یاور مہدی نئی نسل کو سنوارنے والے
خوش بخت شجاعت نے ہمیشہ اپنے یاور بھائی کا بہت احترام کیا
شہرقائد کی ایک نامور اور متحرک شخصیت سید یاور مہدی مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئے، یہ خبر سنی تو مجھ جیسے بے شمار ان کے مداحوں اور شاگردوں کے دل افسردگی میں ڈوب گئے ۔ 1962 سے ریڈیو پاکستان کراچی کے پروگراموں میں جان ڈالنے والے ،نئی نسل کو بزم طلبہ میں متعارف کرانیوالے اور ان کی رہنمائی کرنیوالے ، ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے والے سید یاور مہدی المعروف جگت یاور بھائی تھے۔
ریڈیو کے کامیاب پروگراموں میں بزم طلبہ ، ہفتہ طلبہ اور جشن طلبہ ان کے کریڈٹ پر کامیاب ترین پروگرام ہیں جو انھوں نے بہت دلچسپی، لگن اور محنت کے ساتھ کیے، ان کامیاب پروگراموں کی وجہ سے بھی انھوں نے نا صرف کراچی کے تعلیمی اداروں بلکہ جوانوں میں بھرپور شہرت اور پسندیدگی کی سند حاصل کی۔
باحیثیت پروڈیوسر بزم طلبہ سے انھوں نے ہر مکتبہ فکر کے نوجوانوں کی ایک بڑی کھیپ تیار کی، یہ انمول ہیرے جب یاور بھائی کی سرکردگی میں ریڈیو سے کندن بن کر نکلے تو اس زمانے میں پی ٹی وی کی نئی نشریات شروع ہوئی تھیں، پی ٹی وی کو ریڈیو سے نکلے ہوئے یہ با صلاحیت اور منجھے منجھائے لڑکے لڑکیاںمل گئے جنہوں نے آگے چل کر پی ٹی وی میں اپنی صلاحیتوں کے بہت جوہر دکھائے اور شہرت حاصل کی ،جب یاور بھائی ریڈیو پر نئی نسل اور بڑی کھیپ کے آبیاری کر چکے تو اس وقت آرٹس کونسل کراچی ویران جنگل کا نظارہ پیش کر رہا تھا۔
1985 میں انھوں نے آرٹس کونسل کراچی میں جان ڈالنے کا بیڑہ اٹھایا، نئی ممبر سازی بھی کی اور ممبران کے لیے اچھے اور معیاری پروگرامز کا اجراء کیا ،باقاعدہ الیکشن ہونے لگے، کمیٹیاں بننے لگیں۔یاور بھائی ہمیشہ دو باتوں میں بہت اصولوں کے پکے تھے ، کوئی آئے یا نا آئے ٹھیک 4 بجے شام پروگرام شروع کروادیا کرتے تھے ، کولڈ ڈرنک یا چائے بسکٹ پیش کردیا کرتے تھے ، ان کی بنائی ہوئی تمام کمیٹیاں منظم انداز میں پروگرام وقت پر ختم کرتی تھیں ، رات گیارہ بجے تک لوگ اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تھے ، اس وقت آرٹس کونسل کو سرکاری گرانٹ بھی نہ ہونے کے برابر ملتی تھی ،ترقیاتی کام بھی اپنی جگہ اٹکے ہوئے ہوتے تھے ، یہ سچ ہے کہ یاور مہدی نے ایک مردہ روح میں جان پھونکی اور اسے بہت کامیابی اور دیانت داری سے چلایا ۔
شہر قائد کے اس عظیم فرزند نے نہ صرف ریڈیو بلکہ معمار آرٹس کونسل کے ناتے بے شمار طویل اور لازوال خدمات سر انجام دیں ، بے شمار نوجوانوں کی صلاحیتوں کو نکھار کر معاشرے میں نمایاں ہونے کا اور اپنی پرفارمنس دکھانے کا موقع فراہم کیا ،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت سندھ کی جانب سے وفاق کو فائل بھیجی جاتی کہ بلا شبہ یاور بھائی ''رہ امتیاز یا پھر تمغہ حسن کارکردگی'' کے حقدار ہیں ، انھیں حکومت کی جانب سے تعریفی کلمات سے نوازا جاتا مگر افسوس کے ان کو ملنے والا یہ اعزاز بھی سرد خانے کا شکار رہا اور کسی اہل دانش یا اہل فکر کی نظر ان پر نہ پڑی اور زندگی میں وہ اس اعزاز سے محروم رہے۔
یاور بھائی ایک مجلسی آدمی تھے اپنے قبیلے کے لوگوں میں رہنا اور ان سے ملنا پسند کرتے تھے کسی غمی یا خوشی کی خبر سنتے تو سب سے پہلے وہاں موجود ہوتے ، غم کی خبر میں وہ پوری طرح شریک ہوتے اور دلجوئی کرتے اور خوشی کی خبر میں پھلوں کا گلدستہ اور مٹھائی لے کر فوراً پہنچتے تھے ، اپنی زندگی کے آخری سالوں میں انھوں نے مختلف کلب اور مقامات پر بیرون ملک سے آئے ہوئے، اپنے شاگردوں کی پذیرائی کا سلسلہ شروع کیا۔
ہ ایک طرح کی میل ملاپ کی محفل ہوتی تھی بہترین ڈنر اور شاندار پذیرائی یاور بھائی کا وہاں بیٹھنا ،دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا ۔ احباب کے مجبور کرنے پر انھوں نے ان محفلوں کو'' بزم یاور مہدی'' کے نام سے منسوب کیا ، ان ساری تقریبات کے اخراجات امریکا میں مقیم ان کے لائق اور فائق بیٹے بدر مہدی اور ظفر مہدی پورا کرتے تھے ، ان کو اپنے باپ کے جذبات اور احساسات کا پورا پورا علم تھا ، شاباش ہے ایسی اولاد پر۔ اویس ادیب انصاری نے یاور بھائی کی فن و شخصیت پر ایک بہترین کتاب لکھی ہے۔
جس میں ان کی شخصیت کردار اور کارناموں پر اظہار خیال کیا ہے جب کہ بے شمار لوگ ان پر اپنی رائے نہیں دے سکے ۔طلعت اقبال، دوست محمد فیضی، پروین شاکر ، مبشر حسن ، رسول احمد کلیمی ، پروفیسر حسن عسکری فاطمی ، عارف شفیق ،قاضی واجد، اداکار محمد علی ، ولی رضوی، ظہورالحسن بھوپالی وغیرہ شامل ہیں ، جب کہ ضیاء السلام زبیری ، خوش بخت شجاعت ، نیلوفر عباسی ، منور کلیمی ، کشور غنی ، نو شابہ صدیقی ، شفیع نقی جامی ، شاہد حسین بخاری ، اشرف شاد ، سروش چغتائی، اشفاق حسین ، سیما رضا ، ادریس غازی ، شاہد مسرور، ساجدہ قدوسی ، تابندہ لاری ، اسد اشرف ملک ، انیق احمد ، باقر زیدی ، کاظم پاشا، حیدر امام رضوی ، نسرین پرویز، تاجدار عادل ، قاسم جلالی ، ریحانہ روحی اور طویل فہرست ہے جن کو یاور بھائی کی خصوصی رہنمائی اور توجہ حاصل رہی، جنہوں نے ان سے فیض حاصل کیا اور بہت کچھ سیکھا اور ہمیشہ کامیاب رہے ۔
ایک موقع پر سابق سینٹر اور قومی اسمبلی کی سابق رکن خوش بخت شجاعت نے برملا اور عقیدت مندانہ انداز میں اس بات کا اظہار کیا کہ'' میرے بڑے بھائی ڈاکٹر شاجہاں بیگ نے مجھے یاور بھائی کے حوالے کر کے کہاکہ اب یہی تمہاری رہنمائی کریں گے'' بے شک یاور بھائی کنگ میکر تھے انھوں نے جس محبت اور شفقت کے ساتھ ریڈیو پر میری تربیت اور رہنمائی کی تو مجھے یقین آگیا کہ وہ کوئین میکر بھی ہیں۔
خوش بخت شجاعت نے ہمیشہ اپنے یاور بھائی کا بہت احترام کیا اور ہر پل ان کی دی گئی گائیڈ لائن پر عمل کیا۔ یاور مہدی عہد ساز شخصیت بزم طلبہ ، ہفتہ طلبہ، جشن طلباء ، شہر نامہ ،جہاں کوئی نہ ہوں ،شب کو ہے گنجیہ گوہر کھلا ،اور کھیلوں سے متعلق لاتعداد پروگرام پیش کرکے شہر قائد کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے اپنا نام لکھوالیا۔ ریڈیو کی تاریخ میں یاور مہدی کا نام سنہری حرفوں سے لکھا جائیگا ، انھوں نے اپنی زندگی کے 60 سال سے زیادہ کا عرصہ سادات کالونی (شاہ فیصل کالونی) میں گزارا اور نماز جنازہ بھی یہی منعقد ہوئی، اللہ غریق رحمت کرے، ایسی شخصیات اور ہمیں دور دور تک دکھائی نہیں دیتی ہیں۔