دینی مدارس …اسلام کے قلعے

انگریز سامراج نے سب سے پہلے سازشوں کے ذریعے دینی مدارس کو ویران کیا


[email protected]

NORTH WAZIRISTAN: کوئی مانے یا نہ مانے، لیکن یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مدارس دینیہ اسلام کے قلعے ہیں۔ انگریز سامراج نے سب سے پہلے سازشوں کے ذریعے دینی مدارس کو ویران کیا مُلا اور مسٹر کا فرق متعارف کروایا اور آخر کار برصغیر میں لارڈ میکالے کا طبقاتی نظام تعلیم رائج کر کے ایسی بنیادیں فراہم کیں جس سے ایسا تعلیم یافتہ طبقہ پروان چڑھا جو رنگ و نسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی تھے مگر فکری و ذہنی اعتبار سے انگریز حکومت کے وفادار اور ترجمان تھے۔

اب انگریز تو یہاں سے چلا گیا لیکن اس کی باقیات ابھی تک موجود ہیں جو انگریز کی پالیسی کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ اسے بد قسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ ہر دور میں ایک طبقہ ایسا موجود رہا ہے، جو ہمیشہ حکومت اور علمائے کے درمیان منافرت کو ہوا دیتا ہے اور دینی مدارس کے خلاف ہے اور وقفے وقفے سے اس پروپیگنڈا کو ہوا دیتا رہتا ہے کہ دینی مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ دورِ جدید کے تقاضوں اور ضروریات سے نابلد اور بے خبر ہیں۔

اس پروپیگنڈا کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اہل بصیرت علمائے حق دورِ جدید کے تقاضوں سے نہ صرف یہ کہ باخبر ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور حضوراکرمﷺ کی احادیث مبارکہ کی تدریس، تعمیل اور ترویج کے ساتھ ساتھ مسلم امراء اور عام مسلمانوں کی بھی قرآن وسنت کی روشنی میں خیرخواہی اور رہنمائی کرتے آئے ہیں۔

دین بیزار اور جدت پسندوں کی ایک کھیپ کا مقصد امت مسلمہ کو اس کے ماضی سے کاٹ دینا اور اسے دین اسلام کی چودہ سو سالہ متفقہ تعبیر سے محروم کردینا ہے اور یہ اپنے غلط نظریات، پریشان خیالات اور ہوا وہوس سے معمور افکار کی ترویج کے لیے اپنے آپ کو ہمیشہ صاحب ِاختیار وصاحب ِاقتدار لوگوں کے ساتھ نتھی کرلینے میں مصلحت تصور کرتی اور اس میں اپنی عافیت سمجھتی ہے اور جب بھی ان کی کج روی اور غلط روی پر انھیں ٹوکا جاتا ہے تو ٹوکنے والوں کے خلاف شور مچادیا جاتا ہے کہ یہ دور جدید کے تقاضوں سے واقف نہیں حالانکہ علمائے امت، مسلم معاشرہ میں ہی رہتے ہیں اور ان کی چوبیس گھنٹے کی زندگی مسلمانوں کے روزمرہ معاملات کو قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھنے اور اس پر گامزن رکھنے کی کوششوں میں صرف ہوتی ہے۔

باشعور اور اہل بصیرت حضرات جانتے ہیں اور اس کے قائل ہیں کہ اگر یہ علمائے امت، دینی ادارے اور دینی مدارس نہ ہوتے تو آج امت مسلمہ کو دین متین کی صحیح شکل ملنا مشکل تھی اور اسی طرح معاشرہ میں باطل کے پھیلائے گئے پروپیگنڈے اورجال سے مسلمانوں کوچھٹکارا نہ ملتا۔ آج یہ جو کچھ کام کے اور کچھ نام کے مسلمان نظر آتے ہیں یہ انھیں مدارس دینیہ کی مرہون منت ہے۔

عید سے دو روز قبل پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر سید خورشید شاہ نے ایک این جی او کے تحت چلنے والے اسکول کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔ اگر ہم نے اپنی نسلوں کو مدارس سے بچانا ہے، مولویوں سے بچانا ہے اور غربت سے بچانا ہے تو ہمیں ایسے ادارے بنانا ہوں گے۔ میرا خیال ہے کہ ان کا تجزیہ یا انداز فکر حقائق کے برعکس ہے۔

پاکستان کی سیاست میں خورشید شاہ اور ان جیسی سوچ و فکر رکھنے والے لوگ ہی تو فعال نہیں ہیں، پاکستان کی سیاست میںدینی مدارس سے نکلنے والے علماء بھی اپنا کردار ادا کررہے ہیں، یہ علماء کئی بار حکومتوں میں بھی رہے، وزارتوں کے قلمدان بھی ان کے پاس رہے، مختلف محکموں کے پارلیمانی سیکریٹری بھی بنے، اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے سربراہ اور رکن بھی رہے اور موجودہ حکومت میں بھی عہدے رکھتے ہیں۔وہ بھی قومی خزانوں کے اربوں کھربوں کے مالک بنے لیکن کسی پر ایک بھی کرپشن کا کیس نہیں بنا۔ یہ مدارس کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے۔

خورشید شاہ کے اس بیان پر مجھ جیسی سوچ رکھنے والے ملک بھر کے مسلمانوں بالخصوص علماء کے دلوں کو تکلیف پہنچی۔ سوشل میڈیا پر لوگوں نے ان کے بیان پر تنقید کی۔ وفاق المدارس العربیہ کے جنرل سیکریٹری برادر عزیز مولانا محمد حنیف جالندھری نے وفاقی وزیر خورشید شاہ کے مدارس کے بارے میں بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے دینی تعلیم کی مخالفت اور نظریہ پاکستان سے انحراف قرار دیا۔ انھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کی قیادت سے خورشید شاہ کے بیان کا فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔

دینی مدارس ملک کی سب سے بڑی این جی او ہے جس نے نہ صرف یہ کہ دینی تعلیم و تربیت کی ذمے داری سنبھال رکھی ہے بلکہ لاکھوں بچوں کی کفالت اور ہزاروں خاندانوں کے ساتھ تعاون کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ اس کار خیر میں حکومت سے کسی قسم کی کوئی امداد نہیں لی جاتی بلکہ ملک بھر کے مخیر حضرات آگے بڑھ کر مدارس کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔

حکومتوں نے مدارس اور علماء کی راہوں میں روڑے اٹکانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ گزشتہ دور میں بھی رجسٹریشن کے نام پر جو اودھم مچایا گیا وہ اہل مدارس ہی جانتے ہیں۔ دینی مدارس میں مختلف ٹیموں کی طرف سے سروے فارم کی تقسیم اور انھیں بجلی کا بل، تنخواہ و دیگر مراعات کا لالچ دیا گیا۔

جو ایک بیرونی منصوبہ معلوم ہوتی تھی۔ مبینہ طور پر یہ ایف اے ٹی ایف بل کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ متنازع وقف املاک ایکٹ پاس کیا گیا جس سے مساجد و مدارس پر خوف کی ایک تلوار لٹکائی گئی۔ رجسٹریشن کے نام پر مدارس کو ہراساں کر کے خوف و ہراس پھیلایا گیا، مدارس کے خلاف منصوبے بنانے والوں کے ناپاک عزائم خاک میں مل گئے، اللہ نے اس حکومت سے ہی نجات دلا دی۔

مدارس سے فارغ التحصیل مولانا فضل الرحمن صاحب مدارس کے تعلیم یافتہ ہیں' خورشید شاہ صاحب ان کی علمی اور سیاسی فہم سے آشنا ہیں' مولانا کی سیاست اور علم کا مقابلہ آکسفورڈ اور ایڈنبرا جیسے نامی گرامی اداروں سے فارغ التحصیل سیاستدانوں سے کردیں تو انھیں یہ حقیقت ان پر آشکار ہوجائے گی کہ یہ سب مولانا کے سامنے سیاسی بونے ہیں۔ ان کو یقین نہ آئے تو آصف زرداری سے پوچھ لیں کہ سیاسی فہم و فراست میں مولانا فضل الرحمن صاحب کا کوئی ثانی ہے۔

دینی مدارس کسی کے لیے خطرہ نہیں، دینی مدارس کا سلسلہ صدیوں سے قائم ہے اور گزشتہ صدی میں ہندوستان میں انھی دینی مدارس کے دم سے علوم نبوت زندہ و تابندہ ہیں۔ انھی کی وجہ سے استعمار کے جبر و استبداد کا خاتمہ ہوا، یہی وہ قلعے تھے جن سے دین اسلام کا دفاع ہوا۔ یہی وہ نظریاتی چھاؤنیاں تھیں، جنہوں نے اسلامی نظریہ کی حفاظت کی، دینی مدارس ہی آب حیات کے وہ پاکیزہ چشمے ہیں۔

جنہوں نے مسلمانوں میں دینی زندگی باقی رکھی ہوئی ہے لیکن جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے قائم ہونے والا مدرسہ کفر کی نگاہ میں کھٹکتا تھا، اسی طرح آج بھی پاکستان اور دنیا بھر کے دینی مدارس اسلام دشمنوں کی نگاہوں میں خار بنے ہوئے ہیں، چنانچہ بے سروسامانی کے عالم میں دین حق کی شمع کو روشن کرنے والے مدارس کو دین دشمن اپنے لیے ایٹم بم سے زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں۔

اس لیے دین دشمن قوتیں اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ ان مدارس کو ختم کرنے، انھیں کمزور کرنے، مسلمانوں کا ان سے تعلق توڑنے اور ان کی حریت و آزادی کو ختم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں۔ جب تک علماء اور غیور مسلمان زندہ ہیں وہ ان سازشوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے رہے ہیں۔ مدارس کل بھی زندہ باد تھے، مدارس آج بھی زندہ باد ہیں اور قیامت کی صبح تک زندہ باد رہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