شیخ ایاز کی دعائیں سندھ کے مایہ ناز شاعر اور ادیب کے فن کا ایک پہلو اجاگر کرتی تحریر

شیخ ایازؔ سندھی اور اردو ادب کا ایک ایسا نام ہے جس نے آنے والے وقت پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں


شیخ ایازؔ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے نثرنگار بھی تھے جن کی نثری تحاریر کو دنیائے ادب میں شہ پاروں کی حیثیت حاصل رہے گی ۔ فوٹو: فائل

انیسیویں صدی کی تیسری دہائی کے اوائل یعنی 2؍مارچ 1923کوایک ایسے سپوت نے آنکھ کھولی جو بعد میں چل کر خاکنائے سندھ کی ایک مایہ ناز شخصیت بنا اور جس نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور شبانہ روز محنتِ شاقہ کے باعث بڑا نام کمایا۔

تاہم محسوس ہوتا ہے کہ اس عہد ساز شخصیت کی مساعی ہائے جمیلہ کا مقصد یہ نہ تھا کہ اپنے لیے نام پیدا کیا جائے، اس کے برعکس ہر بڑے شخص کی طرح اس کا منتہائے نظر بھی کام ، کام اور بس کام تھا اور جہاں تک نام کمانے کا تعلق ہے تو نام تو خود بخود کام کے جلو میں انسان کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ننگے پائوں چلنے والا شیخ سعدؔی اپنی غربت و افلاس کے بوسیدہ لباس میں بھی شیخ سعدؔی ہی رہا کہ جس کی ''گلستان'' اس بات کا ثبوت ہے کہ حکایاتِ سعدؔی درحقیقت الہاماتِ سعدؔی ہیں اور یہ وہ منزل ہے جو غازیانِ علم و حکمت کو بعدازتلاش بسیار ہی حاصل ہوتی ہے۔

یہ شیخ ایازؔ تھے جن کی شخصیت نے سرزمین سندھ کو ایک نیا امتیاز عطا کیا۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی زمین پر قدم جمانے والی یہ شخصیت ایک ممتاز شاعر اور دانش ور کی حیثیت سے ابھری۔ ایک ایسے مفکر اور فلسفی کی حیثیت سے کہ جو معاشرے میں بسنے والے فرد کے وجود پر غور فکر بھی کرتا ہے اور یہ بھی سوچتا ہے کہ آخر وہ کیا طریقۂ کار ہے کہ جس کے تحت یہ معاشرہ وجود میں آتا اور قائم و دائم رہتا ہے۔

شیخ ایازؔ کی شخصیت کا اولین پہلو تو ایک شاعر ہی کی حیثیت سے سامنے آتا ہے، لیکن جب پہلے پہل ان کے کلام کے مطالعے کی سعادت حاصل ہوتی ہے تو وہ ایک ایسے شاعر کی حیثیت سے پہچان میں آتے ہیں جس کی انقلابی سوچیں کسی خاص فرد، علاقے یا معاشرے تک محدود نہ تھیں، بل کہ وہ اپنے دور ونزدیک ایسی تبدیلیاں رونما ہوتے دیکھنا چاہتے تھے کہ جو پابندِ حدودقیود نہ ہوں، بل کہ ان کی وسعتیں بے کنارہوں۔

شیخ ایازؔ سندھی اور اردو ادب کا ایک ایسا نام ہے جس نے آنے والے وقت پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں اور جس کے بارے میں آج کا دانش ور بھی اور آنے والا مورخ بھی یہی تحریر کرے گا کہ شیخ ایاز جیسی نابغۂ روزگار شخصیات کہیں صدیوں بعد ہی پیدا ہوتی ہیں اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے کی نت نئی جہتیں کھلنے کے باوجود بنیادی نظریات میں تبدیلی روز روز رونما نہیں ہوتیں ہر سوچ اور فکر کا محور وہی رہتا ہے۔ تاہم وقت اور حالات کے تغیر کے ساتھ ساتھ وسعتِ بے کنار پیدا ہونا ایک الگ بات ہے۔

شیخ ایازؔ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے نثرنگار بھی تھے جن کی نثری تحاریر کو دنیائے ادب میں شہ پاروں کی حیثیت حاصل رہے گی۔ میرے موضوع کا تعلق نہ تو ان کی جدیدیت سے ہے اور نہ ہی اس سے غرض ہے کہ ان کی ترقی پسندی اور آزاد خیالی کی نوعیت کیا تھی۔ اس کے برعکس میرا ارتکازِ فکر ان کے اس اضطراب پر ہے جو ان کے نہاں خانۂ دل میں موجود تھا۔ اور جو بالآخر ان کی دعائوں کی صورت میں جلوہ گر ہوا۔ مرزا اسد اﷲ خان غالبؔ کو ان کے اردو اور فارسی کے اشعار ہی نے غالب نہیں بنایا تھا، بل کہ ان کی نثری تحریریں اور خاص طور پر خطوط ِ غالبؔ اردو ادب کا سرمایہ ہیں جن سے علم و ادب کے دل دادہ آج بھی فیضیاب ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ نصف صدی سے زاید عرصے تک جدیدیت کا ممتاز علم بردار شیخ ایاز جس کی سوچ پر زیادہ تر مغربی مفکرین اور دانش ور چھائے رہے، آخر کار اپنے رب کی طرف مائل ہوا تو دریچۂ فکر سے در آنے والی تازہ ہوائوں نے اس پر ثابت کردیا کہ دنیا کی ہر بڑی اور چھوٹی شے میں اس ذاتِ اقدس کا ظہور موجود ہے جسے اس کے خالقِ حقیقی ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔

اس نے زمینوں اور آسمانوں پر غور کیا اس نے ستاروں کے جلتے بجھتے چراغ دیکھے اس نے طلوعِ آفتاب پر غور کیا اور دورافق میں غائب ہوتے ہوئے چاند کو راتوں میں اٹھ اٹھ کر دیکھا کہ دراصل یہ اس کا وطیرۂ خاص ہی تھا کہ جب دنیا سورہی ہوتی تو وہ بندۂ خدا نیند کے عالم سے بیدار ہوجاتا۔ رات کے پچھلے پہر کا یہ مسافر جب چیزوں کی اصلیت پر غور کرتا تو اس کو معلوم ہوتا کہ کائنات کو پیدا کرنے والی اور اس کو چلانے والی ذات دراصل ذاتِ خداوند ہی ہے کہ جس کے وجود سے ہست وبود کی گتھیاں سلجھائی جاسکتی ہیں۔ رات کا یہ پچھلا پہر وہ ثانیۂ دل گداز ہوتا ہے کہ سچے دل سے مانگی جانے والی دعا عرش تک کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ اور انسان عالم استغراق میں اس حد تک کھو جاتا ہے کہ اسے پتا ہی نہیں چلتا کہ اس کی خاموشی نے کب سسکیوں کی صورت اختیار کرلی ہے اور کب یہ سسکیاں شورِِگریہء کی حدوں سے آگے نکل گئیں بقولِ شاعر

وہ خود مجبور کردیتی ہے مجھ کو شورِ گریہ پر

دعائے نیم شب سے خامشی دیکھی نہیں جاتی

سندھی روزنامہ ''برسات'' کراچی میں 1994 کے مختلف شماروں میں چھپنے والی شیخ ایاز ؔکی یہ دعائیں سندھی ادب کا عظیم سرمایہ ہیں۔ ان دعائوں کا خاص پہلو یہ ہے کہ یہ دعائیں محض دعائیں ہی نہیں ہیں، جو کسی دلِ مضطرب سے عالمِ اضطراب میں نکلی ہوں، بل کہ یہ دعائیں ادب کا وہ ورثہ ہیں جو شیخ ایازؔ نے اپنے پیچھے چھوڑی ہیں ان کی دعائوں کے الفاظ اور بندشِ الفاظ جملوں کی برجستگی اور سلیقۂ اظہار خود ان کے قارئین کے دلوں پر اثر انداز ہوتا اور گداز پیدا کرتا چلا جاتا ہے تو کیا یہی پکار خداوندِ قدوس کی بارگاہ میں قبولیت حاصل نہ کرے گی جو حلیم بھی ہے اور خبیر بھی اور سمیع بھی ہے اور بصیر بھی شیخ ایازؔ کے ظاہر سے ماوراء ان کے اندر کا انسان ان کے تنِ اظہار پر چھا جانے کے لیے کیوںکر بے قرارومضطرب تھا، اس کا پتا ان کی اس دعا سے چلتا ہے، (ترجمہ)''یا رب مجھے اپنے غصے پر غصہ دے اور اپنی نفرت کے لیے میرے دل میں نفرت پیدا کردے۔ یہ میرے اندر ناراضگی کی باتیں کہاں سے آرہی ہیں۔ میں تو سراپا دعا تھا۔ یہ بددعائیں کہاں سے آئیں۔'' بددعائوں کو دعائوں کے رنگ میں پیش کرنے والا یہ دعاگو اپنے مالکِ حقیقی سے یوں مخاطب ہوتا ہے، (ترجمہ)''یا رب! تو میرے دشمن کے لیے بھی رحمت کا سایہ بن جا۔'' درحقیقت ان دعائوں میں شیخ ایازؔ کا ظاہر نہیں بل کہ ان کا باطن بولتا نظر آتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جب ظاہر و باطن ایک ہوجاتے ہیں تو دراصل تمام حساب بے باق ہوجاتے ہیں۔ غالبؔ نے کہا تھا :

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقش پا، پایا

اب اگر دشتِ امکاں کا پہلا قدم وہ مجاز ہے جس سے آغازِسفر شیخ ایازؔ نے کیا تو ہی دشتِ امکاں کا دوسرا قدم وہ ولایت ہے، جو کسی رندِ بادہ خوار کو اس کی ایک صدائے یا رب سے حاصل ہوجاتی ہے اور شاید مجاز اور حقیقت کے درمیاں پایا جانے والا وہ فاصلہ بیک گام تھا۔

شیخ ایازؔ کی دعائوں سے یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ ان کی سوچوں میں کا کینوس بلندی و پستی تک محدود نہ تھا، بل کہ ان کی سوچوں میں لہو کا وہ رنگ شامل تھا، جس کے اجزائے ترکیبی ہر پیکر خاکی میں یکساں تناسب اور کم و پیش یکساں اوزان میں موجود ہوتے ہیں۔ پس وہ کہتے ہیںکہ یا رب! انتقام کا جذبہ میرا دشمن ہے۔ دوسرے کو ایذا رسانی کا تصور بھی میرے لیے خنجر ہے، جو میں سینے میں لگارہا ہوں مجھے اپنے غیض و غضب سے اپنی پناہ میں رکھ اور مجھے خودکشی سے بچالے'' تو کیا س دعا کو پڑھ لینے کے بعد بھی اس قیمتی خون کو سٹرکوں پر بہا دینے کا کوئی جواز باقی رہ جاتا ہے۔ شیخ ایاز ؔکہتا ہے کہ ''یا رب! تو میرے دشمن کے لیے بھی رحمت کا سایہ بن جا اگر میں یہ کہوں کہ تو اس پر عتاب نازل کر تو تو میری یہ پکار نہ سن میرے دشمن کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوئوں کو یوں پونچھ لے جس طرح آفتاب نرگس کے پھول سے شبنم پونچھ لیتا ہے۔ یہ دعا محض دعا ہی نہیں بلکہ ادب کا ایک بہترین فن پارہ بھی ہے۔

شیخ ایازؔ پیرویٔ رسول مقبول ﷺ میں ہر ایک پر بارش کرم کے متمنی ہیں۔ وہ اپنے بدخواہ پر بھی رحم کی درخواست کرتے ہیں وہ ملتجی ہیں کہ اے خدا! میرے بدخواہ کے اندر سے خیر کو اس طرح ابھاردے جس طرح تھوہر کے درخت میں لال پھول پھوٹ پڑتے ہیں۔ ''حیرت تو یہ ہے کہ ایک ایسا شاعر جس کی شخصیت پر دستارِانا بھی جچتی نظر آتی ہے، اپنے خدا سے یوں دستِ با دعا ہے کہ یا رب! مجھے داراوسکندر کے قدر و قامت نہیں چاہییں۔ مجھے حافظؔ کا ترنم، اور خیامؔ کی سرمستی عطا فرما۔ مجھ میں شمس تبریز اور رومی والی وہ حیرت دے اور وہ شانِ قلندری پیدا کردے کہ میں اپنے آپ سے حقارت نہ کروں اور خود کو حقیر بھی نہ سمجھوں شیخ ایازؔ اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ، وتعزمن تشاء وتذل من تشاء بیدک الخیر۔

بس وہ کہتے ہیں کہ یا رب ہر ایک کو عزت سے تو ہی شرف یاب کر تا ہے اور ذلت بھی تو ہی دیتا ہے۔ میرے اندر یہ صلاحیت پیدا فرما کہ عزت دیکھ کر حد سے تجاوز نہ کروں اور ذلت دیکھ کر دل شکستہ نہ ہوں۔ دراصل آج ادب اس قدر بے ادب اور بے باک ہو چکا ہے کہ ہم اس کے معانیٰ اور غرض و غایت ہی کو بھلا بیٹھے ہیں۔ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ جب علم آتا ہے تو اندھیرے مٹ جا تے ہیں اور تاریکیاں کافور ہوجاتی ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ادب کا مطلب معاشرے کی اصلاح اور اس کی بھلائی ہے۔ ادب محض لفظوں کو جوڑنے جملوں کو سنوارنے اور مصرعوں کو ترتیب دینے کا نام بن کر رہ گیا ہے، جب کہ اس کے برعکس ادب کے ذریعے انسان کو ظاہری اور باطنی آسودگی حاصل ہو تی ہے۔ ادب وہ زینہ ہے جو آدمی کو آدمیت کے بلند مقام پر فائز کرتا ہے علم و ادب کا مقصد انسانیت اور تہذیب کو فروغ دینا ہے نہ کہ اسے انسانی اقدار سے محروم کر کے خس و خاشاک کی صورت کسی طوفانِ بدتمیزی کے سپر د کردینا۔

