آٹوسیکٹرکے تحفظ کیلیے نان ٹیرف اقدامات کا مطالبہ

گزشتہ سال 55 ہزارپرانی کاریںدرآمد، 16.5 ارب ریونیونقصان،ذرمبادلہ ذخائر پردبائو بڑھا


Business Reporter September 13, 2012
گزشتہ سال 55 ہزارپرانی کاریںدرآمد، 16.5 ارب ریونیونقصان،ذرمبادلہ ذخائر پردبائو بڑھا۔ فوٹو: فائل

استعمال شدہ کاروں کی درآمدات سے مقامی انڈسٹری کے ساتھ حکومت کوبھی خسارے کاسامنا ہے۔

آٹوانڈسٹری ماہرین کے مطابق گزشتہ سال 55ہزار استعمال شدہ کاریںدرآمدکرنے سے حکومت کوریونیوکی مد میں16.5ارب روپے کانقصان اٹھانا پڑا اورکاروںکی درآمدپر371ملین ڈالر خرچ کیے گئے جس سے زرمبادلہ کے ذخائرکوبھی دبائوکاسامنا کرنا پڑا۔ مقامی انڈسٹری کادعویٰ ہے کہ وہ اربوںروپے کی سرمایہ کاری کرکے35لاکھ سے زائد کارکنوں کو روزگارکے مواقع فراہم کررہی ہے اورحکومت کوسالانہ50ارب روپے کا ریونیو اداکررہی ہے۔

دنیا کے تمام ممالک اپنی مقامی صنعت کا تحفظ کرتے ہیں اور تمام پالیسیاں ان کے بہترین مفاد میں تشکیل دی جاتی ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں صورت حال بہت مختلف ہے اور پالیسی سازملک کو ایک تجارتی ریاست بناناچاہتے ہیں، اس طرح اربوں روپے کی سرمایہ کاری کو خطرے سے دوچارکررہے ہیں، پاکستان میں امریکاکی طرز پرمقامی صنعتوں کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے جس کی ایک مثال پاکستانی مصنوعات پر امریکی ڈیوٹیوںکی بلندشرح ہے، امریکا کیوںپاکستانی ٹیکسٹائلز پر 19 فیصد ڈیوٹی نافذ کرتا ہے جبکہ اس کا اوسط ٹیرف5 فیصد کے قریب ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2011-12 میں، 55 ہزار سے زیادہ گاڑیاںپاکستان پہنچیں اور مالی سال 2012-13 میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہونے کا امکان ہے، سال 2012 کے دوران مارکیٹ میںنئی اور استعمال شدہ کاروں کے 2لاکھ 30ہزار کے قریب یونٹس مارکیٹ میں لائے گئے جو گزشتہ سال 1لاکھ 64ہزار تھے، ہر مقامی کاراپنی کل قیمت کاتقریباً33فیصدقومی خزانے میں شامل کرتی ہے جبکہ درآمدی پرانی کار سے زرمبادلہ ذخائر کو تقریباً 5ہزار ڈالر کا نقصان ہوتاہے، استعمال شدہ کاریں اسی برانڈ کی ملک میںتیار ہونے والی نئی کاروں کی نسبت بہت زیادہ مہنگی فروخت کی جا رہی ہیں۔

استعمال شدہ کاروں پر ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی شرح ان کے انجن کی استعدادکے مطابق طے کی جاتی ہے نہ کہ گاڑیوں کی قیمت کے حساب سے، چنانچہ استعمال شدہ کاروں پر نئی گاڑیوں کی نسبت کم ڈیوٹیاں عائد کی جاتی ہیں۔ انڈسٹری نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں آٹو سیکٹر کے تحفظ کیلیے نان ٹیرف رکاوٹوں کا اطلاق کیا جائے جس میں گاڑی کی رجسٹریشن ایک سال کیلیے درآمد کنندہ کے نام رہنے، دائیںہاتھ سے ڈرائیوکی شرط، اسپیڈومیٹر کاکلو میٹرفی گھنٹہ ہونا، لازمی پری شپمنٹ سرٹیفکیٹ، رجسٹریشن کیلیے ہومولوگیشن سرٹیفکیٹ اور پی ایس کیو سی اے کا اجازت نامہ لازمی قرار دیا جائے۔

آٹو انڈسٹری ماہرین کے مطابق اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو مقامی صنعت بہت سارے لوگوں کو ملازمت سے فارغ کرنے پر مجبور ہوجائیگی جو ممکنہ طور پر حکومت پاکستان کیلیے خصوصاً انتخابات والے سال کے دوران سماجی بے چینی پیداکر سکتی ہے، یہ صورتحال اس بات کی ضرروت پر زوردیتی ہے کہ حکومت فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے نئی تجارتی پالیسی میں موزوں ترامیم کے ذریعے پرانی گاڑیوں کی ملک میںبے تحاشا آمد کو روکاجائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں