منفی پروپیگنڈے کے توڑ کی ضرورت
ملک میں سچ و جھوٹ کی تمیز ختم اور منفی پروپیگنڈا کامیاب ہے
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو توقع تھی کہ جنرل پرویز مشرف انھیں وزیر اعظم بنا دیں گے کیونکہ ان کے مطابق وہ محب وطن ہی نہیں ایماندار بھی ہیں اور اقتدار میں نہ رہنے کی وجہ سے ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے 2002 کے انتخابات کے بعد چوہدریوں کو ترجیح دی اور (ق) لیگ نے جب میر ظفراللہ جمالی کو وزیر اعظم نامزد کیا تو عمران خان جنرل پرویز مشرف سے دور ہوگئے، حالانکہ انھوں نے جنرل پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنڈم میں ان کی کامیابی کی بھرپور مہم چلائی تھی۔
جنرل مشرف کے دور میں عمران خان ایک نئے سیاستدان تھے اور چوہدریوں کے مقابلے میں ان کی شہرت اچھی تھی۔ ملک کی ممتاز شخصیات نے عمران خان سے بڑی اچھی توقعات وابستہ کرکے ان کی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی مگر بعدازاں کچھ شخصیات سیاسی اختلافات کی بنا پر پی ٹی آئی چھوڑ گئیں۔
2008 کے انتخابات کا عمران خان نے بائیکاٹ کیا تھا اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے مل کر پہلی بار حکومت بنائی تھی مگر ججز بحال نہ ہونے پر مسلم لیگ (ن) حکومت سے الگ ہوگئی تھی مگر بعد میں جج بحال ہوگئے تھے، جن کی بحالی میں اہم کردار میاں نواز شریف کا تھا۔ 2013 کے انتخابات میں عمران خان نے بھرپور حصہ لیا تھا کیونکہ 2011 میں ان کا لاہور میں بڑا جلسہ کروا کر ان کی سیاسی اہمیت بڑھائی گئی تھی۔
اس وقت پی ٹی آئی میں عمران خان سے متاثر ہوکر نظریاتی رہنما شامل ہوئے تھے مگر ملک بھر کے الیکٹ ایبل سیاسی شخصیات پی ٹی آئی میں شامل نہیں تھیں جس کی وجہ سے وہ کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کرسکے تھے اور 2013 کے انتخابات کو انھوں نے دھاندلی زدہ قرار دیا تھا جس میں مسلم لیگ (ن) نے بھاری اکثریت سے حکومت بنائی تھی اور پیپلز پارٹی حکومت صرف سندھ میں بنا سکی تھی اور پی ٹی آئی کے پی کے میں سب پارٹیوں سے آگے تھی اور بعض شخصیات نے وزیر اعظم نواز شریف کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ کے پی کے میں عمران خان کی حکومت نہ بننے دی جائے بلکہ مسلم لیگ (ن) و دیگر سے مل کر حکومت بنا لیتے ہیں مگر نواز شریف نے پی ٹی آئی کے مینڈیٹ کا احترام کیا اور وہاں پی ٹی آئی نے جماعت اسلامی اور آفتاب شیر پاؤ سے مل کر حکومت بنالی تھی۔
عمران خان نے نواز شریف کے خلاف انتخابات کے مبینہ الزام کے تحت 2014 میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا اور 126 دنوں کے ناکام دھرنے سے کچھ حاصل نہ کرسکے۔ انتخابات دھاندلی پر جو عدالتی کمیشن عمران خان کے مطالبے پر بنا تھا اس کی رپورٹ میں کوئی منظم دھاندلی ثابت نہ ہو سکی تھی مگر عمران خان نے تسلیم نہ کیا اور دھاندلی کا شور مچاتے رہے۔
