سیکیورٹی کے نام پر اقدامات جامعہ کراچی طلبہ کیلئے درد سر بن گئے

کینٹینز بند، محدود شٹل سروس اور گاڑیوں پر عائد پابندی نے ہزاروں طلبہ کو شدید اذیت میں مبتلا کردیا ہے


May 11, 2022
سیکیورٹی کے نام پر جامعہ کراچی طلبہ کو پریشان کیا جانے لگا(فوٹو فائل)

ISLAMABAD: جامعہ کراچی میں چینی اساتذہ پر خودکش حملے کے بعد سیکیورٹی کے نام پر اٹھائے گئے اقدامات طلبا و طالبات کیلئے اذیت کا باعث بننے لگے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق مادر علمی جامعہ کراچی میں میں بلوچ خاتون کی جانب سے خودکش حملے کے بعد سخت سیکیورٹی کے نام پر طلبہ کو پریشان کیا جانے لگا، ٹرانسپورٹ پر پابندی عائد کی اور کینٹینز، ہوٹلز و کیفے ٹیریا بھی بند کردئیے۔

کیمپس میں ٹرانسپورٹ پر پابندی اور یونیورسٹی شٹل سروس کی انتہائی محدود تعداد شدید گرمی میں طلباء وطالبات کے لیے مزید اذیت کا باعث بن رہی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ عید الفطر کی تعطیلات کے بعد جب پیر سے جامعہ کراچی کھولی گئی تو کینٹینز مالکان کو اپنی دکانیں کھولنے کی اجازت نہیں دی گئی اور جامعہ کراچی میں بغیر کسی پیشگی اطلاع کے محض ڈیٹا جمع کرنے کے نام پر کئی درجن کینٹینز و فوڈ اسٹالز تین روز سے بند ہیں جس کی وجہ سے طلبہ گرمی سے بچنے کیلئے پانی اور جوس بھی خریدنے سے محروم ہیں۔

نمائندہ ایکسپریس نیوز کا کہنا ہے کہ صرف رہائشی علاقے کے دو ہوٹلز کو کھولنے کی اجازت ہے جس کا ایجوکیشن بلاک سے کئی کلومیٹر کا فاصلہ ہے اگر کسی طالب علم کو ہوٹل سے پانی یا جوس بھی خریدنا ہے تو وہ کئی کلومیٹر پیدل سفر کرکے رہائشی علاقے کی جانب جائے یا شدید گرمی میں پیاسا ہی کیمپس سے باہر نکل جائے۔

واضح رہے کہ کینٹینز کی بندش کی یہ صور تحال ایسے وقت میں پیدا کی گئی ہے جب بغیر پاس کے آنے والی گاڑیوں پر کیمپس میں داخلے پر مکمل پابندی ہے سلور جوبلی گیٹ گاڑیوں کی آمد و رفت کے لیے مکمل بند کردیا ہے اور جن گاڑیوں کو یونیورسٹی میں داخلے کی اجازت ہے وہ صرف مسکن اور میروول گیٹ سے ہی داخل ہوسکتی ہیں۔

سلور جوبلی گیٹ سے صرف طلبا و طالبات کو پیدل اندر آنے کی اجازت ہے، جب کہ ان تینوں داخلی دروازوں سے طلبہ کی سہولت کےلیے جو شٹل سروس فراہم کی گئی تھی وہ ناکافی ہے کیوں کہ صبح اور ایوننگ پروگرام میں ہزاروں طلبہ یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہیں تو شٹل سروس بمشکل ہی انہیں میسر آتی ہے۔

ہزاروں طلبہ کڑکتی دھوپ میں پیدل سفر کرکے پیاس سے بے حال اپنے شعبہ جات تک پہنچتے ہیں کیوں کہ راستے میں پیاس بجھانے کیلئے موجود کینٹینز بھی بندش کا شکار ہیں۔

ایکسپریس نیوز کو موصولہ اطلاعات کے مطابق جامعہ کراچی نے ایچ ی سی کے فنڈز سے 8 نئی بسیں ایک سال قبل خریدی تھیں جو رجسٹریشن اور انشورنس نہ ہونے کے سبب ایچ اے جے کے بیک یارڈ میں کھڑی خراب ہورہی ہیں مگر انہیں کیمپس اندر بھی بطور شٹل سروس استعمال نہیں کیا جارہا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بدھ کو قائم مقام وائس چانسلر کی زیرصدارت منعقدہ اجلاس میں انجمن سے وابستہ ایک استاد نے کینٹینز کو کھولنے کی بات کی تو قائم مقام وائس چانسلر ان پر شدید برہم ہوئی۔

بتایا جارہا ہے کہ انتظامیہ کینٹینز سے وابستہ افراد کا ڈیٹا جمع کرکے اس بات کا اندازہ لگانا چاہتی ہے کہ کینٹینز مالکان نے اپنی دکانیں کتنے غیر متعلقہ افراد کے سپرد کررکھی ہیں اور ایک ہی کینٹین میں کتنے کاروبار چل رہے ہیں۔

اس حوالے سے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ایک استاد نے کہا کہ یہ ڈیٹا تو کینٹین کھلے رکھ کر بھی حاصل کیا جاسکتا تھا پھر طلبہ کو دوران سیمسٹر اور امتحانات سے قریب اتنی اذیت میں کیوں رکھا جارہا ہے۔

علاوہ ازیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بدھ کو منعقدہ اجلاس میں رینجرز کے ایک اعلی افسر بھی شریک ہوئے جن سے انجمن اساتذہ کے عہدیداروں نے یونیورسٹی میں غیر قانونی قابضین سے مکان خالی کرانے کی استدعا کی ہے اور متعلقہ افسر کی جانب سے اس سلسلے میں اساتذہ کو رینجرز کی جانب سے معاونت و تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں