بھوکے الوؤں کو بھگانے کے لیے چمگادڑیں آواز بدلتی ہیں

پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ اپنے شکاری الو کو ڈرانے کے لیے چمگادڑ شہد کی مکھیوں کی صوتی نقالی کرتی ہیں

ایک قسم کی چمگادڑ حملہ آور الوؤں سے بچنےکے لیے ڈنک دار مکھیوں کی آواز خارج کرتی ہے۔ فوٹو: نیوسائنٹسٹ

پہلی مرتبہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ چمگادڑیں حملہ آور الوؤں سے بچنے کے لیے اپنی آواز بدل کر ڈنک دار مکھیوں یا تتّیوں کی بھنبھناہٹ جیسی نقل اتارتی ہیں۔

اگرچہ آواز یا شکل بدل کر دشمن کو ڈرانا یا اس سے بچنے کا ہنر اب تک کیڑے مکوڑوں میں ہی سامنے آیا ہے لیکن پہلی مرتبہ یہ خاصیت کسی ممالئے میں دریافت ہوئی ہے۔

اٹلی میں واقع نیپلس فیڈریکو دوم یونیورسٹی کے سائنسداں ڈینیلو ریوسو نے کئی برس قبل چمگادڑ کی انوکھی بھنبھناہٹ سنی تھی جب وہ پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ جب جب وہ باہر نکلتی مکھیوں جسی آواز نکالتیں۔ اب انہوں نے اس مظہر کا بغور جائزہ لیا ہے۔

انہوں نے چوہے جیسے کان والی ایک مشہور چمکادڑ(مایوٹِس مایوٹِس) کی ریکارڈنگ سنیں جو (شہد کی) مکھیوں اور تتّلیوں جیسی تھیں۔ جب جب چمگادڑ کی آواز کسی الو سے ٹکرا کر واپس آئی تو وہ آواز مکھیوں کے مزید قریب ہوتی چلی گئی۔


اگلے مرحلے میں انہوں نے دو اقسام کے الوؤں کو مختلف آوازیں سنائیں جن کی تعداد 16 کے قریب تھی۔ ان میں سے نصف جانور براہِ راست ماحول میں تھے اور بقیہ آٹھ تجربہ گاہ میں رکھے گئے تھے۔ اسپیکر قریب لاکر ہر الو کو چار مختلف آوازیں سنائی گئیں۔ اول، چمگادڑ کی اصل آواز، دوسری آواز جس میں وہ مکھیوں کی نقل کر رہی تھی، سوم یورپی تتّیئے (ہارنیٹ) کی صدا اور چہارم شہد کی مکھی کی آواز سنائی گئی۔

تینوں اقسام کی بھنبھناہٹ سن کر سارے الو ایک دم پیچھے ہٹ گئے اور جیسے ہی انہوں نے چمگادڑ کی اصل آواز سنی وہ اسپیکر کے قریب آگئے۔

ان میں سے کچھ الوؤں کا ردِ عمل مختلف بھی تھا اور وہ بھنبھناہٹ سن کر بہت زیادہ ڈرے تھے شاید ماضی میں انہیں کسی مکھی یا ڈنک دار کیڑے نے کاٹا ہوگا یا ان کی یادداشت میں ایسا کوئی واقعہ تازہ ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق سے ایک سوال پیدا ہوا کہ جب ایک قسم کی چمگادڑ نے خود کو بچانے کے لیے یہ حربہ سیکھا ہے تو بقیہ اقسام کے چمگادڑوں نے اسے اختیار کیوں نہیں کیا؟ اب ماہرین اس جواب کی کھوج کر رہے ہیں۔
Load Next Story