کراچی میں منشیات کی وبا
سندھ حکومت منشیات کے استعمال کو روکنے کے لیے آہنی ہاتھ استعمال کرے
کراچی:
اقوام متحدہ ، انسداد منشیات کے اداروں کی رپورٹ کے مطابق جنوب مشرق ایشیا کے ممالک میں منشیات کی پیداوار میں اضافہ ہورہا ہے اور بہت سے ممالک میں منشیات کا استعمال بڑھ گیا ہے۔
پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے اور شہروں کے علاوہ مضافاتی بستیوں، دیہاتوں میں بھی منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق نئی نسل میں بھی منشیات کا استعمال تیزی سے بڑھا ہے۔
کراچی میں بھی منشیات کھلے عام فروخت ہورہی ہے متعلقہ سرکاری ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں یہ تشویشناک صورتحال ہے۔ شہر کے گنجان آبادی کے علاقوں کی شاہراہوں کے فٹ پاتھوں پر منشیات استعمال کرنے والے افراد کا ہجوم رہتا ہے۔ فلاحی ادارے زکوٰۃ، فطرہ اور چندوں کے ذریعے لوگوں کو مفت کھانا فراہم کرتے ہیں، منشیات استعمال کرنے والے افراد کا ہجوم مفت کھانا فراہم کرنے والے اداروں کے مراکز پر نظر آتا ہے۔
اس طرح خالصتاً فلاحی مقاصد کے لیے مفت کھانے کی تقسیم کے عمل میں بھی منشیات استعمال کرنے والے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ انگریزوں کے دور میں افیون کی تجارت کی قانونی اجازت دی گئی تھی اور پاکستان کی تشکیل کے بعد بھی افیون کی تجارت کی اجازت تھی اور شہروں میں دکانوں پر کھلے عام افیون بیچی جاتی تھی۔ 1960 میں ایوب خان کے دور میں افیون کی تجارت پر پابندی عائد کردی گئی تھی لیکن افیون،چرس،کوکین، پیتھولین،میری جوانا سمیت مختلف منشیات کا استعمال بڑھتا گیا اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں منشیات کا استعمال پورے ملک میں پھیل گیا۔
ہیروئن کلچر کے اثرات ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیلے ہیں اور ہیروئن کی اسمگلنگ عروج پر رہی ہے۔ جب سپریم کورٹ نے کراچی کی صورتحال کے متعلق سوموٹو ایکشن ستمبر 2011 میں لیا تھا تو ایک تنظیم کی طرف سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست داخل کی گئی تھی اس تنظیم کی طرف سے داخل کیے گئے، بیان حلفی میں کہا گیا تھا کہ کراچی کے امن وامان کی تباہی و بربادی کے عوامل میں سے ایک بڑا عنصر منشیات فروش گروہ بھی ہے۔
کراچی میں اس دھندے کی بین الاقوامی حیثیت بھی ہے اس لیے اس میں اعلیٰ و ادنیٰ سرکاری عہدیداروں کے علاوہ سیاسی اور سماجی شخصیات بھی ملوث ہیں، جس کی وجہ سے منشیات فروشوں کے خلاف ہونے والی پولیس کارروائی کا رخ بدلنے کے لیے کراچی میں لسانی، سیاسی اور فرقہ وارانہ فسادات کرائے جاتے ہیں۔ کراچی میں منشیات کے استعمال میں اضافے کی روک تھام ازحد ضروری ہے اس کے لیے حکومت کے متعلقہ اداروں کو لائحہ عمل طے کرنا چاہیے اور منشیات کے استعمال کرنے والوں کے علاج و معالجے کا بندوبست کرنا ضروری ہے۔
جس طرح شہر کی اہم شاہراہوں پر منشیات کے استعمال کرنے والوں کا ہجوم نظر آتا ہے اس سے جہاں قانون شکنی کے مناظر ظاہر ہوتے ہیں وہاں منشیات استعمال کرنے والے دیدہ دلیری سے اپنی غیر قانونی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں اور عام شہریوں کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں۔
