سری لنکا کا معاشی بحران
مشتعل مظاہرین نے مستعفی وزیراعظم کا گھر نذر آتش کردیا
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق سری لنکا میں جاری پرتشدد ہنگاموں میں 5 افراد ہلاک اور190 زخمی ہوگئے ہیں۔ مشتعل مظاہرین نے مستعفی وزیراعظم کا گھر نذر آتش کردیا ، ہنگاموں کو روکنے کے لیے ملک بھر میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔
مظاہرین مستعفیٰ وزیراعظم راجا پاکسے کے بھائی اور سری لنکا کے صدر گوتا بایا راجا پاکسے سے بھی استعفیٰ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ان کے دفتر کے باہر ایک ماہ سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں، جب کہ ایک رکن اسمبلی نے مشتعل مظاہرین سے خوفزدہ ہوکر خود کو گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا ہے۔
اس وقت سری لنکا اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ حکومت کے پاس تیل کی درآمد کے لیے غیر ملکی کرنسی کی قلت ہے اور تیل کی کمی کے باعث بجلی کی بھی شدید کمی کا سامنا ہے۔ شہری پٹرول اور ایندھن کے لیے گھنٹوں قطار میں لگنے پر مجبور ہیں۔
حکومت کے خزانے میں ریزرو میں کچھ نہیں ہے۔ یہ نہ تو تیل درآمد کرپا رہا ہے اور نہ ہی دیگر اشیائے ضروریات۔ اس وجہ سے ملک میں بد ترین افراتفری کی صورتحال ہے۔ مہنگائی ہے کہ دہرے ہندسوں میں اڑان بھرتی عام آدمی کی زندگی محال کرتی جا رہی ہے، بجلی کا تعطل ایسا ہے کہ طبیبوں کو اسپتالوں میں ٹارچ جلا کر مریضوں کا علاج کرنا پڑ رہا ہے، وہ بھی ایسے حالات میں کہ بہت سی ادویات جو درآمد ہوتی تھیں، اب دستیاب نہیں۔ پٹرول پمپوں اور گیس اسٹیشنز کے آگے لمبی لمبی قطاریں ہیں، اس آس پر کہ شاید کچھ مل جائے۔
طلبا کے امتحانات ملتوی ہو چکے ہیں اور ہر طرف سراسیمگی سی کیفیت ہے۔ چاول جو سری لنکا کے لوگوں کے کھانے کا بنیادی جزو ہیں، ترانوے فیصد تک مہنگے ہو گئے ہیں۔ سری لنکا کے روپے کی قدر میں شدید ترین کمی ہوچکی ہے اور ملک میں ایک ڈالر تین سو سری لنکن روپے سے اوپر جا چکا ہے۔ لوگ سڑکوں پر ہیں اور صدر سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں۔ سری لنکا کا ایک اور درد سر سات ارب ڈالر سے زائد وہ قرضہ ہے جو اسے اس سال دینا ہے۔
اس میں ایک بلین کے لگ بگ سورن بانڈز sovereign bonds کی ادائیگی بھی شامل ہے جو اسے جولائی میں کرنا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق حکومتی بدانتظامی، ناقابلِ برداشت قرضے اور ٹیکسوں میں کٹوتیوں نے بحران کو مزید سنگین کردیا ہے۔
انٹرنیشنل ریٹنگ ایجنسیوں نے سری لنکا کی عالمی ریٹنگ کم کردی ہے۔ سری لنکن حکومت نے بیرونی قرضوں اور حکومتی بانڈز کی عدم ادائیگی کے باعث دیوالیہ ہونے کا اعلان کردیا ہے اور اب سری لنکا آئی ایم ایف سے 3ارب ڈالر کا 3 سالہ بیل آؤٹ پیکیج حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے لیکن اب بہت دیر ہوچکی ہے، ملک انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے اور حالات سخت تشویشناک ہوچکے ہیں۔
سری لنکا کی معیشت کا سیاحت پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ کورونا وائرس کے باعث سیاحتی سرگرمیاں متاثر ہونے کے باعث گزشتہ دو برس کے دوران سری لنکا کی معیشت کو درپیش مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ معاشی ماہرین کے نزدیک بیرونی قرضوں اور ٹیکس سے متعلق حکومت کے اقدامات سری لنکا کو درپیش تاریخ کے سنگین ترین بحران کے اسباب میں شامل ہیں۔ سری لنکا 2007 سے مسلسل غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جارہا ہے۔
مختلف ادوار میں لیا گیا یہ قرض 11 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ اس قرض میں سے سب زیادہ یعنی36.4 فی صد حصہ حکومت کے بین الاقوامی بانڈ سے حاصل کردہ قرضوں پر مشتمل ہے۔ سری لنکا کے غیر ملکی قرضوں میں 14 فی صد سے زائد ایشیائی ترقیاتی بینک سے لیا گیا ہے ، جو ساڑھے چار ارب سے زائد ہے۔ اس قرض میں جاپان اور چین دونوں کے الگ الگ ساڑھے تین ارب سے زائد بھی واجب الادا ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت اور عالمی بینک، اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضے بھی شامل ہیں۔
سری لنکا کے بحران کی جہاں معاشی و اقتصادی پالیسیاں ہیں ، وہاں سری لنکا کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے حکمرانوں کی من چاہی و من مانی غیر موثر پالیسیاں ہیں۔ سری لنکا پر اس وقت ایک ہی خاندان راجا پکسا کی حکومت ہے۔ پچھلی دو دہائیوں سے راجا پکسے خاندان کے لوگ سری لنکا کی حکومت میں کسی نہ کسی طرح شامل ہیں۔ اس خاندان کی دو بڑی پالیسیوں کو موجودہ بحران سے منسلک کیا جا رہا ہے۔
ایک تو سری لنکا کے صدر نے پچھلے سال قدرتی کاشتکاری کا حکم دیا جس کے تحت ملک میں کیمیائی کھادوں پر پابندی لگا دی گئی، یہ فیصلہ سننے میں تو بہت مسحور کن ہے لیکن اس کی وجہ سے ملک میں خوراک کی کمی ہوگئی۔ دوسرا سری لنکن حکومت نے کئی اشیا پر سے ٹیکس ہٹا دیا، جس کی وجہ سے پچیس فیصد تک حکومتی ریونیو میں کمی آئی۔ حکومت کے دونوں اقدامات بظاہر اچھے ہیں، لیکن ایسی معیشت جو بیشتر درآمدات اور خارجی قرضوں پر چل رہی ہو، اسے ایسے پاپولر فیصلوں سے اجتناب کرنا پڑتا ہے، کیونکہ اسے ہر حال میں اپنے خزانے کو بھرنا ہوتا ہے، تاکہ ملک کا نظام چلتا رہے۔
پچھلے عشرے میں چین نے سری لنکا کو شاہراہوں، بندرگاہوں، ایک ایئرپورٹ کی تعمیر اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کے لیے پانچ ارب ڈالر سے زیادہ کا قرضہ دیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر قرضے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے منصوبوں کے تحت دیے گئے ہیں ، لیکن نقادوں کا کہنا ہے یہ فنڈز ایسے منصوبوں کے لیے دیے گئے جن کی لاگت بہت زیادہ ہے لیکن ان سے آمدن کے امکانات بہت کم تھے۔
اس لیے ان منصوبوں کی وجہ سے سری لنکا کے قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا لیکن ان کی ادائیگی کے لیے مطلوبہ آمدن کے ذرایع پیدا نہیں ہوئے، البتہ چین ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
سری لنکا کی اس وقت کی معاشی بدحالی کی دوسری بڑی وجہ کووڈ ہے۔ ملک میں خاصا ریونیو سیاحت کے باعث آتا تھا اور کورونا کے آنے کے بعد سیاحوں کا ملک میں آنا کم ہوا تو معیشت بیٹھ گئی۔ سری لنکا کے قرضے جی ڈی پی کا 119فیصد ہوگئے تھے اور سری لنکا میں خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کی طرح 502حکومتی اداروں پر بجٹ کا 20فیصد خرچ ہوجاتا تھا۔
