیں۔
دو افراد جب ملیں تو ابتدا دعائیہ کلمات (greetings) سے کریں۔ دینِ اسلام نے جو طریقہ سکھایا ہے، وہ ہے 'سلام کرنا'۔ سلام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اصل میں ہم اپنے مخاطب پر سلامتی بھیج رہے ہوتے ہیں۔ اب ضروری نہیں کہ وہ بھی آپ پر سلامتی بھیجے لیکن آپ نے اپنا کام کردیا ہے۔ (دین نے ہمیں یہی سکھایا ہے کہ جب کوئی تمھیں دعائیہ کلمات بھیجے تو تم کو بھی اس سے اچھے الفاظ یا کم از کم ویسے ہی الفاظ لوٹا دینے چاہئیں) یاد رکھیے! 'مؤذن ہر نماز سے پہلے اذان دیتا ہے ،بنا امید لگائے کہ کون مسجد آئے گا کون نہیں، کون نماز پڑھے گا کون نہیں' تو آپ بھی بنا امید لگائے کہ کون سلام کا جواب دے رہا ہے کون نہیں، آپ سلام کرنے کی اپنی عادت بنالیجیے۔
اب رسمی علیک سلیک کے بعد سلسلہ بات چیت کا شروع ہوتا ہے۔ گفتگو میں اچھے الفاظ کا چناؤ کیجیے۔ دین نے ہمیں یہ بتایا کہ 'لوگوں سے احسن طریقےسے بات کرو' (البقرۃ : 83)
احسن طریقہ کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ گفتگو میں اپنے مخاطب کی عزت پر کوئی حرف نہ آئے، دل آزاری والے الفاظ سے گریز کیجیے، اس کے مقابلے میں ان الفاظ کا انتخاب کیجیے کہ جن سے زندگی کو تسکین حاصل ہو۔ ساتھ ہی ساتھ ہونٹوں پر تبسم ہو، پررونق انداز میں گفتگو آپ کے مخاطب کو آپ کے مخالف ہونے نہیں دے گی۔
عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے لوگ دورانِ گفتگو لمبی لمبی تقریریں کررہے ہوتے ہیں، لیکن جب سننے کا موقع آتا ہے تو بولنے نہیں دیتے، درمیان سے بات اچک لیتے ہیں، یا بیزار ہوجاتے ہیں۔ یہ سوچیے کہ جب آپ بول رہے تھے تو اس وقت بھی تو لوگ سن رہے تھے، اب ان کا وقت آیا ہے تو انھیں بھی بولنے کا موقع دیجیے، صبر کیجیے اور بردباری کا مظاہرہ کیجیے، یہاں تک کہ وہ اپنی بات مکمل کرلے۔
ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے (دعائیہ کلمات بھی ادا ہوگئے، اندازِ گفتگو بھی ہوگیا اور بولنے کا موقع بھی دے دیا) آگے چلیے تو گفتگو میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ آپ کو اپنی بات میں وزن ڈالنا ضروری ہوجاتا ہے۔ وزن کیسے ڈالا جائے؟ اس کےلیے آپ کے پاس 'دلیل' ہونی چاہیے۔ یعنی اب آپ کو دلائل سے اپنی بات کو ثابت کرنا ہے۔ اٹکل بچو کہنے سے بات نہیں بنے گی۔ عموماً ہمارے یہاں یہی ہوتا ہے کہ پتھر کا جواب ایک ایسی اینٹ سے دیا جاتا ہے جو بظاہر بہت مضبوط لگ رہی ہوتی ہے لیکن اس کی بنیاد انتہائی کم زور ہوتی ہے (یعنی بے دلیل)۔ یہ دلائل اسی وقت دیے جاسکتے ہیں جب آپ کے پاس اپنی بات کا کوئی پختہ ثبوت ہو۔
ایک طرف آپ دلائل پہ دلائل دیے جارہے ہیں، لیکن دوسری طرف آپ کا مخاطب آپ کے سامنے سوائے چیخ و پکار کے کچھ نہیں کررہا۔ ایسے موقع پر آپ کو کیا کرنا چاہیے؟ دین ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ وقت ضائع نہ کیجیے بلکہ اب آپ 'سلام ' (الفرقان:63) کرتے ہوئے اپنا راستہ لیجیے۔ کیوں کہ اب جو گفتگو ہوگی وہ سوائے بدزبانی اور بداخلاقی کے سوا کچھ نہیں ہوگی۔