کراچی کی مضافاتی بستیوں میں بھی منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے پولیس اور انسداد منشیات کے دیگر ادارے اپنے فرائض سے غفلت روا رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے منشیات کی غیر قانونی فروخت بڑھ رہی ہے بعض فلاحی اداروں نے ایسے مراکز قائم کر رکھے ہیں جہاں منشیات استعمال کرنے والوں کو نہ صرف رکھا جاتا ہے بلکہ ان کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔
یہ فلاحی ادارے منشیات کے استعمال کرنے والوں کی تربیت پر بھی توجہ دیتے ہیں۔ کراچی میں کئی اسپتال منشیات کے استعمال کرنیوالوں کے علاج کے لیے مشہور ہیں لیکن اس کے باوجود بھی منشیات کے استعمال کرنیوالے شہر کی مصروف ترین شاہراہوں پر نظر آتے ہیں اور دیدہ دلیری سے منشیات کے استعمال کے رجحانات بڑھتے جارہے ہیں اور انسداد منشیات کے ادارے اپنی ذمے داریاں ادا کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
انسانی حقوق کے ادارے سماجی اور فلاحی تنظیموں کی ذمے داری ہے کہ وہ منشیات کے استعمال کرنے والوں کو معاشرے کا ذمے دار فرد بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور انھیں قانون کا پابند شہری بنائیں۔ اس طرح حکومت کے انسداد منشیات کے اداروں، محکموں کا بھی فرض ہے کہ وہ منشیات کے استعمال کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کریں اور منشیات فروشی کے کاروبار کو ختم کرائیں۔
حکومت کے مسلسل دعوؤں اور اعداد و شمار پیش کرنے کے باوجود ایسا نہیں ہورہا ہے اور منشیات کی نہ صرف تجارت بڑھ رہی ہے بلکہ منشیات کی پیداوار میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ منشیات کا استعمال قانوناً جرم ہے اور منشیات کو فروخت کرنے اور اس کے پھیلاؤ کے ذمے دار بھی سخت ترین سزا کے مستحق ہیں۔ کراچی میں منشیات کے مراکز کو ختم کرنے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے اور متعلقہ اداروں کو اس سلسلے میں فوری لائحہ عمل طے کرنا چاہیے جو ان کے فرائض منصبی میں بھی شامل ہے۔ پاکستان کے قیام سے پہلے سر غلام حسین ہدایت اللہ کی حکومت نے کراچی میں چرس کے استعمال پر پابندی عائد کردی تھی اور اس پابندی کے حکم پر عملدرآمد بھی کرایا گیا تھا، جس کے نتیجے میں چرس کا استعمال رُک گیا تھا۔
سر غلام حسین ہدایت اللہ کی حکومت کی طرف سے چرس کی پابندی کے خلاف سخت احتجاج کیا گیا تھا اور کراچی کے منگھوپیر کے چرس پینے والے افراد کی طرف سے قائداعظم کے نام باقاعدہ ایک خط بھیجا گیا تھا جس میں ان چرسیوں نے قائداعظم کو لکھا تھا کہ سر غلام حسین ہدایت اللہ کی حکومت نے چرس پر پابندی لگادی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اب ہمیں گانجا پینا پڑرہا ہے اور یہ ہمارے ساتھ بڑی زیادتی ہے کہ ہم کو قانوناً مجبور کیا جائے کہ ہم ایسا نشہ کریں جو ہمارے شایان شان نہیں ہے۔ چنانچہ آپ قائداعظم ہیں آپ سر غلام حسین ہدایت اللہ کو تنبیہ کریں کہ وہ اپنے سیاسی اقتدار کا غلط استعمال نہ کریں اور چرس کی فروخت کو بلاتاخیر بحال کرائیں قائداعظم یہ خط پڑھ کر مسکرادیے تھے۔
موجودہ سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ سر غلام حسین ہدایت اللہ کی حکومت کی طرح سندھ میں منشیات کے استعمال کو روکنے کے لیے آہنی ہاتھ استعمال کرے اور ہر قسم کے نشے پر پابندی عائد کی جائے اور منشیات فروشوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
