مایوسی کفر ہے
روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو کوئی فروغ حاصل ہوسکتا ہے تو یہ ایک اور نیک شگون ہوگا
کراچی:
بانیان پاکستان کی ملک عدم روانگی کے بعد سے وطن عزیز سیاسی اتھل پتھل کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے اور حالت یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کے بعد آزاد ہونے والے دنیا کے کئی ممالک ترقی کی دوڑ میں ہم سے کہیں آگے نکل گئے ہیں جن میں چین سب سے زیادہ قابل ذکر ہے۔
چینی قوم جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ قوم نشہ میں پڑی ہوئی ہے اور یہ آگے نہیں بڑھ سکتی ، اس نے زبردست ترقی کرکے پوری دنیا کو حیران کردیا ہے اور آج چین ترقی یافتہ ممالک کے صف اول میں کھڑاہے۔ امریکا جیسی سپر پاور آج چین کی طرف قابل رشک نظروں سے دیکھتی ہے اور اس کی قوت کا لوہا مانتی ہے۔ آبادی میں تیز رفتار اضافہ جو چین کا سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ ہوا کرتا تھا۔
آج اس کی قوت کا سر چشمہ ہے۔ چین کی اس مثالی ترقی کا راز یہ ہے کہ اسے مخلص اور اہل قیادت میسر آگئی جس کی محنت اور بہترین منصوبہ بندی نے دیکھتے ہی دیکھتے اس کی کایا پلٹ دی۔ چین کی یہ خوش قسمتی تھی کہ اسے ماؤزے تنگ اور چو این لائی کے جیسے سادہ اور انتہائی مخلص لیڈر میسر آگئے جن کا مقصد حیات ہی وطن کی خدمت تھا۔ یہ دونوں قائدین نہ صرف انتہائی دور اندیش ، جفاکش ، مخلص اور لائق و فائق تھے بلکہ سادہ زندگی اور بلند خیالات کے مینار تھے۔
وزیر اعظم چو این لائی اپنے گھر سے دفتر تک سائیکل پر آیا جایا کرتے تھے۔ ان کی کوئی ذاتی زمین تھی نہ جائیداد نہ اثاثے نہ محل اور نہ کوئی کاروبار۔ سرکاری مراعات اور اپنے عہدہ سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا بھی کوئی تصور نہیں تھا۔
ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ یہ کہ ملک و قوم کی خدمت۔ چینی جو کبھی افیونی کے نام سے مشہور تھے اپنے قائدین کے نقش قدم پر گامزن ہوکر شاہراہ ترقی پر نکل پڑے تو انھوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور یہ سلسلہ بدستور جاری و ساری ہے بلکہ اس کی رفتار میں تیزی پر تیزی آرہی ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج کا چین ایک بالکل بدلا ہوا چین ہے جس کی دھاک پوری دنیا پر چھائی ہوئی ہے اور جس کی معیشت کے آگے امریکی معیشت بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نظر آتی ہے۔
چین کی اس مثالی پیش رفت سے بھارت بھی خوفزدہ ہے اور اس کے حوصلے بھی پست ہوگئے ہیں۔ چین کے ساتھ روس کی بڑھتی ہوئی قوت نے دیوار چین کو نہ صرف اور بھی مضبوط بنادیا ہے بلکہ یہ ناقابل تسخیر ہوگئی ہے۔ اب بھارت کی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ چین کی جانب میلی آنکھ اٹھا کر دیکھ بھی سکے۔ اس صورتحال نے اس خطہ کی کایا ہی پلٹ دی ہے اور بھارت کے جارحانہ عزائم کو بری طرح ناکام کردیا ہے۔
جہاں تک چین کا تعلق ہے پاکستان کے ساتھ اس کی دوستی نہ صرف حکومتی بلکہ عوامی سطح پر ہے جس پر کوئی حکومتی تبدیلی نہ تو اب تک کبھی اثرانداز ہوئی ہے اور نہ ہی مستقبل میں ایسا کوئی امکان باقی ہے۔ بلاشبہ یہ دوستی پہاڑوں سے بلند اور سمندروں سے گہری ہے اور وقت اس کی تائید کر چکا ہے۔
ہمیں وہ وقت یاد ہے کہ جب چین کے وزیر اعظم چو این لائی کے دورہ بھارت کے موقع پر بھارت کی راج دھانی دلی میں ایک جشن کا سا سماں تھا اور پورا شہر ، بھارت اور چین کے جھنڈوں اور جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا۔
ہماری آنکھوں میں وہ منظر بھی محفوظ ہے جب دلی کے وسیع و عریض میدان رام لیلا گراؤنڈ میں ایک بلند و بالا اسٹیج پر بھارت کے آنجہانی پردھان منتری پنڈت جواہر لعل نہرو اپنے دونوں ہاتھ جوڑے ہوئے چینی وزیر اعظم کا سواگت کر رہے تھے اور پھر اس کے بعد دونوں نے ایک زبردست معانقہ کیا تھا۔ اس وقت فضائیں ہندی چینی بھائی بھائی کے فلک شگاف نعروں سے گونج رہی تھی۔ اس وقت یہ کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ ہوا کا رخ بالکل ہی پلٹ جائے گا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ بھارت اور چین کی جنگ ہوگئی ۔
اس وقت پاکستانی حکومت نے انتہائی دور اندیشی اور برجستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر چین کے ساتھ اپنے تمام سرحدی معاملات نہایت خوش اسلوبی سے طے کرکے پاک چین دوستی کی بنیاد رکھ دی۔ یہ دوستی پروان چڑھتے چڑھتے اب سی پیک کے حوالے سے ایک اٹوٹ بندھن میں بن کر مضبوط ہوچکی ہے۔
حکومت خواہ کوئی بھی ہو اور کسی کی بھی ہو دونوں ممالک کے درمیان یہ اٹوٹ رشتہ نہ صرف برقرار رہے گا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوگا۔
مزید برآں اگر روس کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات کو کوئی فروغ حاصل ہوسکتا ہے تو یہ ایک اور نیک شگون ہوگا۔ پاک روس تعاون سے پاکستان کو سستا تیل اور گیس درآمد کرکے بہت زیادہ فائدہ حاصل ہوگا جس سے پاکستان کے انرجی کے شعبہ کو بڑی تقویت حاصل ہوگی جس کے نتیجہ میں پاکستانی معیشت کے خسارے میں کافی کمی ہوگی اور اس کے مالیاتی مسائل کم ہوں گے اور دوسری جانب اس کے وسائل بڑھتے جائیں گے۔ اس کے نتیجہ میں پاکستان کے معاشی حالات بہتر سے بہتر ہوںگے اور یہ ملک پستی سے نکل کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگا۔ مایوسی کفر ہے۔