توہین مذہب مقدمات ٹھوس شواہد کے بغیر پی ٹی آئی قیادت کےخلاف مقدمہ درج نہ کیا جائے عدالتی فیصلہ
حکومت مذہبی جذبات کے غلط استعمال کے مبینہ تاثر کو زائل کرنے کے لیے اقدامات کرے گی، تحریری حکمنامہ
کراچی:
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی قیادت کے خلاف توہین مذہب کیسز کے تحریری حکم میں کہا ہے کہ حکومت یقینی بنائے کہ پی ٹی آئی قیادت کے واقعہ میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد کے بغیر مقدمہ درج نا ہو۔
عدالت نے مشال خان اور سری لنکن شہری کے بہیمانہ قتل کی مثال دیتے ریمارکس دیے کہ اس طرح کے قتل بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور آئین کے تحت چلنے والے معاشرے میں ناقابل برداشت ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 5 صفحات پر مشتمل تحریری حکمنامے میں کہا گیا کہ امید ہے وفاقی حکومت مذہبی جذبات کے غلط استعمال کے مبینہ تاثر کو زائل کرنے کے لیے اقدامات کرے گی، آئی جی اسلام آباد یقینی بنائیں کہ سعودی عرب واقعہ سے متعلق کوئی غلط مقدمہ درج نہ کیا جائے۔
عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ درخواست گزار کے مطابق عمران خان اور پی ٹی آئی قیادت کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی جا رہی ہیں، درخواست گزار کے مطابق سعودی عرب واقعے کے مقدمات سیاسی طور پر پاکستان میں درج کیے جا رہے ہیں، تسلیم شدہ ہے کہ جہاں وقوعہ ہوا تحریک انصاف کی قیادت وہاں موجود نہ تھی۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ اس بات سے انکار نہیں کیا گیا کہ سعودی حکام نے واقعہ میں ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے، سعودی حکام نے حکومت پاکستان کو پی ٹی آئی قیادت کو مشتبہ قرار دینے کی کوئی اطلاع نہیں دی، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ یقینی بنائے کوئی سیاسی یا ذاتی مفاد کیلئے مذہب کا استعمال نہ کر سکے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ماضی میں ریاستی عناصر کی جانب سے مذہب کے غلط استعمال نے لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالیں، مذہب کی بنیاد پر غلط مقدمات سے پیدا ہونے والا ماحول عدم برداشت اور ماورائےعدالت قتل کا باعث بنا.
عدالت نے کہاکہ مشال خان اور سری لنکن شہری کے بہیمانہ قتل اس کی ایک مثال ہیں،اس طرح کے قتل بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور آئین کے تحت چلنے والے معاشرے میں ناقابل برداشت ہیں،مذہب یا مذہبی جذبات کا ذاتی یا سیاسی مفادات کے لیے استعمال خود سے توہین مذہب ہے۔