اقوام متحدہ ، انسداد منشیات کے اداروں کی رپورٹ کے مطابق جنوب مشرق ایشیا کے ممالک میں منشیات کی پیداوار میں اضافہ ہورہا ہے اور بہت سے ممالک میں منشیات کا استعمال بڑھ گیا ہے۔
پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے اور شہروں کے علاوہ مضافاتی بستیوں، دیہاتوں میں بھی منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق نئی نسل میں بھی منشیات کا استعمال تیزی سے بڑھا ہے۔
کراچی میں بھی منشیات کھلے عام فروخت ہورہی ہے متعلقہ سرکاری ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں یہ تشویشناک صورتحال ہے۔ شہر کے گنجان آبادی کے علاقوں کی شاہراہوں کے فٹ پاتھوں پر منشیات استعمال کرنے والے افراد کا ہجوم رہتا ہے۔ فلاحی ادارے زکوٰۃ، فطرہ اور چندوں کے ذریعے لوگوں کو مفت کھانا فراہم کرتے ہیں، منشیات استعمال کرنے والے افراد کا ہجوم مفت کھانا فراہم کرنے والے اداروں کے مراکز پر نظر آتا ہے۔
اس طرح خالصتاً فلاحی مقاصد کے لیے مفت کھانے کی تقسیم کے عمل میں بھی منشیات استعمال کرنے والے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ انگریزوں کے دور میں افیون کی تجارت کی قانونی اجازت دی گئی تھی اور پاکستان کی تشکیل کے بعد بھی افیون کی تجارت کی اجازت تھی اور شہروں میں دکانوں پر کھلے عام افیون بیچی جاتی تھی۔ 1960 میں ایوب خان کے دور میں افیون کی تجارت پر پابندی عائد کردی گئی تھی لیکن افیون،چرس،کوکین، پیتھولین،میری جوانا سمیت مختلف منشیات کا استعمال بڑھتا گیا اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں منشیات کا استعمال پورے ملک میں پھیل گیا۔
ہیروئن کلچر کے اثرات ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیلے ہیں اور ہیروئن کی اسمگلنگ عروج پر رہی ہے۔ جب سپریم کورٹ نے کراچی کی صورتحال کے متعلق سوموٹو ایکشن ستمبر 2011 میں لیا تھا تو ایک تنظیم کی طرف سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست داخل کی گئی تھی اس تنظیم کی طرف سے داخل کیے گئے، بیان حلفی میں کہا گیا تھا کہ کراچی کے امن وامان کی تباہی و بربادی کے عوامل میں سے ایک بڑا عنصر منشیات فروش گروہ بھی ہے۔
کراچی میں اس دھندے کی بین الاقوامی حیثیت بھی ہے اس لیے اس میں اعلیٰ و ادنیٰ سرکاری عہدیداروں کے علاوہ سیاسی اور سماجی شخصیات بھی ملوث ہیں، جس کی وجہ سے منشیات فروشوں کے خلاف ہونے والی پولیس کارروائی کا رخ بدلنے کے لیے کراچی میں لسانی، سیاسی اور فرقہ وارانہ فسادات کرائے جاتے ہیں۔ کراچی میں منشیات کے استعمال میں اضافے کی روک تھام ازحد ضروری ہے اس کے لیے حکومت کے متعلقہ اداروں کو لائحہ عمل طے کرنا چاہیے اور منشیات کے استعمال کرنے والوں کے علاج و معالجے کا بندوبست کرنا ضروری ہے۔
جس طرح شہر کی اہم شاہراہوں پر منشیات کے استعمال کرنے والوں کا ہجوم نظر آتا ہے اس سے جہاں قانون شکنی کے مناظر ظاہر ہوتے ہیں وہاں منشیات استعمال کرنے والے دیدہ دلیری سے اپنی غیر قانونی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں اور عام شہریوں کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں۔
