سابق وزیرِاعظم عمران خان…کچھ ملاقاتیں اور یادیں آخری قسط

کپتان صاحب نے اپنے اور دوسروں کے درمیان زہر کی اینٹوں سے نفرت کی دیوار چُن دی ہے


[email protected]

MILAN: پھر وہ وقت بھی آگیا جب عمران خان صاحب مرکز اور پنجاب میں بھی صاحبِ اقتدار بن گئے۔ نہ جانے کیوں... مگر مجھے یہ توقع ضرور تھی کہ وہ لاہور جا کر اپنی سیاسی اور انتظامی ٹیم کا اجلاس بلائیں گے اور وزیراِعلیٰ اورکابینہ سے دوٹوک انداز میں کہہ دیں گے کہ ''آپ لوگ سرکاری افسروں کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر میں ہر گز مداخلت نہیں کریں گے۔

چیف سیکریٹری اور آئی جی میرٹ پر نیک نام افسروں کو تعینات کریں اور اچھی گورننس کو یقینی بنائیں''مگر پونے چار سال تک ہمارے کان یہ فقرہ سننے کو ترستے رہے۔ انھوں نے پنجاب میں سول سروسز میں سیاسی مداخلت نہ صرف بند نہ کی بلکہ اس کی کھلی چھٹی دے دی۔جس سے پولیس اور انتظامیہ کے کاموں میںمداخلت نقطہ عروج تک پہنچ گئی، جس افسر نے پی ٹی آئی کے نمایندے کے غلط کام کرنے سے انکار کیا،اُس کا دوسرے روز تبادلہ کردیا گیا۔

پولیس کے اعلیٰ افسران کو جرائم کی روک تھام کے بجائے سیاسی مخالفین کو کچلنے کا ٹاسک دیا جاتا رہا۔ ظاہر ہے کہ آئی جی صاحبان کے لیے ''مطلوبہ نتائج'' دینا ممکن نہ تھا لہٰذا اُن کے مسلسل تبادلے کیے جاتے رہے، تعیناتی کا پیمانہ ایمانداری کے بجائے سیاسی وفاداری قرار پایا۔ جب خود عمران خان نے اہم ترین عہدوں پر فائز ایماندار افسروں کو ہٹا کر مشکوک ریپوٹیشن والے افسروں کو تعینات کردیا تو ان کی اصل ترجیحات کھل کر سامنے آگئیں۔

پورے پاکستان کی پولیس کو غیر سیاسی بنانے کے دعوے کرنے والے عمران خان نے نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کے سربراہوں کو بلا کر اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف(سچے یا جھوٹے) مقدمے بنانے اور انھیں گرفتار کرنے کی ہدایات دینی شروع کردیں، بہت سے افسران جو میرے ساتھ رہ چکے تھے جب ایسی باتیں بتاتے تو دل دُکھتا تھا، وہ سول سرونٹس جن کا پی ایم آفس کے ساتھ زیادہ رابطہ رہتا اور جو وزیرِاعظم کی میٹنگوں میں بھی شریک ہوتے تھے۔

صاف لفظوں میں کہنے لگے کہ'' ماضی میں دل خوش کن تقریریں کرنے والا اور قانون کی حکمرانی کی باتیں کرنے والا عمران خان کوئی اور تھا، اب جو وزیراعظم بنا ہے یہ عمران خان بالکل مختلف ہے جوعہدہ قائم رکھنے کے لیے ہر حربہ جائز سمجھتا ہے، اور مخالفین کو دبانے کے لیے سرکاری مشینری کا بے دریغ استعمال کرنا چاہتا ہے۔'' غیر جانبداری، میرٹ اور قانون کی حکمرانی کے الفاظ چار سال تک کپتان کے منہ سے نہ نکل سکے، ان کی حکومت نے عوام کو بدترین گورننس کا تحفہ دیا جس میں ہر محکمہ کرپشن کا گڑھ بن گیا۔

عمران خان صاحب کی اصل سوچ کھل کر سامنے آگئی تو ملک کو ترجیح اَوّل سمجھنے والے بے شمار لوگوں کی طرح میں بھی اُن سے بدظن ہوگیا۔ پونے چار سال خلوص نیت سے کیا گیا کوئی ایک بھی ایسا عمل نظر نہ آیا جس سے بدظنی کی کیفیت کم ہوتی اور کپتان صاحب کے بارے میں حُسنِ ظن پیدا ہوتا۔ بلکہ تواتر کے ساتھ ایسے حقائق سامنے آتے رہے جن سے مایوسی اور بدظنی کا تاثر مستحکم ہوتا گیا۔

