پاکستان قرضوں کے جال میں کیسے پھنسا

امریکی سرکاری دستاویزات کی روشنی میں اُن حالات کا تذکرہ جو نوزائیدہ مملکت کو مقروض بنا گئے


امریکی سرکاری دستاویزات کی روشنی میں اُن حالات کا تذکرہ جو نوزائیدہ مملکت کو مقروض بنا گئے

یہ یکم ستمبر 1947ء کی سہ پہر ہے۔ عالم اسلام کی سب سے بڑی نوزائیدہ مملکت، پاکستان میں دن کے دو بجے ہیں۔

اس کے دارالحکومت کراچی میں دنیا کی ابھرتی سپرپاور، امریکا کا قونصل خانہ واقع ہے جسے سفارت خانے کا درجہ دیا جا چکا۔تاہم ابھی سفیر کا تقرر نہیں ہوا۔قونصل جنرل، چارلس لیوس (Charles W. Lewis) ہی قائم مقام سفیر کی حیثیت سے اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں۔سوا تین بجے انھیں پاکستانی وزیر خزانہ، غلام محمد کا ٹیلی فون آیا۔وہ ان سے ملاقات کرنا چاہتے تھے۔امریکی قونصل جنرل نے ہامی بھر لی۔کچھ دیر بعد وزیر خزانہ تشریف لے آئے۔

دوران ملاقات پاکستانی وزیرخزانہ نے اپنے میزبان کو بتایا''ابھی میں نے یہ معاملہ کابینہ میں نہیں رکھا۔میں صرٖٖف دوستانہ انداز میں آپ سے معلومات لینا چاہتا ہوں۔دراصل میری خواہش ہے کہ امریکا ہمیں ڈالر فراہم کر دے ۔ہم اس رقم کے ذریعے اپنے حکومتی اور عسکری اخراجات پورے کرنا چاہتے ہیں۔ہماری حکومت کے پاس نقد رقم کی شدید کمی ہے۔اگر امریکا ہمیں رقم دے سکے تو ہم شکر گذار ہوں گے۔''

یہ ایک تاریخی اور یادگار ملاقات ثابت ہوئی کیونکہ اسی کے بطن سے ایسے حالات نے جنم لیا جنھوں نے نوزائیدہ مملکت کو بالآخر قرضوں کی دلدل میں اتار دیا۔حکمران طبقے کو قرض لینے کی عادت پڑ گئی...اور اسی لت کے باعث پاکستان آج دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے خودانحصاری ،اپنے پیروں پہ کھڑے ہونے کی راہ کے بجائے قرضے لینے کا راستہ کیوں اپنایا ، اس کی داستان ڈرامائی اور حیرت انگیز ہے۔

کیا ہم امریکا کے غلام ہیں؟
سابق وزیراعظم ، عمران خان کا دعوی ہے کہ جب انھوں نے چین اور روس سے قربت بڑھائی تو یہ روش امریکی حکمران طبقے کو پسند نہ آئی۔چناں چہ اس نے بہ سرعت پاکستانی اپوزیشن کو ایک جگہ جمع کیا، پی ٹی آئی ارکان اسمبلی منحرف کرائے اور یوں ان کی حکومت ختم کر دی۔

انھوں نے پھر یہ نعرہ لگایا کہ پاکستانی قوم کو امریکا کی غلامی سے آزاد ہو جانا چاہیے۔امریکا محض ایک عالمی معاشی وعسکری طاقت نہیں بلکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی تہذیب وتمدن و ثقافت اور نظریات(West) کا راہنما بھی بن چکاہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستانی قوم واقعی امریکا یا مغربی تہذیب کی غلام بن گئی ہے؟اس دعوی میں کتنی صداقت ہے؟آئیے حقائق کی روشنی میں جواب تلاش کرتے ہیں۔

