کراچی میں میٹھے پانی کی قلت کے باعث بورنگ کے کام میں اضافہ ہوگیا ایکسپریس سروے

بورنگ کرنے والے ماہر کاریگروں کی بڑی تعداد 4 ماہ اپنے آبائی علاقوں میں آرام کے بعد دوبارہ کراچی پہنچنا شروع ہوگئی

گرمیوں میں کراچی کے60 فیصد علاقوں میں میٹھے پانی کی قلت ہو جاتی ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

کراچی میں میٹھے پانی کی قلت کے سبب شہریوں نے روز مرہ استعمال کیلیے کھارا پانی استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔

کھارے پانی کے حصول کیلیے شہر کے مختلف علاقوں میں دستی اور مشینی بورنگ کے کام میں اضافہ ہو گیا ہے،بورنگ کرنے والے ماہر کاریگروں کا سیزن شروع ہو گیا ہے اور کاریگروں کی بڑی تعداد 4 ماہ اپنے آبائی علاقوں میں آرام کے بعد دوبارہ کراچی پہنچنا شروع ہوگئی ہے، ایکسپریس نے کراچی میں پانی کی بورنگ کے حوالے سے سروے کیا، سروے کے دوران اس پیشے سے 30سال سے منسلک کاریگر فیض احمد فیض نے بتایا کہ کراچی میں میٹھے پانی کی قلت ہے اور پانی کے حصول کا واحد ذریعہ واٹر بورڈ کی پانی کی لائنیں اور واٹر ٹینکرز ہیں تاہم بیشتر علاقوں میں پانی روزانہ کی بنیاد پر نہیں آتا ہے ،سردیوں میں تو میٹھے پانی کی قلت کم ہوتی ہے تاہم گرمیوں میں پانی کے استعمال میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے شہر کے60 فیصد علاقوں میں میٹھے پانی کی قلت ہو جاتی ہے،انھوں نے بتایا کہ شہریوں کی بڑی تعداد گرمیوں میں روز مرہ استعمال کیلیے کھارے پانی کے حصول کو ترجیح دیتی ہے ، جس کی وجہ سے دستی اور مشینی بورنگ کرانے کے رجحان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔


انھوں نے بتایا کہ شہر میں دستی اور مشینی بورنگ کے کاریگروں کی تعداد تقریباً 3 ہزار کے لگ بھگ ہے جس میں سے70 فیصد تعداد پختون ، پنجابی اور سرائیکی کمیونٹی کی ہے اور 30 فیصد کا تعلق دیگر کمیونٹی سے ہے،انھوں نے بتایا کہ کراچی کے 30 فیصد علاقوں میں دستی بورنگ اور باقی 70 فیصد علاقوں میں مشینی بورنگ کی جاتی ہے،انھوں نے بتایا کہ یہ سیزن کا کام ہوتا ہے،اس کا سیزن مارچ میں شروع ہوتا ہے اور اکتوبر تک جاری رہتا ہے ،انھوں نے بتایا کہ اس پیشے سے بیشتر کاریگر اندرون ملک شہروں ، رحیم یار خان ، ڈیرہ غازی ، وہاڑی ، خان پور ، شکار پور ، پشاور ، کوئٹہ ، بنوں ، کوہاٹ ، قبائلی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، یہ کاریگر8 ماہ تک کراچی میں کام کرتے ہیں اور 4 مہینے آرام کے لیے اپنے آبائی علاقوں میں چلے جاتے ہیں ،انھوں نے بتایا کہ کراچی کے ہر علاقے میں بورنگ کے پانی کا ذائقہ الگ ہوتا ہے، انھوں نے بتایا کہ یہ انتہائی محنت طلب کام ہے تاہم اس میں معاوضہ بہتر ملتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ دستی بورنگ کے کاریگر زیادہ تر پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ کام وہی کرتے ہیں جو سخت جان ہوتے ہیں اور ان کی خوراک بہت متوازن ہوتی ہے ،ایک مقامی کاریگر نے بتایا کہ آرڈر کے مطابق کام مکمل کیا جاتا ہے اور ایک دن میں 50 فٹ تک بورنگ مکمل کر لی جاتی ہے،انھوں نے بتایا کہ پتھریلے علاقوں میں بورنگ کرنا مشکل ہے تاہم 150 فٹ کی بورنگ میں 3 دن اور 1000 فٹ تک کی بورنگ میں 10 دن لگ جاتے ہیں ،انھوں نے بتایا کہ کھدائی مکمل ہونے کے بعد کیسنگ پائپ ڈالے جاتے ہیں پھر پانی نکالنے اور ہوا کی کراسنگ کے لیے پائپ ڈالے جاتے ہیں، پائپ کی تکمیل کے بعد پانی کے حصول کیلیے بورنگ کے سائز کے مطابق ڈیپ ویل پمپ نصب کیے جاتے ہیں ،انھوں نے بتایا کہ مشینی بورنگ کے گھریلو صارفین کے لیے 250 سے 300 روپے فٹ اور کمرشل صارفین کیلیے 500 سے 3000 روپے فٹ جبکہ 44 انگ کیلیے 5 ہزار روپے فٹ معاوضہ وصول کیا جاتا ہے ،انھوں نے بتایا کہ مشینی بورنگ کے گھریلو صارفین کم ازکم اخراجات 50سے 80ہزار روپے آتے ہیں۔
Load Next Story