ماضی کے دریچوں سے

سیاست اور حکمرانی کے حوالے سے کیے گئے فیصلوں کے اثرات بھی کم و بیش 30 برس بعد ہی نمودار ہونا شروع ہوتے ہیں

muqtidakhan@hotmail.com

ISLAMABAD:
بزرگوں کا کہنا ہے کہ املی کا پودا درخت بن کر پھل دینے میں 30 برس لگاتا ہے۔ سیاست اور حکمرانی کے حوالے سے کیے گئے فیصلوں کے اثرات بھی کم و بیش 30 برس بعد ہی نمودار ہونا شروع ہوتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ کسی ریاست کی ترقی یا تنزلی کا مطالعہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا، جب تک کہ اس کے ماضی کے فیصلوں کو نہ کھنگالا جائے۔ آج پاکستان جن مسائل و مصائب سے دوچار ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جو ہمالیہ سے بھی بلند ہوتے جا رہے ہیں، ان کی جڑیں بھی ماضی کے غلط فیصلوں اور متضاد حکمت عملیوں میں پیوست ملیں گی۔ پاکستان کو درپیش ان گنت مسائل کا اصل سبب گورننس کا بحران ہے۔ اس بحران کے پیدا ہونے کے کئی اسباب ہیں۔ خاص طور پر تقسیمِ ہند کا یقین ہو جانے کے بعد بھی پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ کی صفوں میں نئی ریاست کے منطقی جواز کے بارے میں موجود ابہام رہا۔ جس کی وجہ سے وہ کوئی واضح لائحہ عمل ترتیب دینے میں ناکام رہی۔ دوسری طرف وراثت میں ملنے والی بیوروکریسی کی متضاد نوعیت کی ترجیحات تھیں۔

قیام پاکستان سے چند ماہ قبل سیاسی میدان میں بانی پاکستان محمد علی جناح (جو پہلے ہی مقبول تھے) کے علاوہ آل انڈیا مسلم لیگ کے کئی رہنما طاقتور سیاسی شخصیت کے طور پر سامنے آئے۔ مگر ان سب میں فکری ہم آہنگی کا فقدان تھا۔ دوسری طرف جن بیوروکریٹس نے پاکستان کے لیے آپٹ کیا، ان میں چوہدری محمد علی ایک طاقتور اور با اختیار بیوروکریٹ کے طور پر ابھر کر سامنے آئے تھے۔ چوہدری محمد علی کو برطانوی ہند کے ایک با اعتماد افسر ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ وہ پہلے ہندوستانی بیوروکریٹ تھے جنھیں 1946 میں وزارت خزانہ میں مکمل سیکریٹری تعینات کیا گیا تھا۔ قائداعظم کے علاوہ لیاقت علی خان بھی ان کی اہلیت کے نہ صرف معترف تھے، بلکہ خاصی حد تک متاثر بھی تھے، اسی لیے قیام پاکستان سے چند ماہ قبل قائد نے انھیں نئے ملک کا سیکریٹری جنرل نامزد کرتے ہوئے مسلمان بیوروکریٹس کی پاکستان کے لیے خدمات حاصل کرنے کے لیے انھیں رابطہ کار بھی مقرر کر دیا تھا۔ لیکن چوہدری محمد علی جو اپنی سرشت میں ایک متلون مزاج شخصیت کے مالک تھے، وہ ایک طرف انگریز کے انتہائی وفادار افسر ہونے کے ساتھ ایک مخصوص مسلک سے بھی گہری وابستگی رکھتے تھے، اس کے علاوہ ان کے اپنے سیاسی و انتظامی عزائم بھی تھے۔

پاکستان اپنے قیام کے وقت سے آج تک جن مسائل سے دوچار ہے، ان میں بحیثیت انتظامی سربراہ چوہدری محمد علی کے بعض فیصلوں اور اقدامات کا کلیدی کردار ہے، خاص طور پر پاکستان آج جن فکری تضادات اور نسلی و لسانی عصبیتوں کا شکار ہے، انھیں جنم دینے میں چوہدری محمد علی کی زیر قیادت بعض سینئر بیوروکریٹس کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں ان گنت تحاریر موجود ہیں، خاص طور پر چوہدری خلیق الزماں کی سوانح Pathway to Pakistan، ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کی سوانح ''گردِ راہ''، سید ہاشم رضا کی ''ہماری منزل''، مسرت حسین زبیری کی "Voyage into History" اور شہاب الدین رحمت اﷲ کی سوانح ''شہاب بیتی'' چوہدری محمد علی کی شخصیت، ان کے کردار اور عزائم کے علاوہ ملک کو درپیش مسائل کو سمجھنے میں خاصی مدد ملتی ہے ۔


بحیثیت سیکریٹری جنرل جب انھیں اپنی تقرری کا یقین ہو گیا، تو انھوں نے من مانیوں کا آغاز کر دیا۔ اس سلسلے کا پہلا واقعہ قیام پاکستان کے سرکاری اعلان سے تین روز قبل دستور ساز اسمبلی میں قائداعظم کی تقریر کا سنسر کیا جانا ہے، جو ان کے ایما پر کیا گیا تھا لیکن جب انگریزی روزنامہ ڈان کے بنگالی ایڈیٹر الطاف حسین نے اس پر شدید احتجاج کیا، تو اس وقت کے سیکریٹری اطلاعات نے صرف ڈان کو یہ تقریر شایع کرنے کی اجازت دیدی، جس پر چوہدری محمد علی خاصے سیخ پا ہوئے۔ ان میں موجود لسانی تعصب کا یہ عالم تھا کہ وہ مشرقی پاکستان سمیت دیگر صوبوں کو پاکستان کی نوآبادیات سمجھتے تھے۔ ان کے حکم پر سابقہ مشرقی پاکستان کے اخبارات کو سرکاری خبریں ایک روز تاخیر سے فراہم کی جاتی تھیں، کیونکہ وہ بنگالی صحافیوں سے خائف رہتے تھے۔ اس کے علاوہ اپنے حامی بیوروکریٹس کے ذریعے مغربی پاکستان کے بعض صحافیوں کو استعمال کر کے بنگالی صحافیوں کے خلاف امتیازی سلوک کی ابتدا کی۔ اس کے علاوہ وہ انتظامیہ میں بھی میرٹ کے بجائے من پسند افسران کی اعلیٰ اور کلیدی عہدوں پر تقرری کرتے۔ اس سلسلے میں اقربا پروری اور لسانی عصبیتوں کی کئی کہانیاں موجود ہیں۔ بنگالی افسران کے علاوہ ہجرت کر کے آئے ہوئے بیوروکریٹس کو بھی تضحیک و تحقیر کا نشانہ بناتے تھے۔

انھوں نے اپنے محسنین یعنی بانی پاکستان اور لیاقت علی خان کے درمیان عدم اعتمادی کی دیوار کھڑی کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا، جس کی مثال یہ ہے کہ انھوں نے وزیراعظم لیاقت علی خان کو اعتماد میں لیے بغیر بالا ہی بالا قائداعظم کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ ملک غلام محمد کو ملک کا پہلا وزیر خزانہ مقرر کر دیں۔ اس سلسلے میں چوہدری خلیق الزمان نے لکھا ہے کہ قائداعظم نے ایک صبح دس بجے وزیر اعظم کو گورنر جنرل ہائوس طلب کیا۔ وہاں پہنچنے پر انھیں معلوم ہوا کہ ملک غلام محمد کو ان کی کابینہ میں وزیر خزانہ مقرر کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ جمہوری اقدار کے مطابق وزیر اعظم اپنے کابینہ کے افراد کا خود انتخاب کرتا ہے اور گورنر جنرل (یا صدر) ان سے حلف لیتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ بانی پاکستان ملک کو ایک جدید جمہوری ملک بنانے کی خواہش رکھتے ہیں، انھوں نے مولانا شبیر احمد عثمانی کو قرارداد مقاصد تیار کر کے دستور ساز اسمبلی میں پیش کرنے پر اکسایا۔ قائد کے انتقال کے بعد قراردادِ مقاصد کو دستور ساز اسمبلی سے منظور کرنے میں بھی چوہدری محمد علی کا کلیدی کردار تھا۔ انھی کے ایما پر قرارداد کا مسودہ ملتان جیل میں نظر بند ایک مذہبی رہنما تک بھجوایا گیا تا کہ اس کی نوک پلک مزید بہتر بنائی جا سکے۔ اس کے علاوہ ان تمام مذہبی جماعتوں اور شخصیات کو پاکستان میں آنے کی خفیہ طور پر دعوت دی اور انھیں پاکستان میں سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کے مواقع فراہم کیے، جو 13 اگست 1947 تک قیام پاکستان کی شدید مخالف تھیں اور بانی پاکستان کے لیے انتہائی نازیبا کلمات ادا کرتی رہی تھیں۔

1955 میں پیرٹی کا جو اصول وضع کیا گیا تھا اس کا مقصد بنیادی طور پر بنگالیوں کی عددی اکثریت کو کم کرنا اور مغربی حصے کی چھوٹی قومیتوں کو ان کے جمہوری حق سے محروم کرنا تھا۔ یہ اصول چوہدری محمد علی اور ان کے ہم خیال بیوروکریٹس کے ذہن کی پیداوار تھا۔ بعض تجزیہ نگار اس عمل کی ذمے داری جاگیرداروں پر عائد کرتے ہیں، جو کہ غلط ہے۔ یہ منصوبہ خالصتاً بیوروکریسی اور ابھرتے ہوئے سرمایہ دار طبقہ کی ذہنی اختراع تھی۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ مغربی پاکستان کے فیوڈل سیاستدانوں کی اکثریت نے ون یونٹ کے قیام کی مخالفت کی تھی۔ اس لیے اس عمل میں ان کی شرکت اور انھیں موردِ الزام ٹھہرانا تاریخ کے ساتھ کھلا مذاق ہے۔ چوہدری محمد علی کی زیر سرپرستی دیگر بیوروکریٹس نے بنگال اور دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے افسران اور اہلکاروں کے ساتھ امتیازی سلوک قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی شروع کر دیا تھا۔ جس عصبیت اور امتیازی سلوک کا جو بیج چوہدری محمد علی نے قیام پاکستان کے وقت بویا تھا، وہ آج تناور درخت بن چکا ہے اور اس کی شاخیں ملک کے ہر شعبہ تک پھیل چکی ہیں۔

پاکستان آج مختلف نوعیت کی جن عصبیتوں اور نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم کا شکار ہے، اس کی ذمے داری کسی حد تک سیاسی قیادت پر ضرور آتی ہے، لیکن اسے پروان چڑھانے میں اصل کردار سول اور ملٹری بیوروکریسی نے ادا کیا۔ اسی طرح میرٹ کا گلا گھونٹنے کی جس روایت کا آغاز بیوروکریسی نے پاکستان کے ابتدائی دنوں ہی میں کر دیا تھا، آج اس عصبیت کا زہر ریاستی انتظامی اداروں سے باہر نکل کر زندگی کے ہر شعبے میں پھیل چکا ہے۔ یہ وہ عذاب ہیں جو پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ مگر نہ کسی سیاسی جماعت میں اتنا عزم و حوصلہ ہے کہ وہ اس ملک کو اس عذاب سے نجات دلا سکے اور نہ ہی دانشوروں میں اتنی بصیرت کہ وہ ان معاملات و مسائل کی نشاندہی کر سکیں۔ نتیجتاً یہ مسائل تیزی کے ساتھ بڑھ کر پیچیدہ ہو رہے ہیں اور قومی یکجہتی کے لیے کینسر سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے جا رہے ہیں۔
Load Next Story