ساتھ ہی ساتھ یہ بھی نہ کیجیے کہ 'اب میں دوبارہ بات نہیں کروں گا'، کیوں کہ اس کے پاس دلیل نہیں ہوتی، بلکہ آپ کا رویہ ایسا ہونا چاہیے کہ جب آپ کی ملاقات اس شخص سے دوبارہ ہو تو آپ وہی طریقہ اپنائیے (سلام، اندازِ گفتگو میں شائستگی، بولنے کا موقع، دلائل)، تاکہ اسے اپنی غلطی سدھارنے (امید رکھی جاسکتی ہے) کا دوبارہ موقع مل جائے گا اور اس کے ساتھ وہ آپ کے بارے میں مثبت رائے بھی رکھے گا۔
ذرا غور کیجیے، جب آپ کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے آپ کے اخلاق کے بارے میں ہی بات کی جاتی ہے، پھر دوسرے معاملات پر گفت و شنید کی جاتی ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی میں صرف گفتگو کے ذریعے مذکورہ تمام عناصر لے کر آئیں تو ان مثبت اخلاقی رویوں کی بنا پر اُس عمرانی معاشرے کو جنم دیں گے جس میں سب ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
گفتگو میں مٹھاس ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے بڑے بڑے معاملات باآسانی سلجھ جاتے ہیں۔ عام طور پر معاشرے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ صرف گفتگو میں سلیقہ نہ ہونے کی وجہ سے معاملات بگڑتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ نوبت لڑائی تک پہنچ جاتی ہے۔ جب اس طرح کی لڑائیوں کی وجوہات تلاش کی جائیں، تو اول ملیں گی نہیں اور اگر مل بھی جائیں تو سوچ کر ہنسی آجاتی ہے کہ اتنی سی بات کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی۔
ہوتا یہی ہے کہ کسی نے دورانِ گفتگو کوئی 'طعنہ دے دیا'، 'ذاتیات پر کوئی جملہ کس دیا'، 'ایسا مذاق کرلیا کہ دل آزاری ہوجائے' وغیرہ۔ بظاہر یہ چھوٹی چھوٹی باتیں محسوس ہورہی ہوتی ہیں، جب پوچھا جائے تو یہ کہا جاتا ہے کہ 'طعنہ ہی تو دیا تھا' صرف 'مذاق ہی تو کیا تھا'، لیکن اس ایک جملے کا نقصان جب اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہوتے ہیں (رشتے ناتے ٹوٹ رہے ہوتے ہیں)، تو سِوائے کف افسوس ملنے کے کچھ نہیں ہوتا۔ گفتگو میں سلیقہ کس طرح لایا جائے؟ اس پر چند گزارشات قلم بند کی جاتی ہیں۔
ملتے وقت دعائیہ کلمات ادا کیجیے
دو افراد جب ملیں تو ابتدا دعائیہ کلمات (greetings) سے کریں۔ دینِ اسلام نے جو طریقہ سکھایا ہے، وہ ہے 'سلام کرنا'۔ سلام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اصل میں ہم اپنے مخاطب پر سلامتی بھیج رہے ہوتے ہیں۔ اب ضروری نہیں کہ وہ بھی آپ پر سلامتی بھیجے لیکن آپ نے اپنا کام کردیا ہے۔ (دین نے ہمیں یہی سکھایا ہے کہ جب کوئی تمھیں دعائیہ کلمات بھیجے تو تم کو بھی اس سے اچھے الفاظ یا کم از کم ویسے ہی الفاظ لوٹا دینے چاہئیں) یاد رکھیے! 'مؤذن ہر نماز سے پہلے اذان دیتا ہے ،بنا امید لگائے کہ کون مسجد آئے گا کون نہیں، کون نماز پڑھے گا کون نہیں' تو آپ بھی بنا امید لگائے کہ کون سلام کا جواب دے رہا ہے کون نہیں، آپ سلام کرنے کی اپنی عادت بنالیجیے۔
اندازِ گفتگو
اب رسمی علیک سلیک کے بعد سلسلہ بات چیت کا شروع ہوتا ہے۔ گفتگو میں اچھے الفاظ کا چناؤ کیجیے۔ دین نے ہمیں یہ بتایا کہ 'لوگوں سے احسن طریقےسے بات کرو' (البقرۃ : 83)