امریکا پہلی جنگ عظیم کے بعد عالمی طاقت کی حیثیت سے ابھرا۔دوسری جنگ عظیم نے اسے برطانیہ کی جگہ دنیائے مغرب کا بلاشرکت غیرے لیڈر بنا دیا۔ہندوستان پر برطانوی دوسو سال سے حکومت کر رہے تھے۔ان کی دیکھا دیکھی امریکی بھی اس اہم مملکت کے معاملات میں دخیل ہو گئے۔امریکی حکومت نے ہندوستان میں قونصل جنرل تعینات کیے جو امریکا کے تجارتی و سیاسی مفادات کا تحفظ کرتے تھے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ مشہور امریکی صدر، فرینکلن روزویلٹ ہندوستان کو آزادی دینے کا حامی تھا۔برطانوی مگر اس کی رائے مسترد کر دیتے۔مگر جرمن لیڈر، ہٹلر سے بہ مشکل جنگ جیتنے کے بعد انگریز ہندوستان کو آزاد کرنے پہ راضی ہو گئے کیونکہ اب وہ اس پہ حکومت کرنے کے قابل نہیں رہے تھے۔

قائدسے ملاقات
سرکاری دستاویزات سے عیاں ہے کہ یکم مئی 1947ء کو یعنی آزادی ِپاکستان سے قبل قائداعظم محمد علی جناح اور امریکی حکومت کے نمائندوں کے درمیان ایک دلچسپ ملاقات ہوئی جو ڈیرھ گھنٹہ جاری رہی۔ملاقات میں امریکی وزارت خارجہ کے سائوتھ ایشین افیئرز ڈویژن کا سربراہ ،ریمنڈ اے ہیر جبکہ ہندوستان میں امریکی سفارت خانے میں سیکنڈ سیکرٹری،تھامس ای وئیل موجود تھے۔

دوران ملاقات قائد نے امریکیوں کو بتایا کہ اب پاکستان کا قیام ناگزیر ہے جسے کانگریس نہیں روک سکتی۔اور یہ کہ پاکستان قائم ہونے سے ''ہندو انتہا پسندی ''مشرق وسطی کا رخ نہیں کر سکے گی۔انھوں نے سوویت یونین کے کمیونسٹ نظریات عالم اسلام کے لیے خطرہ قرار دئیے۔اور کہا کہ امریکا کو اسلامی ممالک کی مدد کرنا چاہیے تاکہ وہ کمیونزم کے خطرے کا مقابلہ کر سکیں۔

دوران ملاقات امریکی حکومت کے نمائندوں نے شکایت کی کہ مسلم لیگ کے اخبار، ڈان میں ایسے مضامین شائع ہوتے ہیں جن میں امریکی معیشت کی حاکمیت اور ڈالر کے پھیلائو کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔اس پہ قائد نے ازراہ مذاق کہا کہ بھئی ڈان کے مدیروں کو کمائی کے لیے کچھ تو کرنا پڑتا ہے۔پھر وہ کہنے لگے:''ہندوستان میں عام مسلمان امریکا کے خلاف ہیں۔اخبار انہی کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔

میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ امریکا نظریہ پاکستان کے خلاف نہیں، مگر عام ہندوستانی مسلمانوں کو یقین ہے کہ امریکی حکومت پاکستان کا قیام نہیں چاہتی۔دوسرے وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ فلسطین میں امریکی یہود کی حمایت کر رہے ہیں۔اس لیے بھی مسلمانوں میں امریکا کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔''

قائداعظم کی پیشن گوئی درست ثابت ہوئی اور 2 جون کو برطانیہ نے قیام پاکستان کا اعلان کر دیا۔14 اگست کو جب قائد نئی دہلی سے کراچی آنے لگے تو ہندوستان میں امریکا کا سفیر، ہنری گریڈی ان سے الوداعی ملاقات کرنے آیا۔

دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے۔قائد نے امریکی سفیر کو بتایا کہ وہ امریکا کو نہایت اہم ملک سمجھتے اور اس کا احترام کرتے ہیں۔انھیں امید ہے کہ امریکا پاکستان کے ان گنت مسائل دور کرنے میں ان کی مدد کرے گا۔امریکی سفیر نے جاننا چاہا کہ مدد کی نوعیت کیا ہو گی تو قائد نے فرمایا ''میں بعد میں اس بابت عرض کروں گا۔''تب قائد کامیابی پاکر بہت خوش تھے۔انھوں نے ایک گولی چلائے بغیر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت جو بنا ڈالی تھی۔