انھوں نے مذہبی اصطلاحات کا بے دریغ استعمال کیا مگر اہم ترین وزارتیں نااہل اور اناڑی افراد کے سپرد کردیں، فنڈریزنگ کے لیے بھارت سے ایکٹر یسوں کو بلاتے رہے ۔ ربِّ کائنات نے فرمایا کہ '' کوئی بات سنو تو بغیر تصدیق کے دوسروں تک نہ پہنچاؤ''۔ کسی ثبوت یا شہادت کے بغیر عمران خان صاحب نے جلسوں میں اپنے مخالفین پر (جانتے ہوئے کہ وہ غلط ہیں)چوری اورڈاکے کے بے بنیاد الزام لگائے اور پھر انھیں دھراتے رہے۔

تین سو ارب کی چوری کا ذکراس قدر تواتر کے ساتھ کیاکہ معصوم نوجوان واقعی یہ سمجھنے لگے کہ وزیراعظم بن کر میاں نوازشریف نوٹوں سے بھرے ہوئے خزانے کا دروازہ کھول کر وہاں سے تین سو ارب روپے بوریوں میں بھر کر ٹرکوں کے ذریعے ملک سے باہر لے گئے ہیں۔

خزانے سے کسی قسم کی چوری کا کوئی وجود نہیں تھا مگر عمران خان نے پورے اعتماد کے ساتھ مسلسل جھوٹ بول کر نوجوانوں اور اوورسیز پاکستانیوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھادی کہ اپوزیشن کے قائدین چور ہیں۔ مہذب ملکوں میںاعلانیہ دروغ گوئی پر صدر اور وزرائے اعظم اپنے عہدوں سے محروم ہوجاتے ہیں، مگر کپتان صاحب نے دروغ گوئی کو اپنی فطرتِ ثانیہ بنا لیا،کپتان کی شخصیت کے اس پہلو نے اُن سے مزید بدظن کیا۔

خالقِ کائنات نے قرآن میں حکم دیا ہے کہا 'کسی کو برے القاب سے مت پکارو' مگر کپتان صاحب جلسوں میں اس قرآنی حکم کی خلاف ورزی کرتے رہے اور جب انھوں نے لندن میئر کے الیکشن میں ایک مسلمان اور پاکستانی صادق محمد کے مقابلے میں پاکستان کے خلاف تقریریں کرنے والے یہودی کو سپورٹ کیا اور اس کے بعد ایک دو چیز اور ہوئیں تو راقم نے فیصلہ کر لیا کہ اب ایک مخلص پاکستانی کی حیثیّت سے یہ فرض بن جاتا ہے کہ عمران خان کے اصل عزائم کو بے نقاب کیا جائے۔

حق گوئی، برداشت، مالی اور اخلاقی دیانتداری، خوش اخلاقی، فراخدلی، وقار، ایثار اور وسیع الظرفی ایک اچھے لیڈر کے لازمی اوصاف سمجھے جاتے ہیں، کپتان کوقریب سے جاننے والے تصدیق کرتے ہیں کہ ان میں سے کسی خوبی کی جھلک کپتان صاحب میں نظر نہیں آتی، اس نے بداخلاقی اور بدتہذیبی کے انجکشن لگا کر معاشرے کو تباہ کردیا ہے۔

کرپشن کا خاتمہ کپتان صاحب کا سب سے بڑا نعرہ تھا، مگر احتساب کی تلوار نکلی تو وہ انتقام کے زہر میں بجھی ہوئی تھی جس سے تمام بڑے سیاسی مخالفین کے سر قلم کرنے کی کوشش کی گئی۔کرپشن میں ملوث ہونے پر اپنے قریبی ساتھیوں کو جس طرح عمران خان نے تحفظ دیا اور ان کی سرپرستی کی، آج تک کوئی وزیرِاعظم نہیں کرسکا۔ فرح گوگی اور بُزدار کی ماردھاڑ سے نہ صرف چشم پوشی کی بلکہ اس کی حوصلہ افزائی فرمائی۔

بی آرٹی ہو، مالم جبہ ہو یا فارن فنڈنگ کیس، جب بھی احتساب کے ہاتھ اپنے گریبان تک پہنچے توکپتان صاحب نے عُذر ڈھونڈے،حیلے تلاش کیے، تلاشی سے انکار کیا اور امتناعی احکام اور تاخیری حربوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی۔ وزیروں اور مشیروں کے اربوں کے اسکینڈل نکلے مگر کسی ایک کو بھی قانون کے حوالے نہ کیا اور نہ ہونے دیا۔

اس سے کپتان کا مسٹرکلین ہونے کا امیج بری طرح مسخ ہوگیا، ہم اچھی طرح سمجھ گئے کہ اگر انھیں کرپشن سے نفرت ہوتی تو مشکوک افراد کے بجائے حامد خان، جسٹس وجیہہ الدین اور اکبر ایس بابر جیسے صاف ستھرے اور باکردار لوگ ان کی کچن کیبنٹ کا حصہ ہوتے۔ لیڈر اپنے قریب ترین دوستوں سے پہچانا جاتا ہے، اسی سے اس کی پسندوناپسند کا اندازہ ہوتا ہے، کپتان کے قریب ترین دوستوں کو دیکھ کر بھی کچھ سمجھدار حمایتی پیچھے ہٹ گئے۔

اگر کسی شخص کی محبت اور عقیدت آپ کو اندھا اور بہرا کردے، اس کی ہر بات آپ کے لیے حرفِ آخر ہو، اس کے قول اور فعل میں آپ کو کوئی خامی نظر نہ آئے تو ایسی شحصیّت پرستی، انتشار اور انارکی کو جنم دیتی ہے۔

عمران خان کے پیروکار بدقسمتی سے اب اسی طرز کی شخصیت پرستی یاCult کا شکار ہو چکے ہیں، یہ وہ فصل ہے جس کی نشوونما، بدزبانی، دشنام اور الزام کے پانی اور نفرت کی کھاد سے کی گئی ہے۔ کانٹوں کی یہ فصل قوم کو زخم تو لگاسکتی ہے، جسدِملت پر لگے ہوئے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتی، ہٹلر کی نازی پارٹی کی طرح کپتان نے اس گروہ کو ایک destructive force بنادیا ہے جو قوم کو فاش ازم کی دلدل میں اُتار سکتاہے، انار کی کے اندھیروں کے سپرد کر سکتا ہے مگر ملک کی تعمیروترقی اور امن اور خوشحالی میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کرسکتا۔ اسی لیے ملک کا درد رکھنے والے دانشور اب اسے فتنے کا نام دے رہے ہیں۔

اسپورٹس مین اسپرٹ کا وصف کھلاڑیوں سے منسوب کیا جاتا ہے حالانکہ ان کی اکثریت اس خوبی سے محروم ہوتی ہے۔ لگتا ہے کپتان صاحب بھی اسی اکثریت کا جزو ہے ، ان کی نشوونما گراؤنڈوں اور گلیمر کی دنیا میں ہوئی ہے اس لیے انھوں نے نہ آئین کا احترام کرنا سیکھا ہے نہ آئینی اداروں کا!۔ عدالت نے حق میں فیصلہ نہ دیا تو عدلیہ پر کیچڑ اچھالنا شروع کردیا، اپنے ہی نامزد کردہ الیکشن کمشنر نے خواہش کی تکمیل نہ کی تو اسے مخالفین کا پٹھو قرار دے دیا۔

اقتدار کے آخری مہینے میں تو انھوں نے اپنے بے وقار اور disgraceful طرزِعمل سے اپنے پڑھے لکھے سپورٹرز کو بھی حیران کر دیا۔ خیال تھا کہ جب اتحادی انھیں چھوڑ گئے اور وہ اکثریت سے محروم ہوگئے، تو باوقار طریقے سے مستعفیٰ ہوجائیں گے۔ یورپ(جس کی وہ جا وبے جا مثالیں دیتے رہتے ہیں) میں سیکڑوں مرتبہ وزرائے اعظم مستعفی ہوئے ہیں۔ مگر عمران خان صاحب تو اکثریت کھونے کے باوجود کرسی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے، اس کے لیے وہ خود بھی آئین کو پامال کرتے رہے اور اپنے آئینی عہدیداروں سے بھی آئین شکنی کراتے رہے۔

حبِ جاہ ایسی غالب آئی کہ وہ اقتدار کی کرسی سے چمٹ ہی گئے، بڑی مشکل سے انھیں گھسیٹ کر کرسی سے علیحدہ کیا گیا۔ کپتان صاحب نے اپنے اور دوسروں کے درمیان زہر کی اینٹوں سے نفرت کی دیوار چُن دی ہے۔ کیا ملک و قوم کا درد رکھنے والے کچھ لوگ اس دیوار کو مسمار کرنے کے لیے آگے آئیں گے؟ ملک کی'' آزادی'' اور ''سازش'' پر اگلی نشست میں بات ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