عمران خان کے لانگ مارچ اور دھرنے سے بڑا موثر دھرنا طاہر القادری کا تھا جنھوں نے ماڈل ٹاؤن میں پولیس کے ہاتھوں اپنے کارکنوں کی ہلاکتوں پر دھرنا دیا تھا اور ان دونوں دھرنوں کو سرپرستی حاصل تھی مگر اس موقع پر پیپلز پارٹی نے سیاسی مخالفت کے باوجود نواز شریف حکومت کا مکمل ساتھ دیا اور (ن) لیگی حکومت اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب رہی تھی۔
پیپلز پارٹی اسمبلیوں سے استعفوں کے خلاف تھی اور پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی سے استعفے دیے تھے جو (ن) لیگی اسپیکر نے پی پی کی مشاورت سے قبول نہیں کیے اور پی ٹی آئی نہ صرف ایوان میں واپس آئی بلکہ سات ماہ باہر رہ کر تمام مراعات بھی وصول کی تھیں۔ (ن) لیگی حکومت بچانے میں پی پی اور جے یو آئی نے وزیر اعظم نواز شریف کا ساتھ دیا تھا اس لیے عمران خان نے اپنے دھرنے کی ناکامی کے بعد نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے خلاف الزامات کے ساتھ اپنی انتخابی مہم شروع کی۔
انتخابات جیتنے والی ملک کی اہم شخصیات پی ٹی آئی میں شامل ہونا شروع ہوئیں۔ عمران خان کو بتا دیا گیا تھا کہ وہ ایسی شخصیات کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتے اس لیے انھیں قبول کیا جاتا رہا۔ کچھ ریٹائرڈ سرکاری افسران بھی (ن) لیگ اور پی پی حکومتوں سے ناراض تھے انھوں نے کھل کر عمران خان کا ساتھ دیا۔ عمران خان نے نواز شریف اور آصف زرداری کو اپنا ٹارگٹ بنایا اور اندرون ملک اور دنیا بھر میں ان پر الزامات لگا لگانے شروع کر دیے۔
عمران خان کے جلسوں کا محور شریف زرداری اور ان کی مبینہ کرپشن تھی جو ثابت تو کہیں نہیں ہوئی تھی اور منصوبے کے تحت نواز شریف کو برطرف و نااہل کرایا گیا اور عمران خان کو صادق و امین قرار دے کر ان کا حوصلہ بڑھایا گیا۔ عمران خان اپنے تینوں بڑے سیاسی مخالفوں کو چور، ڈاکو اور کرپٹ کہہ کر بدنام کرنے میں تو کامیاب رہے مگر اپنی پونے چار سالہ حکومت میں ان پر کوئی الزام ثابت کرسکے نہ کسی کو سزا دلوا سکے۔
نواز شریف، شہباز شریف اور آصف زرداری عمران خان کے الزامات کی بار بار تردید کرتے رہے۔ شہباز شریف اور آصف زرداری کو عمران خان نے مقدمات بنوا کر گرفتار بھی کروایا ، طویل عرصہ جیلوں میں رکھا مگر کرپشن کہیں ثابت نہ کراسکے۔
آج عمران خان حکومت سے باہر اور ان کے مخالف حکومت میں ہیں مگر عمران خان اب یہ تاثر دے رہے ہیں کہ چور، ڈاکو اقتدار میں لائے گئے ہیں جو اپنی کرپشن کے مقدمات ختم کرالیں گے۔ عدالتیں عمران خان کے بدنام کیے گئے مبینہ بدعنوانوں کو ضمانتوں پر رہا کرتی رہیں مگر عمران خان آج بھی چور، ڈاکو، چور ڈاکو کی تکرار قائم رکھے ہوئے ہیں اور نئی نسل اور بزرگوں کی ایک تعداد عمران خان کے پروپیگنڈے سے متاثر ہیں۔
اتحادی جماعتیں اقتدار میں تو آگئیں مگر ان کے خلاف منفی پروپیگنڈا مکمل کامیاب رہا جس کا تاثر عوام میں موجود ہے جس کے توڑ کی حکمرانوں کو اشد ضرورت ہے۔ ملک میں سچ و جھوٹ کی تمیز ختم اور منفی پروپیگنڈا کامیاب ہے اس لیے حکمرانوں کو اپنے خلاف منفی پروپیگنڈے کا جواب دینے اور خود کو پاک صاف ثابت کرنے پر توجہ دینی ہوگی۔