طالبان کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان
طالبان اگر پہلے ہی جنگ بندی کا اعلان کر دیتے تو اس کے زیادہ خوشگوار اثرات مرتب ہوتے
KARACHI:
تحریک طالبان پاکستان نے ایک ماہ کے لیے جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے۔ تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مذاکراتی عمل میں پیدا شدہ ڈیڈ لاک کے خاتمے اور جنگ بندی کے لیے ہماری طرف سے اپنی مذاکراتی کمیٹی کو دی گئی تجاویز کا حکومت کی طرف سے مثبت جواب دیا گیا ہے اور ان تجاویز پر عملدرآمد کی پر اعتماد یقین دہانی کرائی جا چکی ہے' لہٰذا تحریک طالبان پاکستان' اکابر علماء کرام کی اپیل پر' طالبان کمیٹی کے احترام' اسلام اور ملک کے بہتر مفاد میں ایک مہینے کے لیے جنگ بندی کا اعلان کرتی ہے۔ طالبان کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان خوش آیند ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں یہ امید پیدا ہو رہی ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکراتی عمل میں جو ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا تھا وہ جلد ہی ختم ہو جائے گا اور مذاکرات کے عمل میں مثبت جانب پیشرفت ہو گی۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار' حکومتی کمیٹی کے سربراہ عرفان صدیقی اور طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے طالبان کے اعلان جنگ بندی کا خیر مقدم کیا ہے۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اور جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی اسے مثبت قدم قرار دیا ہے۔ حکومت نے بعض سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مطالبے پر طالبان سے مذاکرات کے لیے عرفان صدیقی' میجر(ر) عامر' رستم شاہ مہمند اور رحیم اللہ یوسف زئی پر مشتمل چار رکنی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس موقعے پر وزیراعظم میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ شدت پسندوں کو مذاکرات کے لیے ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں۔ جواب میں طالبان نے بھی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی اور دونوں کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات کا دور شروع ہوا۔ اس دوران امن منافی چند ناخوشگوار واقعات بھی رونما ہوئے مگر مذاکرات کا عمل رواں رہا جس سے یہ امید پیدا ہونے لگی کہ مذاکرات کا عمل درست سمت آگے بڑھ رہا ہے جو نتیجہ خیز ہو گا اور ملک میں جاری بدامنی کے واقعات ختم ہونے سے امن و امان کی فضا قائم ہو گی۔
اسی دوران 16 فروری کو طالبان نے 23 مغوی ایف سی اہلکاروں کو شہید کرنے کا دعویٰ کر دیا' ان کے اس دعوے نے جلتی پر تیل کا کام کیا، حکومت کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا اور مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار ہو گئے۔ طالبان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیکس کا عمل شروع کر دیا گیا۔ اب طالبان نے اعلان جنگ بندی کرتے ہوئے ڈیڈ لاک کو ختم کرنے اور امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے مگر یہ اعلان جنگ بندی صرف ایک ماہ کے لیے ہے اس میں توسیع یا مستقل ہونے کا کوئی تاثر نہیں دیا گیا۔ جنگ بندی کے اعلان کا حکومت' اپوزیشن ارکان اور طالبان مذاکراتی کمیٹی کی جانب سے خیر مقدم اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ تمام حلقے اس مسئلے کو آپریشن کے بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے خواہاں ہے۔ طالبان نے جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے کوئی شرائط عائد نہیں کیں جب کہ اس سے قبل گزشتہ ماہ تحریک طالبان پاکستان نے جنگ بندی پر مشروط آمادگی ظاہر کی تھی۔ طالبان اگر پہلے ہی جنگ بندی کا اعلان کر دیتے تو اس کے زیادہ خوشگوار اثرات مرتب ہوتے اور اب تک مذاکرات کا عمل بہت آگے بڑھ چکا ہوتا۔ بہرحال دیر آید درست آید اب بھی مذاکرات کے عمل کو خلوص نیت سے آگے بڑھایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوں۔ مگر اس کے لیے ناگزیر ہے کہ اس دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔
ہفتے کو جمرود میں انسداد پولیو ٹیم پر یکے بعد دیگرے تین بم حملوں میں سیکیورٹی پر مامور خاصہ دار اور لیویز فورسز کے بارہ اہلکاروں سمیت تیرہ افراد جاں بحق اور دس شدید زخمی ہو گئے۔ ابھی تک کسی گروپ نے دھماکوں کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔ ایسے افسوسناک واقعات رونما ہوتے رہے تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے اور ایک بار پھر ڈیڈ لاک پیدا ہو سکتا ہے۔ خبر کے مطابق جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے طالبان نے اپنے تمام گروپوں کوکارروائیاں کرنے سے روک دیا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر کون گروہ بدامنی پھیلانے کے لیے بم دھماکے کر رہے ہیں' اس کا منظر عام پر آنا نہایت ناگزیر ہے۔ طالبان پر بھی لازم آتا ہے کہ وہ خلوص نیت اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان گروہوں کی نشاندہی کرنے میں حکومت کی مدد کریں جو حملے کر کے مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے سرگرم ہیں تاکہ حکومت ان گروہوں کے خلاف کارروائی کر کے امن و امان کی صورتحال بہتر بنا سکے۔ اگر یہ گروہ اسی طرح نا معلوم رہتے ہوئے کارروائیاں کرتے رہے تو لامحالہ اس کا الزام طالبان ہی پر عائد ہوتا رہے گا اور مذاکرات کے عمل میں رکاوٹیں پیدا ہوتی رہیں گی۔ اب جب طالبان کے جنگ بندی کے اعلان پر حکومت نے بھی مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے اور مولانا سمیع الحق کے مطابق دونوں مذاکراتی کمیٹیوں کا اجلاس آیندہ ایک دو روز میں متوقع ہے تو امید ہے کہ فریقین مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے سنجیدگی سے آگے بڑھیں گے اور یہ عارضی جنگ بندی مستقل امن اور استحکام میں تبدیل ہو جائے گی۔
تحریک طالبان پاکستان نے ایک ماہ کے لیے جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے۔ تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مذاکراتی عمل میں پیدا شدہ ڈیڈ لاک کے خاتمے اور جنگ بندی کے لیے ہماری طرف سے اپنی مذاکراتی کمیٹی کو دی گئی تجاویز کا حکومت کی طرف سے مثبت جواب دیا گیا ہے اور ان تجاویز پر عملدرآمد کی پر اعتماد یقین دہانی کرائی جا چکی ہے' لہٰذا تحریک طالبان پاکستان' اکابر علماء کرام کی اپیل پر' طالبان کمیٹی کے احترام' اسلام اور ملک کے بہتر مفاد میں ایک مہینے کے لیے جنگ بندی کا اعلان کرتی ہے۔ طالبان کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان خوش آیند ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں یہ امید پیدا ہو رہی ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکراتی عمل میں جو ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا تھا وہ جلد ہی ختم ہو جائے گا اور مذاکرات کے عمل میں مثبت جانب پیشرفت ہو گی۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار' حکومتی کمیٹی کے سربراہ عرفان صدیقی اور طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے طالبان کے اعلان جنگ بندی کا خیر مقدم کیا ہے۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اور جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی اسے مثبت قدم قرار دیا ہے۔ حکومت نے بعض سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مطالبے پر طالبان سے مذاکرات کے لیے عرفان صدیقی' میجر(ر) عامر' رستم شاہ مہمند اور رحیم اللہ یوسف زئی پر مشتمل چار رکنی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس موقعے پر وزیراعظم میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ شدت پسندوں کو مذاکرات کے لیے ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں۔ جواب میں طالبان نے بھی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی اور دونوں کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات کا دور شروع ہوا۔ اس دوران امن منافی چند ناخوشگوار واقعات بھی رونما ہوئے مگر مذاکرات کا عمل رواں رہا جس سے یہ امید پیدا ہونے لگی کہ مذاکرات کا عمل درست سمت آگے بڑھ رہا ہے جو نتیجہ خیز ہو گا اور ملک میں جاری بدامنی کے واقعات ختم ہونے سے امن و امان کی فضا قائم ہو گی۔
اسی دوران 16 فروری کو طالبان نے 23 مغوی ایف سی اہلکاروں کو شہید کرنے کا دعویٰ کر دیا' ان کے اس دعوے نے جلتی پر تیل کا کام کیا، حکومت کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا اور مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار ہو گئے۔ طالبان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیکس کا عمل شروع کر دیا گیا۔ اب طالبان نے اعلان جنگ بندی کرتے ہوئے ڈیڈ لاک کو ختم کرنے اور امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے مگر یہ اعلان جنگ بندی صرف ایک ماہ کے لیے ہے اس میں توسیع یا مستقل ہونے کا کوئی تاثر نہیں دیا گیا۔ جنگ بندی کے اعلان کا حکومت' اپوزیشن ارکان اور طالبان مذاکراتی کمیٹی کی جانب سے خیر مقدم اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ تمام حلقے اس مسئلے کو آپریشن کے بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے خواہاں ہے۔ طالبان نے جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے کوئی شرائط عائد نہیں کیں جب کہ اس سے قبل گزشتہ ماہ تحریک طالبان پاکستان نے جنگ بندی پر مشروط آمادگی ظاہر کی تھی۔ طالبان اگر پہلے ہی جنگ بندی کا اعلان کر دیتے تو اس کے زیادہ خوشگوار اثرات مرتب ہوتے اور اب تک مذاکرات کا عمل بہت آگے بڑھ چکا ہوتا۔ بہرحال دیر آید درست آید اب بھی مذاکرات کے عمل کو خلوص نیت سے آگے بڑھایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوں۔ مگر اس کے لیے ناگزیر ہے کہ اس دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔
ہفتے کو جمرود میں انسداد پولیو ٹیم پر یکے بعد دیگرے تین بم حملوں میں سیکیورٹی پر مامور خاصہ دار اور لیویز فورسز کے بارہ اہلکاروں سمیت تیرہ افراد جاں بحق اور دس شدید زخمی ہو گئے۔ ابھی تک کسی گروپ نے دھماکوں کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔ ایسے افسوسناک واقعات رونما ہوتے رہے تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے اور ایک بار پھر ڈیڈ لاک پیدا ہو سکتا ہے۔ خبر کے مطابق جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے طالبان نے اپنے تمام گروپوں کوکارروائیاں کرنے سے روک دیا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر کون گروہ بدامنی پھیلانے کے لیے بم دھماکے کر رہے ہیں' اس کا منظر عام پر آنا نہایت ناگزیر ہے۔ طالبان پر بھی لازم آتا ہے کہ وہ خلوص نیت اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان گروہوں کی نشاندہی کرنے میں حکومت کی مدد کریں جو حملے کر کے مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے سرگرم ہیں تاکہ حکومت ان گروہوں کے خلاف کارروائی کر کے امن و امان کی صورتحال بہتر بنا سکے۔ اگر یہ گروہ اسی طرح نا معلوم رہتے ہوئے کارروائیاں کرتے رہے تو لامحالہ اس کا الزام طالبان ہی پر عائد ہوتا رہے گا اور مذاکرات کے عمل میں رکاوٹیں پیدا ہوتی رہیں گی۔ اب جب طالبان کے جنگ بندی کے اعلان پر حکومت نے بھی مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے اور مولانا سمیع الحق کے مطابق دونوں مذاکراتی کمیٹیوں کا اجلاس آیندہ ایک دو روز میں متوقع ہے تو امید ہے کہ فریقین مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے سنجیدگی سے آگے بڑھیں گے اور یہ عارضی جنگ بندی مستقل امن اور استحکام میں تبدیل ہو جائے گی۔