پاکستان بالکل اجنبی
قائداعظم کراچی پہنچے تو سہہ پہر کو انھیں امریکی وزیر خارجہ، جارج مارشل کا خیرمقدمی تار موصول ہوا۔اگلے دن ، امریکی صدر ہیری ٹرومین کا تار بھی قائداعظم کے نام آیا۔دونوں امریکی رہنمائوں نے نوزائیدہ مملکت کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔تاہم امریکی حکومت کے عملی اقدامات سے عیاں تھا کہ وہ پاکستان کی نسبت بھارت کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔مثلاً اس نے بھارت میں سفیر تعینات کر دیا تھا۔پاکستان میں فروری 1948ء میں کہیں جا کر سفیر تعینات ہوا۔ وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کی توجہ سوویت یونین، جاپان، مشرق وسطی اور چین پہ مرکوز تھی۔امریکی رہنما انڈیاکوتو پھر جانتے تھے، پاکستان کا نام ان کے لیے قطعاً اجنبی تھا۔

شروع سے پاکستان کے خلاف سازشیں
اُدھر قائداعظم اور ان کے ساتھیوں کو بھی یہ اندازہ نہ تھا کہ آزادی کے فورا بعد نوزائیدہ اسلامی مملکت بیک وقت کئی مسائل کا نشانہ بن جائے گی۔بنیادی وجہ یہ تھی کہ انتہا پسند ہندو رہنماوں کو پاکستان کا قیام ہضم نہیں ہو رہا تھا۔اس باعث وہ شروع دن سے پاکستان کے خلاف مختلف سازشیں اور مخالفانہ اقدامات کرنے لگے۔مقصد یہ تھا کہ پاکستانی حکومت چل نہ سکے اور پاکستان کو دوبارہ وفاق ِہند میں شامل ہونے پہ مجبور ہو جائے۔آج بھارت میں مسلم اقلیت اکثریتی ہندوئوں کے جس خوفناک ظلم وستم کا شکار ہے، اسے دیکھتے ہوئے پاکستان بنانے کا فیصلہ صائب و درست دکھائی دیتا ہے۔

آزادی کے بعد بھارت کی پہلی کابینہ میں انتہا پسند ہندو وزیر بکثرت تھے۔ان کا سرغنہ نائب وزیراعظم، سردار پٹیل تھا۔اسی نے شدت پسند سکھ لیڈروں کے ساتھ مل کر مسلم مہاجرین پہ حملے کرائے۔پاکستان کو اپنے حصّے کا جو عسکری سازوسامان اور سرمایہ ملنا تھا، وہ روک لیا۔دریائوں کا پانی روکنے کی بھی کوششیں ہوئیں۔مقصد یہ تھا کہ پاکستان کا وجود ابتداً ہی ختم کر دیا جائے۔اُدھر ہزارہا مہاجرین روزانہ پاکستان آ رہے تھے۔

انھیں سنبھالنے کی خاطر بھی کثیر وسائل درکار تھے۔اِدھر حالت یہ تھی کہ سرکاری دفاتر میں پنیں تک نہ تھیں، کانٹوں سے کام چلایا گیا۔سب سے بڑھ کر مضبوط فوج کی عدم موجودگی میں پاکستان کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہو گئے تھے۔

پاکستان لڑنے کی حیثیت میں نہ تھا
میجر جنرل فضل مقیم خان پاک بری فوج کی تاریخ پر مبنی اپنی کتاب'' اسٹوری آف دی پاکستان آرمی'' میں لکھتے ہیں:''برطانیہ، بھارت اور پاکستان کے مابین طے پایا تھا کہ برطانوی افواج کے کُل گولہ بارود اور ہتھیاروں میں سے ''ایک لاکھ ساٹھ ہزار ٹن'' پاکستان کو ملے گا۔مگر اسے صرف ''سوا تئیس ہزار ٹن'' موصول ہوا۔پاکستان کو اپنے حصے کی'' 1,461 ''عام فوجی گاڑیاں ملنی تھیں مگر صرف'' 74 ''دی گئیں۔

پاکستان کو ''249 ''ٹینک اور بکتربند گاڑیاں ملنی تھیں۔برطانیہ اور بھارت نے مگر ایک ٹینک بھی پاکستان کو فراہم نہیں کیا۔پھر جو فوجی سامان دیا گیا، وہ بھی فرسودہ اور ٹوٹا پھوٹا تھا۔ اس کے پرزہ جات بھی موجود نہ تھے۔

جن فیکٹریوں میں گولہ بارود اور دیگر اسلحہ بنتا تھا، وہ سب بھارت میں واقع تھیں۔اور ایک بھی پاکستان کے حصے میں نہیں آئی۔''قصّہ مختصر یہ کہ1947 ء میں پاکستان اس حیثیت ہی میں نہیں تھا کہ بھارت سے کوئی جنگ لڑ سکے۔

اس گھمبیر صورت حال میں برطانیہ مکمل طور پہ بھارت کی پشت پناہی کر رہا تھا۔ان دونوں طاقتوں کی آشیرباد ہی سے جموں وکشمیر کے ہندو مہاراجا نے بھارت سے الحاق کر لیا حالانکہ ریاست میں پچھتر فیصد آبادی مسلمان تھی۔ یوں دنوں پڑوسیوں کے مابین سنگین تنازع نے جنم لیا جو تاحال ختم نہیں ہو سکا۔اس کی وجہ سے پاک بھارت جنگیں بھی ہوئیں۔نیز دونوں کے درمیان اسلحے کی دوڑ بھی شروع ہو گئی۔

ایک طرف برطانیہ و بھارت مخالفت کر رہے تھے تو دوسری سمت افغانستان کی شاہی حکومت بھی پاکستان کی دوست نہ تھی۔اس نے دونوں ممالک کے درمیان بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔بلوچستان اور سرحد کے صوبوں میں مقامی سرداروں نے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر نئی حکومت کے لیے مسئلے کھڑے کر رکھے تھے۔
امریکا سے تعاون کی درخواست
گویا نوزائیدہ ملکت قیام پاتے ہی فوراً معاشی، سیاسی اور سیکورٹی کے سنگین مسائل میں گھر گئی۔چاروں طرف سے مشکلات میں گھری پاکستانی حکومت کو اندھیرے میں یہی کرن دکھائی دی کہ وہ امریکا سے معاشی و عسکری تعاون کی درخواست کردے۔

سرکاری دستاویزات کی رو سے پاکستانی حکومت میں پہلے پہل وزیر خزانہ، غلام محمد اور وزیر خارجہ ،چودھری ظفر اللہ خان نے یہ نظریہ وضع کیا کہ پاکستان کو امریکا سے مالی وعسکری مدد مانگنی چاہیے۔پاکستان کی فوج اس حالت میں نہیں تھی کہ بھارت سے جنگ چھڑ جانے پر تادیر مقابلہ کر پاتی۔اس نکتہ نظر کی بعد ازاں گورنر جنرل، قائداعظم نے بھی تائید کی کیونکہ اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

1947ء کے حالات مدنظر رکھے جائیں تو صاف نظر آتا ہے کہ پاکستانی حکومت نے امریکا سے مالی مدد لینے کا فیصلہ مجبوری کے عالم میں کیا۔تب کوئی اسلامی ملک معاشی و عسکری طور اتنا مضبوط نہیں تھا کہ پاکستان کی مالی و عسکری مدد کر دیتا۔سابق آقا ، برطانیہ اس کے حریف کی پشت پناہی کر رہا تھا۔جبکہ سوویت یونین بھی بھارتی حکومت سے زیادہ قربت رکھتا تھا۔

اس صور ت حال میں لے دے کر نوزائیدہ مملکت کے لیے یہی راستہ بچا کہ وہ سپر پاور، امریکا سے مدد کی درخواست کر دے۔ اگرچہ قائداعظم اور ان کے وزیر امریکی حکمران طبقے کی سوچ اور ذہنی ساخت سے ناواقف تھے۔امریکی اسٹیبلشمنٹ کسی کی مدد کرنے سے قبل پہلا سوال یہ کرتی تھی:'' اس عمل سے ہمیں کیا فائدہ ہو گا؟''

سویت یونین کا خطرہ
ہم قبل ازیں بتا چکے کہ امریکا سے مالی امداد لینے کا خیال سب سے پہلے وزیر خزانہ غلام محمد کو آیا۔ماہرمعاشیات ہونے کی وجہ سے وہ جانتے تھے کہ امریکا مالی ومعاشی طور پہ ایک مضبوط مملکت ہے۔اسی لیے وہ امریکی قائم مقام سفیر،چارلس لیوس سے ملے اور اپنی تمنا کا اظہار کر دیا۔ اس ملاقات کی رپورٹ چارلس لیوس نے بعد ازاں امریکی وزارت خارجہ کو بھجوائی ۔اس میں وہ لکھتا ہے:

''پاکستانی وزیر نے بتایا : پاکستان اور بھارت کی سالمیت کو کمیونسٹ روس سے خطرہ لاحق ہے۔عالم اسلام بھی اس خطرے کی زد میں ہے۔ہم ابھی روس کے عزائم سے ناوقف ہیں۔مگر روسی علاقے کا رخ کر سکتے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ ہمارا دفاع مضبوط تر رہے۔فی الوقت ہماری بری فوج 95 ہزار فوجیوں پہ مشتمل ہے۔پاکستان فضائی اور بحری افواج بھی رکھتا ہے۔ان افواج کے اخراجات نے سرکاری خزانے پہ بوجھ ڈال رکھا ہے مگر ہم انھیں کم کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔''

میر لائق علی کی امریکا روانگی
چارلس لیوس ظاہر ہے، کوئی وعدہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔اس نے غلام محمد کو بتایا کہ امریکی حکومت بیرونی حکومتوں کو اس لیے رقم نہیں دیتی کہ وہ اپنے انتظامی اخراجات پورے کر سکیں۔

اس نے پھر پاکستانی وزیر خزانہ کو تجویز دی کہ وہ اپنی مانگوں کے سلسلے میں ایک سرکاری دستاویز تیار کریں۔اور یہ دستاویز امریکا میں پاکستانی سفیر امریکی حکومت کو پیش کر دیں۔اس کے بعد امریکی حکومت کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہو گی۔مسٹر چارلس نے امریکی حکومت کو بھی آگاہ کر دیا کہ پاکستانی سفیر اپنے کاغذات نامزدگی پیش کرتے ہوئے رقم مانگنے کی دستاویز بھی پیش کر سکتے ہیں۔

حقائق سے آشکارا ہے کہ غلام محمد قائداعظم کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہے کہ امریکا سے پاکستان کو رقم مل سکتی ہے۔وجہ یہ کہ قائد نے اس ضمن میں امریکی حکومت سے گفت وشنید کرنے کی خاطر اپنے ایک دوست، میر لائق علی کو اپنا خصوصی ایلچی مقرر کر دیا۔

امریکا میں نامزد پاکستانی سفیر، ایم اے ایچ اصفہانی کو ہدایت دی گئی کہ وہ میر لائق علی کی ہر ممکن مدد کریں تاکہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو سکیں۔میر لائق کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔قائد ان پہ کافی اعتماد کرتے تھے۔وہ بعد ازاں اپنی آبائی ریاست کے وزیراعظم بھی رہے۔

امریکی چیز نیشنل بینک
8 اکتوبر 1947ء کو پاکستانی سفیر نے اپنی سفارتی اسناد امریکی صدر، ٹرومین کو پیش کیں۔اس موقع پہ صدر نے کہا:''ہم پاکستان کی ہر ممکن مدد کریں گے۔''اس بات سے پاکستانی وفد کو حوصلہ ملا۔اس دوران لائق علی امریکا پہنچ چکے تھے۔

غلام محمد نے فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان امریکی بینک، چیز نیشنل بینک کی خدمات حاصل کر لے۔مقصد یہ تھا کہ امریکی حکومت سے رقم دلوانے میں بینک پاکستانی وفد کی مدد کر سکے۔تاہم بینک کے سربراہ نے لائق علی کو بتایا کہ وزارت خارجہ کی منظوری کے بعد ہی بینک پاکستان کے لیے ''لابی''کر سکتا ہے۔

