خون میں آکسیجن کی درست مقدار بتانے والا اسٹیکر
ٹفٹس یونیورسٹی کا تیارکردہ لچکدار سینسر کووڈ اور دیگر امراض میں خون میں آکسیجن کی کمی بیشی نوٹ کرسکتا ہے
قارئین کو یاد ہوگا کہ کورونا وبا کے دوران خون میں آکسیجن ناپنے کے پلس آکسی میٹر کی شدید طلب تھی۔ اب اسی بنا پر ایک کم خرچ اور مؤثر اسٹیکر بنایا گیا ہے جسے جلد پرلگا کر خون میں آکسیجن کی مقدار معلوم کی جاسکتی ہے۔
اس پیوند کی جسامت ایک چھوٹے بٹن جیسی ہےجو آکسیجن کی موجودگی اس وقت جامنی رنگت کے ساتھ روشن ہوجاتا ہے جب اس پر نیئر انفراریڈ روشنی ڈالی جائے۔ اپنی سادگی کی بنا پر یہ ایک بہترین سینسر بن سکتا ہے۔ تاہم اسےبدل کردوسری کیفیات کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ٹفٹس یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ کیپلان اور ان کے ساتھیوں نے یہ ایجاد کی ہے جو ایک باریک جھلی جیسی ہے۔ اسے چند منٹ کی جراحی کے بعد جلد کی اوپری سطح کے نیچے لگایا جاسکتا ہے اور مریض کو بہت معمولی تکلیف کا سامنا ہوتا ہے گویا یہ ایک ٹیٹو کی طرح کا پیوند بن جاتا ہے۔
اس کی باریک پرت ایک نفوذپذیر جیل کی طرح ہے جسے ریشم کے پروٹین فائبروئن سے تیار کیا گیا ہے۔ فائبروئن نہ صرف ازخود حیاتیاتی طور پر گھل کر ختم ہوسکتا ہے پھر یہ حیاتی طورپر انسانی جسم کے لیے بھی موزوں ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں ایک مرکب پی ڈی بی ایم اے پی ملایا گیا ہےاور آکسیجن سے بھرپور ماحول میں جب جب اس پر نیئر انفراریڈ (زیریں سرخ) روشنی ڈالی جائے تو اسٹیکر جامنی روشنی خارج کرنے لگتا ہے۔ یوں ایک عرصے تک یہ بدن کے اندر آکسی میٹر کا کام کرتا ہے اور اپنی کیفیت کی بنا پر چند ہفتوں یا مہینوں میں گھل کر ختم ہوجاتا ہے۔
اس کی پہلی آزمائش چوہوں پر کی گئی ہے تو اس نے روشنی خارج کرکے خون میں آکسیجن کی درست مقدار ظاہر کی۔ جس کی تصدیق دیگر طریقوں سے بھی کی گئی ہے۔
لیکن مزید بہتری کرکے خون میں شکر، لیکٹیٹ اور الیکٹرولائٹس معلوم کرنے کےلیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اس پیوند کی جسامت ایک چھوٹے بٹن جیسی ہےجو آکسیجن کی موجودگی اس وقت جامنی رنگت کے ساتھ روشن ہوجاتا ہے جب اس پر نیئر انفراریڈ روشنی ڈالی جائے۔ اپنی سادگی کی بنا پر یہ ایک بہترین سینسر بن سکتا ہے۔ تاہم اسےبدل کردوسری کیفیات کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ٹفٹس یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ کیپلان اور ان کے ساتھیوں نے یہ ایجاد کی ہے جو ایک باریک جھلی جیسی ہے۔ اسے چند منٹ کی جراحی کے بعد جلد کی اوپری سطح کے نیچے لگایا جاسکتا ہے اور مریض کو بہت معمولی تکلیف کا سامنا ہوتا ہے گویا یہ ایک ٹیٹو کی طرح کا پیوند بن جاتا ہے۔
اس کی باریک پرت ایک نفوذپذیر جیل کی طرح ہے جسے ریشم کے پروٹین فائبروئن سے تیار کیا گیا ہے۔ فائبروئن نہ صرف ازخود حیاتیاتی طور پر گھل کر ختم ہوسکتا ہے پھر یہ حیاتی طورپر انسانی جسم کے لیے بھی موزوں ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں ایک مرکب پی ڈی بی ایم اے پی ملایا گیا ہےاور آکسیجن سے بھرپور ماحول میں جب جب اس پر نیئر انفراریڈ (زیریں سرخ) روشنی ڈالی جائے تو اسٹیکر جامنی روشنی خارج کرنے لگتا ہے۔ یوں ایک عرصے تک یہ بدن کے اندر آکسی میٹر کا کام کرتا ہے اور اپنی کیفیت کی بنا پر چند ہفتوں یا مہینوں میں گھل کر ختم ہوجاتا ہے۔
اس کی پہلی آزمائش چوہوں پر کی گئی ہے تو اس نے روشنی خارج کرکے خون میں آکسیجن کی درست مقدار ظاہر کی۔ جس کی تصدیق دیگر طریقوں سے بھی کی گئی ہے۔
لیکن مزید بہتری کرکے خون میں شکر، لیکٹیٹ اور الیکٹرولائٹس معلوم کرنے کےلیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