ان اداروں میں بھی سیاسی بھرتیاں کی گئیں، سری لنکا بھی 26سال تک تامل ٹائیگرز کی وجہ سے خانہ جنگی اور دہشت گردی کی زد میں رہا۔ سری لنکا کے معاملے میں ماہرین معیشت متفق ہیں کہ اسے فوری طور پر اپنے معاشی انفرا اسٹرکچر میں تبدیلیاں کرنا ہوں گی، اسے اپنی برآمدات بڑھانا ہوں گی اور بیرونی قرضوں پر سے انحصار کم سے کم کرنا ہوگا۔
یہ حالات بالکل ریاست پاکستان کی طرح ہیں جہاں درآمدات برآمدات سے بہت زیادہ ہیں اور اسے ان دونوں کے درمیان فرق کو مٹانے کے لیے اپنے خزانے کو عوام کے ٹیکس اور بیرونی قرضوں سے بھرنا پڑتا ہے۔ یہ بھی کسی قسم کا پاپولر فیصلہ نہیں لے سکتی۔ اس کے لیے بھی ایسا فیصلہ زہر قاتل ہی ثابت ہوگا۔
اسے ہر حال میں خود کو چلانے کے لیے عوام کو معاشی دباؤ میں لانا پڑتا ہے۔ کیونکہ حکومت کمزور ہوتی ہے جو کہ خواص پر دباؤ ڈال نہیں سکتی اس کے پاس واحد حل عوام کو ہی دبانا رہ جاتا ہے۔
ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ کیا ہم بھی وہی غلطیاں تو نہیں کررہے جو غلطیاں سری لنکا سے سرزد ہوئیں؟ پی ٹی آئی حکومت نے اپنے آخری دنوں میں ایمنسٹی اسکیم، پٹرولیم مصنوعات، بجلی کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں کمی تو کردی لیکن ملکی معیشت پر بوجھ مزید بڑھ گیا ہے ، اب آئی ایم ایف نے ان غلط فیصلوں کو واپس لینے کو کہ رہا ہے۔ ہم آج 9 ارب ڈالر کی زرعی اجناس امپورٹ کررہے ہیں جو پہلے ایکسپورٹ کرتے تھے۔
سستی متبادل انرجی کو نظر انداز کرکے ہم 14ارب ڈالر کے فرنس آئل سے مہنگی بجلی پیدا کررہے ہیں جب کہ ہمارے بیرونی قرضے سری لنکا سے دگنے 102ارب ڈالر ہو چکے ہیں، روپے کی قدر میں کمی ہورہی ہے جس سے افراطِ زر یعنی مہنگائی ، میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان کی نئی حکومت کو سری لنکا کی صورتحال سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ نئی پاکستانی حکومت کو اپنی مضبوط اور مستحکم معاشی پالیسیوں کی بنیاد پر ملک کے معاشی بحران سے نکالنا ہوگا۔
مظاہرین مستعفیٰ وزیراعظم راجا پاکسے کے بھائی اور سری لنکا کے صدر گوتا بایا راجا پاکسے سے بھی استعفیٰ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ان کے دفتر کے باہر ایک ماہ سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں، جب کہ ایک رکن اسمبلی نے مشتعل مظاہرین سے خوفزدہ ہوکر خود کو گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا ہے۔
اس وقت سری لنکا اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ حکومت کے پاس تیل کی درآمد کے لیے غیر ملکی کرنسی کی قلت ہے اور تیل کی کمی کے باعث بجلی کی بھی شدید کمی کا سامنا ہے۔ شہری پٹرول اور ایندھن کے لیے گھنٹوں قطار میں لگنے پر مجبور ہیں۔
حکومت کے خزانے میں ریزرو میں کچھ نہیں ہے۔ یہ نہ تو تیل درآمد کرپا رہا ہے اور نہ ہی دیگر اشیائے ضروریات۔ اس وجہ سے ملک میں بد ترین افراتفری کی صورتحال ہے۔ مہنگائی ہے کہ دہرے ہندسوں میں اڑان بھرتی عام آدمی کی زندگی محال کرتی جا رہی ہے، بجلی کا تعطل ایسا ہے کہ طبیبوں کو اسپتالوں میں ٹارچ جلا کر مریضوں کا علاج کرنا پڑ رہا ہے، وہ بھی ایسے حالات میں کہ بہت سی ادویات جو درآمد ہوتی تھیں، اب دستیاب نہیں۔ پٹرول پمپوں اور گیس اسٹیشنز کے آگے لمبی لمبی قطاریں ہیں، اس آس پر کہ شاید کچھ مل جائے۔