تقریباً دو ارب ڈالر درکار
18 اکتوبر کو لائق علی کی امریکی وزارت خارجہ کے اعلی افسروں ، ولارڈ تھورپ،رائے تھرسٹن اور دو دیگر افراد سے ملاقات ہوئی۔ اس موقع پہ پاکستانی ایلچی نے بتایا کہ پاکستان امریکا سے تقریباً دو ارب ڈالر کا قرضہ لینا چاہتا ہے۔یہ رقم پانچ سال کے عرصے میں کچھ یوں خرچ کی جانی تھی:ستر کروڑ ڈالر صنعت وتجارت کی ترقی پہ لگتے۔ستر کروڑ ڈالر سے زراعت بہتر بنائی جاتی۔جبکہ اکیاون کروڑ ڈالر دفاع پہ خرچ ہونے تھے۔اس رقم سے اسلحہ بنانے والے کارخانے لگتے اور افواج کو جدید ہتھیاروں سے لیس کیا جاتا۔

بھارتی مورخین نے تو اپنی کتاب میں قرضے کی اس درخواست کا ذکر کرتے ہوئے طنزیہ لکھا ہے کہ یوں پاکستان نے قیام کے فوراً بعد امریکا کی غلامی قبول کر لی۔تاہم یہ بات درست نہیں...بھارت اور برطانیہ نے مل کر پاکستان کے لیے خصوصاً عسکری و معاشی طور پہ حالات اتنے گھمبیر بنا دئیے کہ اسے مجبورا ً قرضہ مانگنے امریکی حکومت کے دوارے جانا پڑ گیا۔

پہلے صرف پنکھے ملے
اس زمانے میں دو ارب ڈالر کا قرضہ بہت بڑا تھا۔اتنی رقم تو امریکا نے اسرائیل کو بھی فراہم نہیں کی تھی۔پاکستان تو امریکی حکمران طبقے کی فہرستِ ترجیحات میں بہت نیچے آتا تھا۔اسی لیے اس نے قرضہ دینے سے معذرت کر لی۔پاکستانی حکومت نے بہت کوشش کی کہ چند کروڑ ڈالر کا قرضہ ہی مل جائے مگر اس مشن میں بھی اسے ناکامی ہوئی۔پاکستانی وزیرخزانہ ،غلام محمد نے سرتوڑ کوشش کی کہ صدر ٹرومین سے ملاقات کا انھیں وقت مل جائے۔موصوف کو یقین تھا کہ ایک بار ملاقات ہو گئی تو وہ صدر امریکا کو قرضہ دینے پر رضامند کر لیں گے۔مگر ساری بھاگ دوڑ کا نتیجہ صرف یہ نکلا کہ امریکی حکومت نے حکومت پاکستان کو چار جدید پنکھے بطور تحفہ عطا کیے۔یہ پنکھے گورنر جنرل کے دفتر میں لگائے جانے تھے۔

آخر قرض مل گیا
امریکی وزارت خارجہ کے شرق اوسط ڈویژن کے تمام افسر سمجھتے تھے، نوزائیدہ ملک، پاکستان چاہتا ہے کہ امریکا اسے اسلحہ فراہم کرے تاکہ وہ عسکری طور پہ مضبوط ہو سکے۔مگر صورت حال کے مطابق ایسا نہیں ہو سکتا تھا۔اس لیے امریکی حکومت نے چند ہزار ڈالر دینے سے بھی معذرت کر لی۔سرکاری جواب یہ تھا کہ پاکستان کو قرض دینے کی خاطر فنڈز موجود نہیں۔میر لائق علی مایوس نہیں ہوئے اور انھوں نے قرضہ لینے کی جدوجہد جاری رکھی۔اس دوران جموں وکشمیر میں پاک بھارت جنگ شروع ہو گئی۔

30 اکتوبر 1947ء کو میر لائق دوبارہ امریکی وزارت خارجہ کے اعلی افسروں سے ملے۔انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں تیس لاکھ مہاجرین بھارت سے ہجرت کر کے آ چکے۔ان مہاجرین کے اخراجات کی خاطر پاکستان کو ساڑھے چار کروڑ ڈالر کا قرض فوری طور پہ درکار تھا۔امریکی افسروں نے یہی راگ الاپا کہ حکومت کے پاس فنڈز نہیں۔تاہم انھوں نے اندھیرے میں یہ کرن ضرور دکھائی کہ امریکی حکومت کچھ رقم بطور قرض پاکستان کو فراہم کر سکتی ہے تاکہ وہ امریکی محکمے ، وار ایسیسٹس ایڈمنسٹریشن(War Assets Administration) سے ادویہ، کمبل اور مہاجرین کو درکار دیگر سامان خرید سکے۔یہ حملہ امریکا نے جنگ عظیم دوم کے فالتو سامان کو ٹھکانے لگانے کی خاطر قائم کیا تھا۔