شیخ ایازؔ نے ایک دانش ور اور مفکر کی حیثیت سے عمرِعزیز کے آخری عشرے میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو علم و ادب کو لوگوں کے ضمیر روشن کرنے اور اپنے مالکِ حقیقی سے قریب تر لانے کے لیے استعمال کیا اور ثابت کیا ہے کہ توبہ کے دروازے کسی پر کبھی بند نہیں ہوتے وہ بار بار رحم کرنے والا ہے۔ صرف اور صرف ایک پکار کی ضرورت ہوتی ہے اور پکار میں تڑپ اور کسک وہ لازمی عناصر ہیں، جو انسان کو بندے سے بندۂ خدا بنا دیتے ہیں۔ دیکھنے والوں نے دیکھا اور سننے والوں نے سنا کہ جگر ؔمرادآبادی جن کی داڑھی کے تمام تر بال غرقابِ ام الخبائث ہوجاتے تھے تو بہ کے دروازے پر پہنچنے اور ا ن کے اند ر کا انسان بیدار ہوا تو اسی تر ک شراب نے ان کی جان لے لی، لیکن وہ راہ ہدایت سے نہ ہٹے:

اچھا ہے سنبھل جائے کوئی گر نے سے پہلے

اور کو ئی سنبھل جائے جو گر کر بہت اچھا

شیخ ایازؔ نے بتدریج علم و ادب کا سفر طے کرتے کرتے آخر اپنے اُس مقصد کو پالیا جو انسان کے تحت الشعور میں کہیں پوشیدہ ہوتا ہے اور اگر نیک نیتی اور خلوصِ دل کارفرما ہو تو اس کے شعور میں آتا ہے۔ تحت الشعور سے لے کر شعور تک کا یہ سفر بہت طویل، بہت صبرآزما اور بہت کٹھن ہوتا ہے۔ لیکن یہی وہ سفر ہے جس کے ہر موڑ پر انسان کی ذات میں انقلاب برپا ہوجاتا ہے اور انسانی فکر میں ایک نئی تہذیب جنم لیتی ہے۔ اس دوران انسان خیر و شر کی قوتوں کو متصادم ہو تے ہوئے بھی دیکھتا ہے اور یوں نفسی قوتوں کی غلامی سے آزاد ہو کر خود اپنے معاشرے میں اپنے گر و پیش سے دور دور تک کے معاشروں میں انقلاب حقیقی لانے میں کام یاب ہو جا تا ہے۔ شیخ ایاز کی دعائیں ان کی ذات تک محدود نہ تھیں۔ وہ اپنی دعائوں میں اپنے آپ کو غیروں کے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو معاشرے کی ایک اکائی سمجھنے کی بجائے معاشرے کو ایک اکائی تصور کرتے ہیں اور خود کو اس اکائی کا جزو لازمی قرار دیتے ہیں۔ ان کا ذہن رسا ہے جس کا مقصد کسی منظر کے گرد حاشیہ لگانا نہیں بلکہ وہ معاشرے کے ہر جبر و کو مٹا دینا چاہتے ہیں۔

ان کا سفر نیست سے ہست کی طرف کا سفر ہے وہ محدود سے لا محدود تک کا سفر کرنا چاہتے ہیں۔ شیخ ایازؔ کا ذہن کہتا ہے،''یا رب! تو جو ازل سے ابد تک رواں ہے اور متحرک بھی نہیں ہے، تو جو کہکشاں سے دور ہے۔ شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہے تو جو اس کائنات میں بھی ہے، اس کائنات کے باہر بھی ہے، تو جو میری زندگی کے فلسفے کا نچوڑ ہے اور میری محبت کی انتہا بھی ہے میں تجھے فلسفے کے تخیل تک یا تصوف کے تصور تک محدود رکھنا نہیں چاہتا اور تیرے سامنے سربسجود بھی ہونا چاہتا ہوں، تو مجھے اتنی دانش عطا فرمادے کہ میں تیرے وحدتِ الشہود اور وحدت الوجود کے شعور کے تضاد کو مٹا سکوں میں فلسفی، صوفی اور عام آدمی کی اس سوچ کا خاتمہ کر سکوں جو الجھائو پیدا کررہا ہے اور یہ تخیل کہ سب تیری ذات میں ہے اور سب میں تو ہے اور پھر بھی تو سب سے جدا گانہ ہے میں اس تضاد کی ڈوری کو سلجھاسکوں اور تیرے سامنے دست ِدعا ہو کر مشکلات میں مدد مانگ سکوں۔ یا رب! تو نے یہ دانش خاص خاص افراد کو دی ہے مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔ بس مجھے یہی دانش عطا فرما۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں