امریکا میں بچوں کی فروخت کا گھناؤنا کاروبار
دوسروں کے لئے بچے جنم دینے والی خواتین کی اکثریت غریب اور پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتی ہے۔
COLOMBO:
امریکی ریاست کیرولینا کی کرسٹینا فائبوس کی یادیں اپنے مُلک سے باہر بھارت اور چین تک پھیلی ہوئی ہیں۔اس کی عمر33 برس تھی جب اس کی ملاقات ایک دوسری خاتون مارگریٹ سے ہوئی۔
دونوں کے درمیان تعلق گہری دوستی میں بدل گیا۔ کرسٹینا نے اپنی عمر سے کافی بڑی مارگریٹ سے اپنی معاشی پریشانی کا ذکر کیا۔مارگریٹ نے اسے مختلف معاشی ٹوٹکے بتائے۔ ان میں ایک ٹوٹکا''Surrogacy'' یعنی کسی دوسرے شخص کے لیے پیسوں کے عوض بچے پیدا کرنا تھا۔ مارگریٹ نے بتایا کہ گوکہ یہ امریکا کی بعض ریاستوں میں غیرقانونی اور بعض میں جائز سمجھا جاتا ہے مگر وہ چاہے تو وہ اسے ایسے لوگوں سے ملا سکتی ہے، جنہیں بچوں کی ضرورت ہے۔ آپ کسی کے لیے بچہ پیدا کرکے اپنی معاشی ضرورت پوری کرسکتی ہیں۔ اس کاروبار سے آپ کو اچھی خاصی رقم مل جائے گی۔
کرسٹینا ایسے کسی بھی کاروبار سے ناآشنا تھی۔ مارگریٹ نے اسے بتایا کہ اس کاروبار میں آپ منہ مانگی رقم پر کسی دوسرے شخص کے لیے بچہ جنم دے سکتی ہیں۔اس نے پوچھا کہ یہ کیسے ہو گا؟مارگریٹ نے کہا کہ متعلقہ شخص یا کسی بھی شخص کے سپرم آپ کی بیضہ دانی میں میڈیکل ٹیوب کی مدد سے داخل کیے جائیں گے۔ گوکہ یہ عمل تھا کافی مشکل لیکن کرسٹینا کے لیے اسے قبول کرنا زیادہ مشکل ثابت نہ ہوا۔ دونوں کے درمیان دوستی جب مزید راسخ ہوگئی تو مارگریٹ (جو اس کا اصل نام نہیں تھا) نے بتایا کہ وہ بھارت اور چین کی ایک مشترکہ ایجنسی کی ایجنٹ ہے جو امریکا سے Surrogacy کے ذریعے چین، جاپان، تھائی لینڈ اور دوسرے ملکوں میں اپنے گاہکوں کو بچے مہیا کرتی ہے۔
مارگریٹ نے اپنے نئے شکار(کرسٹینا) کو اس گھناؤنے کاروبار کے تمام فوائد اورگُر بتا دیے۔ اس نے خود کو ذہنی طور پرتیار کرلیا۔ کچھ ہفتے مزید گزرے تو مارگریٹ نے کرسٹینا کی ملاقات ایک چینی سے کرائی۔ چینی مہمان نے اپنی خواہش ظاہر کی اور بتایا کہ وہ ایک عددبچے کا خواہاں ہے۔ قصہ مختصر دونوں کے درمیان معاہدہ طے پا گیا اور کرسٹینا جو پہلے دو بچوں کی ماں تھی ایک چینی گاہک کے لیے تیسرا بچہ جنم دینے کو تیار ہو گئی۔
دُنیا میں انسانی اسمگلنگ ، انسانی اعضاء کی فروخت اور بچوں کی خریدو فروخت یکساں گھناؤنے جرائم سمجھے جاتے ہیں لیکن مقام حیرت ہے کہ مائیں اپنے معاشی مسائل اور گاہک کی بچوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس غیر فطری طر ز عمل کوقانونی کیسے قرار دے سکتی ہیں؟ لیکن عملا امریکا سمیت انسانی حقوق کے کئی عالمی چیمپئن اس گھناؤنے کاروبار کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ہم آگے چل کراس مضمون میں ان ممالک کا ذکر کریں گے جو اس گھناؤنے انسانی جرم کو جائز سمجھتے ہیں۔
دبئی سے نشریات پیش کرنے والے مقبول عربی ٹیلی ویژن چینل ''العربیہ'' نے دنیا بھر بالخصوص امریکا اور چین میں ہونے والے اس گھناؤنے کاروبار پر ایک چشم کشا رپورٹ نشر کی،انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے مطابق بھارت بھی اس سماجی جرم میں صف اول کے ممالک میں شامل ہے، جہاں غربت زدہ عورتیں چند پیسوں کے عوض بچے پیدا کرتی اور اُنہیں آگے فروخت کرتی ہیں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے اعدادو شمار نہایت خطرناک ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ 2012ء کے بعد سے اب تک امریکا میں غیرقانونی طریقے سے شکم مادر میں بچوں کی خریداری کے کاروبار میں10 گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ اس وقت امریکا میں یہ ایک تیزی سے مقبول ہوتا کاروبار بنتا جا رہا ہے۔ امریکی ماؤں کے شکم میں بچوں کی خریداری کا سب سے بڑا گاہک چین ہے۔ چونکہ چین میں ایک سے زیادہ بچے کے پیدا کرنے پرپابندی ہے، چنانچہ چینی خاندان اپنی خاندانی افرادی قوت میں اضافے کے لیے مغربی امریکی ریاستوں، بھارت ، نیپال اور جنوبی افریقا کی غریب عورتوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق امریکا سے بچوں کی خریداری کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت مہنگی ہے جبکہ بھارت اس میدان میں نہایت سستی مارکیٹ ہے۔ امریکا میں کسی بھی گاہک کو ایک بچے کے عوض 80 ہزارسے 01 لاکھ 20 ہزار ڈالر تک ادا کرنا پڑتے ہیں جبکہ بھارت اور نیپال جیسے ملکوں میں فی بچہ 20 سے 30 ہزار ڈالر میں مل جاتا ہے۔ تاہم یہ امر حیران کن ہے کہ چینی بھارت اور نیپال جیسے پڑوسی اور سستے ملکوں کو چھوڑ کر امریکی خواتین کے بچوں کو کیوں ترجیح دیتے ہیں؟ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چونکہ بعض امریکی ریاستوں میں اس کاروبار کو قانونی حیثیت حاصل ہے، اس کے علاوہ امریکا میں ایسے منظم ادارے اور گروپ بھی موجود ہیں جو دوران حمل خواتین کی دیکھ بحال بہت اچھے طریقے سے کرتے ہیں، یوں چینیوں یا کسی بھی دوسرے ملکوں کے گاہکوں کو یقین ہوتا ہے کہ جس بچے کا وہ سودا کرنے جا رہے ہیں وہ صحت مند اور تندرست وتوانا ہوگا، جبکہ بھارت میں ایسا نہیں ہے۔
امریکی اخبار''ٹائمز'' کی رپورٹ کے مطابق دوسروں کے لیے بچے جنم دینے والی خواتین کی اکثریت غریب اور پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتی ہے۔ مزدور اور ملازم پیشہ عورتیں اپنی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے بچے پیدا کرتی اور پھرانہیں فروخت کر دیتی ہیں۔ چونکہ یہ کام مکمل را ز داری میں ہوتا ہے، اس لیے اس کی کوئی تشہیر نہیں کی جاتی۔ البتہ اس کاروبار میں سرگرم گروہ اس قدر مستعدی اور چستی سے کام کرتے ہیں کہ وہ قانون کی گرفت سے بھی بچ جاتے ہیں اور اچھی خاصی رقم بھی جمع کرلیتے ہیں۔ عموما امریکا کی پسماندہ عورتیں جو براہ راست کسی غیرملکی گاہک سے نہیں مل پاتیں وہ ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں۔ یہ ایجنٹ گاہک سے تو ایک لاکھ ڈالر کے قریب رقم اینٹھ لیتے ہیں لیکن بچے کی ماںکو 20 سے 25 ہزار ڈالر ز میں ٹرخا دیا جاتا ہے، تاہم غریب عورتیں اسے بھی ایک بڑی قیمت سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ امریکا ایسے گھناؤنے کارو بار کا اڈا اس لیے بنا ہوا ہے کیونکہ یہاں پر چین کی طرح خواتین کے زیادہ سے زیادہ بچوں کو جنم دینے پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ سرکاری قانون کے تحت بھی ہرشخص کو اپنی مرضی کے مطابق خاندان ترتیب دینے، بچے پیدا کرنے اور ان سے متعلق ڈیلنگ کی اجازت حاصل ہے ۔ اس لیے امریکا کی جنوبی اور مشرقی ریاستیں ایسے گروپوں کا آسان ہدف ہیں۔برطانو ی اخبار''ڈیلی میل'' کے مطابق امریکا، یورپ، اسرائیل، چین، بھارت، برازیل اور دوسرے ممالک میں ماؤں کے حمل کی خریداری کی ایک چین ہے۔بعض ممالک میں ایک ایک گروپ کے ماتحت کئی ایجنسیاں کام کرتی ہیں۔ ہرایجنسی کے ماتحت ایک بچے کی خریداری کے لیے کئی کئی ایجنٹ سرگرم ہوتے ہیں۔یوں وہ ایک سے دوسرے اور تیسرے ملک تک گاہکوں سے رابطے کرتے اور ان کے آرڈر ز کے مطابق خواتین کے حمل بک کراتے ہیں۔
امریکا اور بھارت گھناؤنے کاروبار کا اڈا کیوں؟
اخبار خلیج ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق بھارت اور امریکا میں کرائے پربچوں کی پیدائش کے گھناؤنے کاروبار کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ ان دونوں ملکوں میں پائی جانے والی غربت ہے۔ غربت انسان کو کفر تک لے جاتی ہے اور کفر مایوسی کا آخری مقام ہے جہاں حضرتِ انسان کُچھ بھی کرنے کو تیار ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی امریکا اور بھارت کے ان ''غریبوں'' کے ساتھ بھی ہو رہا ہے بچوں کی پیدائش کے اس عمل کی ایک بڑی وجہ لوگوں میں پائی جانے والی بے راہ راوی ہے لیکن اخبار نے اس سے بھی بڑا سبب''بے حسی '' کو ٹھہرایا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ دُنیا میں جہاں کہیں بھی بچوں کی رضاکارانہ خریدو فروخت ہو رہی ہے بالخصوص جہاں ماںخود اپنے نومولود یا حمل کو کسی کے ہاتھ فروخت کرتی ہے تو وہ ماں کے اوصاف سے عاری ہوتی ہے۔بھلا ایک ماں جو اپنے لخت جگرکو اپنے دل وجان سے زیادہ متاع عزیز سجھتی ہے وہ کس طرح اپنے نومولود کو کسی اجنبی کے ہاتھ فروخت کرسکتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ آیا چین ہی امریکا اور بھارت جیسے ممالک سے بچے خرید رہا ہے؟ تو اس کاجواب نفی میں ہے۔ یہ درست ہے کہ اس میدان میں چین سب سے بڑی منڈی سمجھی جاتی ہے مگردوسرے ملکوں کی خواتین کے حمل کی خریداری صرف چین میں نہیں بلکہ برازیل، ایران، اسرائیل ، روس اور جاپان جیسے ممالک بھی اسی قبیل کا حصہ ہیں۔اہل چین کے ہاں دوسرے ملکوں سے خواتین کے حمل خریدنے کی بڑی وجہ ملک میں ایک سے زیادہ بچوں کی پیدائش پرپابندی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چین میں ہرچوتھا خاندان اولاد سے محروم ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ حکومت کی جانب سے خواتین میں بانجھ پن کی ادویات کا بہ کثرت استعمال ہے ۔ ان دواؤں کے استعمال سے خواتین ایک سے زیادہ بچے جننے کے قابل نہیں رہتیں۔ اکلوتے بچے کے ساتھ نسل کی بقاء کے امکانات کم سے کم ہوجا تے ہیں۔ چنانچہ بہت سے چینی خاندان محض اپنی نسل کی بقاء کے لیے دوسرے ممالک کی خواتین سے بچے مستعار لیتے ہیں۔خاندان کی بقاء کے علاوہ چین اور اسرائیل جیسے ملکوں میں ان دوسری خواتین کے بچوں کا ایک اور مصرف بھی ہے۔ وہ یہ کہ ان ملکوں میں غیرعورتوں کے شیرخوار بچوں کو مختلف کھیلوں کے مقابلوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بالخصوص جمناسٹک جیسے کھیلوں کے لیے کم عمربچوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ نہایت تکلیف دہ تربیتی مراحل کے دوران نونہالوں کی اکثریت جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے یا وہ اپاہج ہوکر کسی کام کے نہیں رہتے۔ معدود ے چند ایسے ہوتے ہیں جوکھیلوں کے مقابلوں کی صلاحیت حاصل کر پاتے ہیں۔
حامی اور مخالف ممالک
خواتین کے حمل کی خریداری کا عمل دنیا کے کئی ممالک میں جائز سمجھا جاتا ہے۔ تاہم مسلم دنیا میں ایران واحد ملک ہے جو اسے جائز قرار دیتا ہے،اس کے جواز کے ساتھ ساتھ بعض ممالک کڑی شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دیتے ہیں۔ ماؤں کے حمل خریدنے یا منتقل کرنے کے اس گھناؤنے کاروبار کو جائز قرار دینے والے ممالک میں امریکا، برطانیہ، بھارت، کینیڈا، آسٹریلیا، یونان، ڈنمارک، بیلجیم، ایران، روس ، رومانیہ، یوکرائن، جرمنی ، ہالینڈتھائی لینڈ،ارجنٹائن، برازیل اور جنوبی افریقا سر فہرست ہیں۔
فرانس، اسپین، اٹلی، چین اور تمام مسلمان ملک رحم مادر میں بچے کی خریداری کے عمل کے خلاف ہیں۔ مسلمان ممالک کی جانب سے اس کی مخالفت کی بنیادی وجہ اسلام میں پابندی ہے۔ البتہ جو غیرمسلم ملک اس عمل کو غیرقانونی قرار دیتے ہیں۔ وہ طبی وجووہات کی بناء پر ایسا کرتے ہیں۔ چین میں غیرقانونی بچے پیدا کرنا یا انہیں خریدنا دونوں سنگین جرم ہیں لیکن حیرت یہ ہے کہ پوری دنیا میں بچوں کا سب سے بڑا خریدار بھی چین ہی ہے۔
Surrogacy کا طریقہ کار
Surrogacy یا ''متبادل حمل'' کے مختلف طریقے ہیں۔ مورخین کے مطابق یہ سلسلہ قدیم زمانے میں رائج رہا ہے۔ قدیم زمانے میںبچوں سے محروم خاندان کی عورت سے بچے کے حصول کے لیے دوسرے کسی شخص سے عارضی شادی کردی جاتی تھی جو صرف ایک بچے کی پیدائش تک ہوتی تھی۔ یہ طریقہ قدیم یونانی تہذیب میں رائج رہا۔ اس کے علاوہ خاتون اپنے ہی شوہر کے نطفے سے مخصوص رقم کے عوض بچہ پیدا کرتی تھی۔ جدید سائنس نے اس میدان میں کافی آسانیاں پیدا کردی ہیں کیونکہ اب سائنسی طریقوں سے مردوں کے سپرم عورتوں کی بچہ دانی میں منتقل کردیے جاتے ہیں۔عموما جو شخص بچے کا خریدار ہوتا ہے، اسی کا نطفہ کسی خاتون کی بیضہ دانی میں منتقل کرکے حاملہ کردیا جاتا ہے۔
مذاہب اور اخلاقی تعلیمات
خواتین کے پیٹ میں موجود بچے کو خریدنا، یا خاتون کا کسی غیر مرد کے نطفے سے برائے فروخت بچے پیدا کرنے کا عمل کئی مذاہب میں قطی ناجائز سمجھا جاتا ہے۔ مسلمان ملکوں میں اس کی پابندی کی بڑی وجہ اس کا مذہبی پہلو ہے۔ البتہ اہل ایران کے فقہ کی رو سے ایسا کرنا بوجوہ درست ہے اسلئے ان کے ہاں اس کی ممانعت نہیں ہے۔ اسلام کے علاوہ بدھ مت اور کنفیوشس بھی اس کے قطعی خلاف ہیں۔ البتہ عیسائیت میں پروٹسٹنٹ فرقے کے ہاں ایسا کرنا جائز لیکن کیتھو لک عیسائی مسلک اسے قطعی حرام عمل قرار دیتا ہے۔ مسیحی برادری کے مذہبی مرکزـویٹی کن نے اپنے آئین کی دفعہ 2376 میں اسے غیراخلاقی اور غیر فطری قرار دیتے ہوئے ممنوع قرار دے رکھا ہے۔ آسمانی مذاہب میں یہودیت اسے مطلق جائز عمل سمجھتا ہے۔ ہندو دھرم میں مشروط طورپر اس کی اجازت ہے۔ تاہم ہندو مت میںطبقاتی تقسیم کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔
امریکی ریاست کیرولینا کی کرسٹینا فائبوس کی یادیں اپنے مُلک سے باہر بھارت اور چین تک پھیلی ہوئی ہیں۔اس کی عمر33 برس تھی جب اس کی ملاقات ایک دوسری خاتون مارگریٹ سے ہوئی۔
دونوں کے درمیان تعلق گہری دوستی میں بدل گیا۔ کرسٹینا نے اپنی عمر سے کافی بڑی مارگریٹ سے اپنی معاشی پریشانی کا ذکر کیا۔مارگریٹ نے اسے مختلف معاشی ٹوٹکے بتائے۔ ان میں ایک ٹوٹکا''Surrogacy'' یعنی کسی دوسرے شخص کے لیے پیسوں کے عوض بچے پیدا کرنا تھا۔ مارگریٹ نے بتایا کہ گوکہ یہ امریکا کی بعض ریاستوں میں غیرقانونی اور بعض میں جائز سمجھا جاتا ہے مگر وہ چاہے تو وہ اسے ایسے لوگوں سے ملا سکتی ہے، جنہیں بچوں کی ضرورت ہے۔ آپ کسی کے لیے بچہ پیدا کرکے اپنی معاشی ضرورت پوری کرسکتی ہیں۔ اس کاروبار سے آپ کو اچھی خاصی رقم مل جائے گی۔
کرسٹینا ایسے کسی بھی کاروبار سے ناآشنا تھی۔ مارگریٹ نے اسے بتایا کہ اس کاروبار میں آپ منہ مانگی رقم پر کسی دوسرے شخص کے لیے بچہ جنم دے سکتی ہیں۔اس نے پوچھا کہ یہ کیسے ہو گا؟مارگریٹ نے کہا کہ متعلقہ شخص یا کسی بھی شخص کے سپرم آپ کی بیضہ دانی میں میڈیکل ٹیوب کی مدد سے داخل کیے جائیں گے۔ گوکہ یہ عمل تھا کافی مشکل لیکن کرسٹینا کے لیے اسے قبول کرنا زیادہ مشکل ثابت نہ ہوا۔ دونوں کے درمیان دوستی جب مزید راسخ ہوگئی تو مارگریٹ (جو اس کا اصل نام نہیں تھا) نے بتایا کہ وہ بھارت اور چین کی ایک مشترکہ ایجنسی کی ایجنٹ ہے جو امریکا سے Surrogacy کے ذریعے چین، جاپان، تھائی لینڈ اور دوسرے ملکوں میں اپنے گاہکوں کو بچے مہیا کرتی ہے۔
مارگریٹ نے اپنے نئے شکار(کرسٹینا) کو اس گھناؤنے کاروبار کے تمام فوائد اورگُر بتا دیے۔ اس نے خود کو ذہنی طور پرتیار کرلیا۔ کچھ ہفتے مزید گزرے تو مارگریٹ نے کرسٹینا کی ملاقات ایک چینی سے کرائی۔ چینی مہمان نے اپنی خواہش ظاہر کی اور بتایا کہ وہ ایک عددبچے کا خواہاں ہے۔ قصہ مختصر دونوں کے درمیان معاہدہ طے پا گیا اور کرسٹینا جو پہلے دو بچوں کی ماں تھی ایک چینی گاہک کے لیے تیسرا بچہ جنم دینے کو تیار ہو گئی۔
دُنیا میں انسانی اسمگلنگ ، انسانی اعضاء کی فروخت اور بچوں کی خریدو فروخت یکساں گھناؤنے جرائم سمجھے جاتے ہیں لیکن مقام حیرت ہے کہ مائیں اپنے معاشی مسائل اور گاہک کی بچوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس غیر فطری طر ز عمل کوقانونی کیسے قرار دے سکتی ہیں؟ لیکن عملا امریکا سمیت انسانی حقوق کے کئی عالمی چیمپئن اس گھناؤنے کاروبار کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ہم آگے چل کراس مضمون میں ان ممالک کا ذکر کریں گے جو اس گھناؤنے انسانی جرم کو جائز سمجھتے ہیں۔
دبئی سے نشریات پیش کرنے والے مقبول عربی ٹیلی ویژن چینل ''العربیہ'' نے دنیا بھر بالخصوص امریکا اور چین میں ہونے والے اس گھناؤنے کاروبار پر ایک چشم کشا رپورٹ نشر کی،انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے مطابق بھارت بھی اس سماجی جرم میں صف اول کے ممالک میں شامل ہے، جہاں غربت زدہ عورتیں چند پیسوں کے عوض بچے پیدا کرتی اور اُنہیں آگے فروخت کرتی ہیں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے اعدادو شمار نہایت خطرناک ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ 2012ء کے بعد سے اب تک امریکا میں غیرقانونی طریقے سے شکم مادر میں بچوں کی خریداری کے کاروبار میں10 گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ اس وقت امریکا میں یہ ایک تیزی سے مقبول ہوتا کاروبار بنتا جا رہا ہے۔ امریکی ماؤں کے شکم میں بچوں کی خریداری کا سب سے بڑا گاہک چین ہے۔ چونکہ چین میں ایک سے زیادہ بچے کے پیدا کرنے پرپابندی ہے، چنانچہ چینی خاندان اپنی خاندانی افرادی قوت میں اضافے کے لیے مغربی امریکی ریاستوں، بھارت ، نیپال اور جنوبی افریقا کی غریب عورتوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق امریکا سے بچوں کی خریداری کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت مہنگی ہے جبکہ بھارت اس میدان میں نہایت سستی مارکیٹ ہے۔ امریکا میں کسی بھی گاہک کو ایک بچے کے عوض 80 ہزارسے 01 لاکھ 20 ہزار ڈالر تک ادا کرنا پڑتے ہیں جبکہ بھارت اور نیپال جیسے ملکوں میں فی بچہ 20 سے 30 ہزار ڈالر میں مل جاتا ہے۔ تاہم یہ امر حیران کن ہے کہ چینی بھارت اور نیپال جیسے پڑوسی اور سستے ملکوں کو چھوڑ کر امریکی خواتین کے بچوں کو کیوں ترجیح دیتے ہیں؟ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چونکہ بعض امریکی ریاستوں میں اس کاروبار کو قانونی حیثیت حاصل ہے، اس کے علاوہ امریکا میں ایسے منظم ادارے اور گروپ بھی موجود ہیں جو دوران حمل خواتین کی دیکھ بحال بہت اچھے طریقے سے کرتے ہیں، یوں چینیوں یا کسی بھی دوسرے ملکوں کے گاہکوں کو یقین ہوتا ہے کہ جس بچے کا وہ سودا کرنے جا رہے ہیں وہ صحت مند اور تندرست وتوانا ہوگا، جبکہ بھارت میں ایسا نہیں ہے۔
امریکی اخبار''ٹائمز'' کی رپورٹ کے مطابق دوسروں کے لیے بچے جنم دینے والی خواتین کی اکثریت غریب اور پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتی ہے۔ مزدور اور ملازم پیشہ عورتیں اپنی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے بچے پیدا کرتی اور پھرانہیں فروخت کر دیتی ہیں۔ چونکہ یہ کام مکمل را ز داری میں ہوتا ہے، اس لیے اس کی کوئی تشہیر نہیں کی جاتی۔ البتہ اس کاروبار میں سرگرم گروہ اس قدر مستعدی اور چستی سے کام کرتے ہیں کہ وہ قانون کی گرفت سے بھی بچ جاتے ہیں اور اچھی خاصی رقم بھی جمع کرلیتے ہیں۔ عموما امریکا کی پسماندہ عورتیں جو براہ راست کسی غیرملکی گاہک سے نہیں مل پاتیں وہ ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں۔ یہ ایجنٹ گاہک سے تو ایک لاکھ ڈالر کے قریب رقم اینٹھ لیتے ہیں لیکن بچے کی ماںکو 20 سے 25 ہزار ڈالر ز میں ٹرخا دیا جاتا ہے، تاہم غریب عورتیں اسے بھی ایک بڑی قیمت سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ امریکا ایسے گھناؤنے کارو بار کا اڈا اس لیے بنا ہوا ہے کیونکہ یہاں پر چین کی طرح خواتین کے زیادہ سے زیادہ بچوں کو جنم دینے پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ سرکاری قانون کے تحت بھی ہرشخص کو اپنی مرضی کے مطابق خاندان ترتیب دینے، بچے پیدا کرنے اور ان سے متعلق ڈیلنگ کی اجازت حاصل ہے ۔ اس لیے امریکا کی جنوبی اور مشرقی ریاستیں ایسے گروپوں کا آسان ہدف ہیں۔برطانو ی اخبار''ڈیلی میل'' کے مطابق امریکا، یورپ، اسرائیل، چین، بھارت، برازیل اور دوسرے ممالک میں ماؤں کے حمل کی خریداری کی ایک چین ہے۔بعض ممالک میں ایک ایک گروپ کے ماتحت کئی ایجنسیاں کام کرتی ہیں۔ ہرایجنسی کے ماتحت ایک بچے کی خریداری کے لیے کئی کئی ایجنٹ سرگرم ہوتے ہیں۔یوں وہ ایک سے دوسرے اور تیسرے ملک تک گاہکوں سے رابطے کرتے اور ان کے آرڈر ز کے مطابق خواتین کے حمل بک کراتے ہیں۔
امریکا اور بھارت گھناؤنے کاروبار کا اڈا کیوں؟
اخبار خلیج ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق بھارت اور امریکا میں کرائے پربچوں کی پیدائش کے گھناؤنے کاروبار کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ ان دونوں ملکوں میں پائی جانے والی غربت ہے۔ غربت انسان کو کفر تک لے جاتی ہے اور کفر مایوسی کا آخری مقام ہے جہاں حضرتِ انسان کُچھ بھی کرنے کو تیار ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی امریکا اور بھارت کے ان ''غریبوں'' کے ساتھ بھی ہو رہا ہے بچوں کی پیدائش کے اس عمل کی ایک بڑی وجہ لوگوں میں پائی جانے والی بے راہ راوی ہے لیکن اخبار نے اس سے بھی بڑا سبب''بے حسی '' کو ٹھہرایا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ دُنیا میں جہاں کہیں بھی بچوں کی رضاکارانہ خریدو فروخت ہو رہی ہے بالخصوص جہاں ماںخود اپنے نومولود یا حمل کو کسی کے ہاتھ فروخت کرتی ہے تو وہ ماں کے اوصاف سے عاری ہوتی ہے۔بھلا ایک ماں جو اپنے لخت جگرکو اپنے دل وجان سے زیادہ متاع عزیز سجھتی ہے وہ کس طرح اپنے نومولود کو کسی اجنبی کے ہاتھ فروخت کرسکتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ آیا چین ہی امریکا اور بھارت جیسے ممالک سے بچے خرید رہا ہے؟ تو اس کاجواب نفی میں ہے۔ یہ درست ہے کہ اس میدان میں چین سب سے بڑی منڈی سمجھی جاتی ہے مگردوسرے ملکوں کی خواتین کے حمل کی خریداری صرف چین میں نہیں بلکہ برازیل، ایران، اسرائیل ، روس اور جاپان جیسے ممالک بھی اسی قبیل کا حصہ ہیں۔اہل چین کے ہاں دوسرے ملکوں سے خواتین کے حمل خریدنے کی بڑی وجہ ملک میں ایک سے زیادہ بچوں کی پیدائش پرپابندی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چین میں ہرچوتھا خاندان اولاد سے محروم ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ حکومت کی جانب سے خواتین میں بانجھ پن کی ادویات کا بہ کثرت استعمال ہے ۔ ان دواؤں کے استعمال سے خواتین ایک سے زیادہ بچے جننے کے قابل نہیں رہتیں۔ اکلوتے بچے کے ساتھ نسل کی بقاء کے امکانات کم سے کم ہوجا تے ہیں۔ چنانچہ بہت سے چینی خاندان محض اپنی نسل کی بقاء کے لیے دوسرے ممالک کی خواتین سے بچے مستعار لیتے ہیں۔خاندان کی بقاء کے علاوہ چین اور اسرائیل جیسے ملکوں میں ان دوسری خواتین کے بچوں کا ایک اور مصرف بھی ہے۔ وہ یہ کہ ان ملکوں میں غیرعورتوں کے شیرخوار بچوں کو مختلف کھیلوں کے مقابلوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بالخصوص جمناسٹک جیسے کھیلوں کے لیے کم عمربچوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ نہایت تکلیف دہ تربیتی مراحل کے دوران نونہالوں کی اکثریت جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے یا وہ اپاہج ہوکر کسی کام کے نہیں رہتے۔ معدود ے چند ایسے ہوتے ہیں جوکھیلوں کے مقابلوں کی صلاحیت حاصل کر پاتے ہیں۔
حامی اور مخالف ممالک
خواتین کے حمل کی خریداری کا عمل دنیا کے کئی ممالک میں جائز سمجھا جاتا ہے۔ تاہم مسلم دنیا میں ایران واحد ملک ہے جو اسے جائز قرار دیتا ہے،اس کے جواز کے ساتھ ساتھ بعض ممالک کڑی شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دیتے ہیں۔ ماؤں کے حمل خریدنے یا منتقل کرنے کے اس گھناؤنے کاروبار کو جائز قرار دینے والے ممالک میں امریکا، برطانیہ، بھارت، کینیڈا، آسٹریلیا، یونان، ڈنمارک، بیلجیم، ایران، روس ، رومانیہ، یوکرائن، جرمنی ، ہالینڈتھائی لینڈ،ارجنٹائن، برازیل اور جنوبی افریقا سر فہرست ہیں۔
فرانس، اسپین، اٹلی، چین اور تمام مسلمان ملک رحم مادر میں بچے کی خریداری کے عمل کے خلاف ہیں۔ مسلمان ممالک کی جانب سے اس کی مخالفت کی بنیادی وجہ اسلام میں پابندی ہے۔ البتہ جو غیرمسلم ملک اس عمل کو غیرقانونی قرار دیتے ہیں۔ وہ طبی وجووہات کی بناء پر ایسا کرتے ہیں۔ چین میں غیرقانونی بچے پیدا کرنا یا انہیں خریدنا دونوں سنگین جرم ہیں لیکن حیرت یہ ہے کہ پوری دنیا میں بچوں کا سب سے بڑا خریدار بھی چین ہی ہے۔
Surrogacy کا طریقہ کار
Surrogacy یا ''متبادل حمل'' کے مختلف طریقے ہیں۔ مورخین کے مطابق یہ سلسلہ قدیم زمانے میں رائج رہا ہے۔ قدیم زمانے میںبچوں سے محروم خاندان کی عورت سے بچے کے حصول کے لیے دوسرے کسی شخص سے عارضی شادی کردی جاتی تھی جو صرف ایک بچے کی پیدائش تک ہوتی تھی۔ یہ طریقہ قدیم یونانی تہذیب میں رائج رہا۔ اس کے علاوہ خاتون اپنے ہی شوہر کے نطفے سے مخصوص رقم کے عوض بچہ پیدا کرتی تھی۔ جدید سائنس نے اس میدان میں کافی آسانیاں پیدا کردی ہیں کیونکہ اب سائنسی طریقوں سے مردوں کے سپرم عورتوں کی بچہ دانی میں منتقل کردیے جاتے ہیں۔عموما جو شخص بچے کا خریدار ہوتا ہے، اسی کا نطفہ کسی خاتون کی بیضہ دانی میں منتقل کرکے حاملہ کردیا جاتا ہے۔
مذاہب اور اخلاقی تعلیمات
خواتین کے پیٹ میں موجود بچے کو خریدنا، یا خاتون کا کسی غیر مرد کے نطفے سے برائے فروخت بچے پیدا کرنے کا عمل کئی مذاہب میں قطی ناجائز سمجھا جاتا ہے۔ مسلمان ملکوں میں اس کی پابندی کی بڑی وجہ اس کا مذہبی پہلو ہے۔ البتہ اہل ایران کے فقہ کی رو سے ایسا کرنا بوجوہ درست ہے اسلئے ان کے ہاں اس کی ممانعت نہیں ہے۔ اسلام کے علاوہ بدھ مت اور کنفیوشس بھی اس کے قطعی خلاف ہیں۔ البتہ عیسائیت میں پروٹسٹنٹ فرقے کے ہاں ایسا کرنا جائز لیکن کیتھو لک عیسائی مسلک اسے قطعی حرام عمل قرار دیتا ہے۔ مسیحی برادری کے مذہبی مرکزـویٹی کن نے اپنے آئین کی دفعہ 2376 میں اسے غیراخلاقی اور غیر فطری قرار دیتے ہوئے ممنوع قرار دے رکھا ہے۔ آسمانی مذاہب میں یہودیت اسے مطلق جائز عمل سمجھتا ہے۔ ہندو دھرم میں مشروط طورپر اس کی اجازت ہے۔ تاہم ہندو مت میںطبقاتی تقسیم کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