احسن طریقہ کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ گفتگو میں اپنے مخاطب کی عزت پر کوئی حرف نہ آئے، دل آزاری والے الفاظ سے گریز کیجیے، اس کے مقابلے میں ان الفاظ کا انتخاب کیجیے کہ جن سے زندگی کو تسکین حاصل ہو۔ ساتھ ہی ساتھ ہونٹوں پر تبسم ہو، پررونق انداز میں گفتگو آپ کے مخاطب کو آپ کے مخالف ہونے نہیں دے گی۔
بولنے کا موقع دیجیے
عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے لوگ دورانِ گفتگو لمبی لمبی تقریریں کررہے ہوتے ہیں، لیکن جب سننے کا موقع آتا ہے تو بولنے نہیں دیتے، درمیان سے بات اچک لیتے ہیں، یا بیزار ہوجاتے ہیں۔ یہ سوچیے کہ جب آپ بول رہے تھے تو اس وقت بھی تو لوگ سن رہے تھے، اب ان کا وقت آیا ہے تو انھیں بھی بولنے کا موقع دیجیے، صبر کیجیے اور بردباری کا مظاہرہ کیجیے، یہاں تک کہ وہ اپنی بات مکمل کرلے۔
دلائل سے بات کیجیے
ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے (دعائیہ کلمات بھی ادا ہوگئے، اندازِ گفتگو بھی ہوگیا اور بولنے کا موقع بھی دے دیا) آگے چلیے تو گفتگو میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ آپ کو اپنی بات میں وزن ڈالنا ضروری ہوجاتا ہے۔ وزن کیسے ڈالا جائے؟ اس کےلیے آپ کے پاس 'دلیل' ہونی چاہیے۔ یعنی اب آپ کو دلائل سے اپنی بات کو ثابت کرنا ہے۔ اٹکل بچو کہنے سے بات نہیں بنے گی۔ عموماً ہمارے یہاں یہی ہوتا ہے کہ پتھر کا جواب ایک ایسی اینٹ سے دیا جاتا ہے جو بظاہر بہت مضبوط لگ رہی ہوتی ہے لیکن اس کی بنیاد انتہائی کم زور ہوتی ہے (یعنی بے دلیل)۔ یہ دلائل اسی وقت دیے جاسکتے ہیں جب آپ کے پاس اپنی بات کا کوئی پختہ ثبوت ہو۔
دلائل کا جواب نہ ہونے پر سلامتی کرتے ہوئے اپنا راستہ جدا کرلیجیے
ایک طرف آپ دلائل پہ دلائل دیے جارہے ہیں، لیکن دوسری طرف آپ کا مخاطب آپ کے سامنے سوائے چیخ و پکار کے کچھ نہیں کررہا۔ ایسے موقع پر آپ کو کیا کرنا چاہیے؟ دین ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ وقت ضائع نہ کیجیے بلکہ اب آپ 'سلام ' (الفرقان:63) کرتے ہوئے اپنا راستہ لیجیے۔ کیوں کہ اب جو گفتگو ہوگی وہ سوائے بدزبانی اور بداخلاقی کے سوا کچھ نہیں ہوگی۔
ساتھ ہی ساتھ یہ بھی نہ کیجیے کہ 'اب میں دوبارہ بات نہیں کروں گا'، کیوں کہ اس کے پاس دلیل نہیں ہوتی، بلکہ آپ کا رویہ ایسا ہونا چاہیے کہ جب آپ کی ملاقات اس شخص سے دوبارہ ہو تو آپ وہی طریقہ اپنائیے (سلام، اندازِ گفتگو میں شائستگی، بولنے کا موقع، دلائل)، تاکہ اسے اپنی غلطی سدھارنے (امید رکھی جاسکتی ہے) کا دوبارہ موقع مل جائے گا اور اس کے ساتھ وہ آپ کے بارے میں مثبت رائے بھی رکھے گا۔
ذرا غور کیجیے، جب آپ کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے آپ کے اخلاق کے بارے میں ہی بات کی جاتی ہے، پھر دوسرے معاملات پر گفت و شنید کی جاتی ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی میں صرف گفتگو کے ذریعے مذکورہ تمام عناصر لے کر آئیں تو ان مثبت اخلاقی رویوں کی بنا پر اُس عمرانی معاشرے کو جنم دیں گے جس میں سب ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