کراچی کی مضافاتی بستیوں میں بھی منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے پولیس اور انسداد منشیات کے دیگر ادارے اپنے فرائض سے غفلت روا رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے منشیات کی غیر قانونی فروخت بڑھ رہی ہے بعض فلاحی اداروں نے ایسے مراکز قائم کر رکھے ہیں جہاں منشیات استعمال کرنے والوں کو نہ صرف رکھا جاتا ہے بلکہ ان کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔
یہ فلاحی ادارے منشیات کے استعمال کرنے والوں کی تربیت پر بھی توجہ دیتے ہیں۔ کراچی میں کئی اسپتال منشیات کے استعمال کرنیوالوں کے علاج کے لیے مشہور ہیں لیکن اس کے باوجود بھی منشیات کے استعمال کرنیوالے شہر کی مصروف ترین شاہراہوں پر نظر آتے ہیں اور دیدہ دلیری سے منشیات کے استعمال کے رجحانات بڑھتے جارہے ہیں اور انسداد منشیات کے ادارے اپنی ذمے داریاں ادا کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
انسانی حقوق کے ادارے سماجی اور فلاحی تنظیموں کی ذمے داری ہے کہ وہ منشیات کے استعمال کرنے والوں کو معاشرے کا ذمے دار فرد بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور انھیں قانون کا پابند شہری بنائیں۔ اس طرح حکومت کے انسداد منشیات کے اداروں، محکموں کا بھی فرض ہے کہ وہ منشیات کے استعمال کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کریں اور منشیات فروشی کے کاروبار کو ختم کرائیں۔
حکومت کے مسلسل دعوؤں اور اعداد و شمار پیش کرنے کے باوجود ایسا نہیں ہورہا ہے اور منشیات کی نہ صرف تجارت بڑھ رہی ہے بلکہ منشیات کی پیداوار میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ منشیات کا استعمال قانوناً جرم ہے اور منشیات کو فروخت کرنے اور اس کے پھیلاؤ کے ذمے دار بھی سخت ترین سزا کے مستحق ہیں۔ کراچی میں منشیات کے مراکز کو ختم کرنے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے اور متعلقہ اداروں کو اس سلسلے میں فوری لائحہ عمل طے کرنا چاہیے جو ان کے فرائض منصبی میں بھی شامل ہے۔ پاکستان کے قیام سے پہلے سر غلام حسین ہدایت اللہ کی حکومت نے کراچی میں چرس کے استعمال پر پابندی عائد کردی تھی اور اس پابندی کے حکم پر عملدرآمد بھی کرایا گیا تھا، جس کے نتیجے میں چرس کا استعمال رُک گیا تھا۔
سر غلام حسین ہدایت اللہ کی حکومت کی طرف سے چرس کی پابندی کے خلاف سخت احتجاج کیا گیا تھا اور کراچی کے منگھوپیر کے چرس پینے والے افراد کی طرف سے قائداعظم کے نام باقاعدہ ایک خط بھیجا گیا تھا جس میں ان چرسیوں نے قائداعظم کو لکھا تھا کہ سر غلام حسین ہدایت اللہ کی حکومت نے چرس پر پابندی لگادی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اب ہمیں گانجا پینا پڑرہا ہے اور یہ ہمارے ساتھ بڑی زیادتی ہے کہ ہم کو قانوناً مجبور کیا جائے کہ ہم ایسا نشہ کریں جو ہمارے شایان شان نہیں ہے۔ چنانچہ آپ قائداعظم ہیں آپ سر غلام حسین ہدایت اللہ کو تنبیہ کریں کہ وہ اپنے سیاسی اقتدار کا غلط استعمال نہ کریں اور چرس کی فروخت کو بلاتاخیر بحال کرائیں قائداعظم یہ خط پڑھ کر مسکرادیے تھے۔
موجودہ سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ سر غلام حسین ہدایت اللہ کی حکومت کی طرح سندھ میں منشیات کے استعمال کو روکنے کے لیے آہنی ہاتھ استعمال کرے اور ہر قسم کے نشے پر پابندی عائد کی جائے اور منشیات فروشوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