طلبا کے امتحانات ملتوی ہو چکے ہیں اور ہر طرف سراسیمگی سی کیفیت ہے۔ چاول جو سری لنکا کے لوگوں کے کھانے کا بنیادی جزو ہیں، ترانوے فیصد تک مہنگے ہو گئے ہیں۔ سری لنکا کے روپے کی قدر میں شدید ترین کمی ہوچکی ہے اور ملک میں ایک ڈالر تین سو سری لنکن روپے سے اوپر جا چکا ہے۔ لوگ سڑکوں پر ہیں اور صدر سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں۔ سری لنکا کا ایک اور درد سر سات ارب ڈالر سے زائد وہ قرضہ ہے جو اسے اس سال دینا ہے۔
اس میں ایک بلین کے لگ بگ سورن بانڈز sovereign bonds کی ادائیگی بھی شامل ہے جو اسے جولائی میں کرنا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق حکومتی بدانتظامی، ناقابلِ برداشت قرضے اور ٹیکسوں میں کٹوتیوں نے بحران کو مزید سنگین کردیا ہے۔
انٹرنیشنل ریٹنگ ایجنسیوں نے سری لنکا کی عالمی ریٹنگ کم کردی ہے۔ سری لنکن حکومت نے بیرونی قرضوں اور حکومتی بانڈز کی عدم ادائیگی کے باعث دیوالیہ ہونے کا اعلان کردیا ہے اور اب سری لنکا آئی ایم ایف سے 3ارب ڈالر کا 3 سالہ بیل آؤٹ پیکیج حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے لیکن اب بہت دیر ہوچکی ہے، ملک انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے اور حالات سخت تشویشناک ہوچکے ہیں۔
سری لنکا کی معیشت کا سیاحت پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ کورونا وائرس کے باعث سیاحتی سرگرمیاں متاثر ہونے کے باعث گزشتہ دو برس کے دوران سری لنکا کی معیشت کو درپیش مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ معاشی ماہرین کے نزدیک بیرونی قرضوں اور ٹیکس سے متعلق حکومت کے اقدامات سری لنکا کو درپیش تاریخ کے سنگین ترین بحران کے اسباب میں شامل ہیں۔ سری لنکا 2007 سے مسلسل غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جارہا ہے۔
مختلف ادوار میں لیا گیا یہ قرض 11 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ اس قرض میں سے سب زیادہ یعنی36.4 فی صد حصہ حکومت کے بین الاقوامی بانڈ سے حاصل کردہ قرضوں پر مشتمل ہے۔ سری لنکا کے غیر ملکی قرضوں میں 14 فی صد سے زائد ایشیائی ترقیاتی بینک سے لیا گیا ہے ، جو ساڑھے چار ارب سے زائد ہے۔ اس قرض میں جاپان اور چین دونوں کے الگ الگ ساڑھے تین ارب سے زائد بھی واجب الادا ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت اور عالمی بینک، اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضے بھی شامل ہیں۔
سری لنکا کے بحران کی جہاں معاشی و اقتصادی پالیسیاں ہیں ، وہاں سری لنکا کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے حکمرانوں کی من چاہی و من مانی غیر موثر پالیسیاں ہیں۔ سری لنکا پر اس وقت ایک ہی خاندان راجا پکسا کی حکومت ہے۔ پچھلی دو دہائیوں سے راجا پکسے خاندان کے لوگ سری لنکا کی حکومت میں کسی نہ کسی طرح شامل ہیں۔ اس خاندان کی دو بڑی پالیسیوں کو موجودہ بحران سے منسلک کیا جا رہا ہے۔
ایک تو سری لنکا کے صدر نے پچھلے سال قدرتی کاشتکاری کا حکم دیا جس کے تحت ملک میں کیمیائی کھادوں پر پابندی لگا دی گئی، یہ فیصلہ سننے میں تو بہت مسحور کن ہے لیکن اس کی وجہ سے ملک میں خوراک کی کمی ہوگئی۔ دوسرا سری لنکن حکومت نے کئی اشیا پر سے ٹیکس ہٹا دیا، جس کی وجہ سے پچیس فیصد تک حکومتی ریونیو میں کمی آئی۔ حکومت کے دونوں اقدامات بظاہر اچھے ہیں، لیکن ایسی معیشت جو بیشتر درآمدات اور خارجی قرضوں پر چل رہی ہو، اسے ایسے پاپولر فیصلوں سے اجتناب کرنا پڑتا ہے، کیونکہ اسے ہر حال میں اپنے خزانے کو بھرنا ہوتا ہے، تاکہ ملک کا نظام چلتا رہے۔
پچھلے عشرے میں چین نے سری لنکا کو شاہراہوں، بندرگاہوں، ایک ایئرپورٹ کی تعمیر اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کے لیے پانچ ارب ڈالر سے زیادہ کا قرضہ دیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر قرضے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے منصوبوں کے تحت دیے گئے ہیں ، لیکن نقادوں کا کہنا ہے یہ فنڈز ایسے منصوبوں کے لیے دیے گئے جن کی لاگت بہت زیادہ ہے لیکن ان سے آمدن کے امکانات بہت کم تھے۔
اس لیے ان منصوبوں کی وجہ سے سری لنکا کے قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا لیکن ان کی ادائیگی کے لیے مطلوبہ آمدن کے ذرایع پیدا نہیں ہوئے، البتہ چین ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
سری لنکا کی اس وقت کی معاشی بدحالی کی دوسری بڑی وجہ کووڈ ہے۔ ملک میں خاصا ریونیو سیاحت کے باعث آتا تھا اور کورونا کے آنے کے بعد سیاحوں کا ملک میں آنا کم ہوا تو معیشت بیٹھ گئی۔ سری لنکا کے قرضے جی ڈی پی کا 119فیصد ہوگئے تھے اور سری لنکا میں خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کی طرح 502حکومتی اداروں پر بجٹ کا 20فیصد خرچ ہوجاتا تھا۔
ان اداروں میں بھی سیاسی بھرتیاں کی گئیں، سری لنکا بھی 26سال تک تامل ٹائیگرز کی وجہ سے خانہ جنگی اور دہشت گردی کی زد میں رہا۔ سری لنکا کے معاملے میں ماہرین معیشت متفق ہیں کہ اسے فوری طور پر اپنے معاشی انفرا اسٹرکچر میں تبدیلیاں کرنا ہوں گی، اسے اپنی برآمدات بڑھانا ہوں گی اور بیرونی قرضوں پر سے انحصار کم سے کم کرنا ہوگا۔
یہ حالات بالکل ریاست پاکستان کی طرح ہیں جہاں درآمدات برآمدات سے بہت زیادہ ہیں اور اسے ان دونوں کے درمیان فرق کو مٹانے کے لیے اپنے خزانے کو عوام کے ٹیکس اور بیرونی قرضوں سے بھرنا پڑتا ہے۔ یہ بھی کسی قسم کا پاپولر فیصلہ نہیں لے سکتی۔ اس کے لیے بھی ایسا فیصلہ زہر قاتل ہی ثابت ہوگا۔
اسے ہر حال میں خود کو چلانے کے لیے عوام کو معاشی دباؤ میں لانا پڑتا ہے۔ کیونکہ حکومت کمزور ہوتی ہے جو کہ خواص پر دباؤ ڈال نہیں سکتی اس کے پاس واحد حل عوام کو ہی دبانا رہ جاتا ہے۔
ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ کیا ہم بھی وہی غلطیاں تو نہیں کررہے جو غلطیاں سری لنکا سے سرزد ہوئیں؟ پی ٹی آئی حکومت نے اپنے آخری دنوں میں ایمنسٹی اسکیم، پٹرولیم مصنوعات، بجلی کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں کمی تو کردی لیکن ملکی معیشت پر بوجھ مزید بڑھ گیا ہے ، اب آئی ایم ایف نے ان غلط فیصلوں کو واپس لینے کو کہ رہا ہے۔ ہم آج 9 ارب ڈالر کی زرعی اجناس امپورٹ کررہے ہیں جو پہلے ایکسپورٹ کرتے تھے۔
سستی متبادل انرجی کو نظر انداز کرکے ہم 14ارب ڈالر کے فرنس آئل سے مہنگی بجلی پیدا کررہے ہیں جب کہ ہمارے بیرونی قرضے سری لنکا سے دگنے 102ارب ڈالر ہو چکے ہیں، روپے کی قدر میں کمی ہورہی ہے جس سے افراطِ زر یعنی مہنگائی ، میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان کی نئی حکومت کو سری لنکا کی صورتحال سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ نئی پاکستانی حکومت کو اپنی مضبوط اور مستحکم معاشی پالیسیوں کی بنیاد پر ملک کے معاشی بحران سے نکالنا ہوگا۔