کراچی میں وزیر خزانہ غلام محمد نے بیچارے قائم مقام امریکی سفیر پہ یہ شدید دبائو ڈال رکھا تھا کہ وہ اپنی حکومت سے پاکستان کو قرضہ لے کر دے۔چارلس لیوس کی کوششیں آخر رنگ لائیں اور امریکی وزارت خارجہ نے محکمہ وار ایسیسٹس ایڈمنسٹریشن سے ایک کروڑ ڈالر قرضہ پاکستان کو دینے کی منظوری دے دی۔

وار ایسیسٹس ایڈمنسٹریشن محکمے کا سربراہ، میجر جنرل جیس لارسن مگر کسی اور ملک کو اپنے کلائنٹس میں شامل کرنے کو تیار نہ تھا۔اس نے خاصی ہچرمچر کے بعد اپنی وزارت خارجہ کو بتایا کہ وہ پاکستان کو بیس لاکھ ڈالر ہی دے سکتا ہے۔جب وزارت خارجہ نے دبائو ڈالا تو یہ رقم پچاس لاکھ ڈالر ہو گئی۔وزارت کے اعلی افسروں کی مداخلت کے بعد ہی وہ پاکستان کے لیے مطلوبہ رقم حاصل کر سکی۔اس طرح پاکستان کو امریکا سے پہلا قرضہ مل گیا جو ایک کروڑ ڈالر پہ مشتمل تھا۔اس زمانے میں ایک امریکی ڈالر تین روپے اکتیس پیسے میں ملتا تھا۔گویا پاکستان کو امریکی حکومت سے تین کروڑ اکتیس لاکھ روپے ملے جو مختلف مد میں خرچ ہوئے۔

برابری سے غلامی تک
درج بالا حقائق سے آشکارا ہے کہ آزادی کے فوراً بعد جلد پاکستانی لیڈروں نے بہ حالت مجبوری معاشی و عسکری لحاظ سے طاقتور ملک، امریکا سے رابطہ کر لیا تھا تاکہ وہ پاکستان کو سرمایہ و اسلحہ فراہم کر کے اسے زیادہ قوی پڑوسی، بھارت کا مقابلہ کرنے کے قابل بنا سکے۔امریکی حکمران طبقے نے شروع میں پاکستان کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ مگر پھر بھارت اور چین میں سوویت یونین کے بڑھتے اثرورسوخ نے اسے اکسا دیا کہ وہ پاکستان کو رقم و اسلحہ دے کر جغرافیائی و تزویراتی لحاظ سے اہم اس مملکت کو اپنے حلقہ اثر میں لے آئے۔

اوائل میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات برابری کی سطح پہ استوار رہے مگر رفتہ رفتہ پاکستانی حکمران طبقہ زیادہ سے زیادہ ڈالر پانے کی ہوس میں امریکی حکمران طبقے کی بوٹ پالش بھی کرنے لگا۔بس اسی وقت سے امریکی بھی پاکستان کو اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر استعمال کرنے لگے۔حتی کہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصّہ لے کر پاکستان کو بہت جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔

یہی نہیں قومی معیشت کو ڈالر کے قرضوں پہ استوار کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پاکستان باون ہزار ارب روپے سے زائد رقم کا مقروض دیس بن چکا۔ڈالروں میں یہ رقم تقریباً دو سو اسّی ارب ڈالر بنتی ہے۔بیشتر قرضے ایسے ملکی وغیر ملکی مالیاتی اداروں کے ہیں جن میں امریکی و دیگر مغربی ممالک کا اثرورسوخ ہے۔ پاکستانی حکمران طبقے کی ڈالر کو آقا بنا لینے کی روش کے باعث آج ہر پاکستانی بچہ پیدا ہوتے ہی ڈھائی لاکھ روپے کا مقروض بن جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا کبھی ہمارے حکمران ڈالر کی غلامی کا طوق اپنے اور اپنی قوم کے گلے سے اتار پائیں گے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں