فکری اساس

نظریہ وہ واحد طاقت ہےجسکی بدولت آپ بہت کم اسباب زندگی کےباوجودبڑےسےبڑےفیصلےاورکسی بھی حدتک کی قربانی سےدریغ نہیں کرتے

raomanzar@hotmail.com

نظریہ وہ واحد طاقت ہے جس کی بدولت آپ بہت کم اسباب زندگی کے باوجود بڑے سے بڑے فیصلے اور کسی بھی حد تک کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔ آپ دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں، ہر عظیم کارنامے کی بنیاد نظریے پر جا کر ٹھہرے گی۔ دنیا میں تمام بڑے اور محیرالعقول کارناموں کی بنیاد صرف اور صرف نظریہ ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اس موضوع پر مزید گزارش کروں، میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں تاریخ اسلام کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں۔ میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے بچپن سے لے کر اب تک مذہبی تعصب کا ایک سایہ بھی نزدیک یا دور سے نہیں دیکھا۔ بچپن میں دس محرم کے روز ہمارے بزرگوں کا حکم ہوتا تھا کہ اہل تشیع کے جلوس کے لیے دودھ اور شربت کی سبییلیں لگائیں۔ کیڈٹ کالج حسن ابدال اور میڈیکل کالج میں آج تک اپنے روم میٹ تک سے اُس کا فرقہ دریافت نہیں کیا اور نہ اس بنیاد پر کسی سے دوستی یا دشمنی کی۔ سول سروس کی عملی زندگی میں بلکہ اب تک بالکل یہی حال ہے۔

آپ یقین فرمائیے کہ جس عالم دین نے مجھ جیسے نا چیز کو قرآن پاک پڑھایا، مجھے نہیں پتہ کہ وہ بریلوی تھے یا اہل سنت والجماعت۔ میں نے قرآن پاک کا ایک حصہ جس عالم دین کے سامنے حفظ کیا، مجھے انھوں نے کبھی بھی فرقہ پرستی کی تعلیم نہیں دی۔ یہ صرف میرا نہیں، کچھ دہائیاں پہلے ہر طالب علم اور نوجوان کا یہی حال تھا۔ تمام فرقہ کے لوگ آپس میں آرام سے رہتے تھے۔ ہماری تعلیمی درسگاہوں میں غیر مسلم طالب علم بھی بڑی تعداد میں پڑھ رہے تھے مگر کبھی بھی ان کو کسی ناخوشگوار واقعہ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ آج بھی مجھے صرف یہ علم ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ مجھے اپنے فرقہ کا قطعاً علم نہیں۔ نہ ہی میں نے کبھی اس کا تجسس کیا۔ میں تمام مذہبی اکابرین کا دل سے احترام کرتا ہوں۔ میں صوفیاء کا معتقد ہوں۔ میں قوالیاں جذب سے سنتا ہوں۔ میں محرم کے دس دنوں کا دلی طور پر احترام کرتا ہوں۔ میں دین کی کسی فروعی بحث کا حصہ نہیں بنتا۔ میں اپنے ارد گرد جن لوگوں کو جانتا ہوں، ان میں سے اکثریت میرے جیسی ہے۔

کوئی بھی فکر دو طرح کے دھاروں سے نمو پاتی ہے۔ مذہب یا غیر مذہب۔ لادین نظریہ اس وقت کرہ ارض پر اربوں لوگوں نے اپنایا ہوا ہے اور یہی صورت حال مذہب کی بھی ہے۔ آپ مار کسزم کی مثال لیجیے۔ داس کیپیٹل پر نظر ڈالیے۔ آپ سوشلسٹ فلسفہ پر نظر دوڑائیے۔ چین کی اقتصادی کامیابی کو دیکھیے۔ آپ ہوچی مونہہ کی آزادی کی جنگ دیکھ لیجیے۔ یہ تمام اپنی اپنی جگہ مکمل کامیابیوں کی مثالیں ہیں۔ انقلاب فرانس بھی آپ کو اقتصادی نظریہ سے متاثر نظر آئے گا۔ قرآن مجید اور سیرت طیبہ ہمارے لیے زندگی کے ہر معاملہ میں رشد و ہدایت کے سرچشمہ ہیں۔ آقاؐ نے اپنی زندگیِ مبارکہ میں مسلمانوں میں اتحاد، محبت اور یگانگت کی تلقین کی۔ لیکن آپ کے وصال کے بعد صورتحال بڑی تیزی سے تبدیل ہونے لگی۔ اسلام حجاز سے باہر پھیلا اور دنیا کی بڑی بڑی سلطنتیں اسلام کے سامنے سرنگوں ہو گئیں۔ اسلام آپ کو ہر فکر، ہر نظریہ اور ہر تحریک سے بالاتر ملے گا۔ یہ اپنی طرز کا مکمل انقلاب تھا۔ یہ عمل اور ایمان کا ایک مجموعہ ہے جسکی مثال کہیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ آقاؐؐ کی زندگی کا ایک ایک پَل عمل کی ایک مثال تھی۔ میثاق مدینہ اور حجۃ الوداع کا خطبہ آج تک ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔

حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمانؓ غنی کے زمانے میں خوارج کا کوئی وجود نہیں تھا۔ مگر جنگ صفین کے دوران ایک گروہ نے "لَا حُکمُُ اِلَااللہ" یعنی خدا کے سوا کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں، کا نعرہ بلند ہوا۔ یہ خوارجین کی ابتداء تھی۔ ان کا عقیدہ تھا کہ دینی معاملات میں انسان کو ثالت بنانا کفر ہے اور جو لوگ بھی ایسے فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں، وہ تمام کافر اور واجب القتل ہیں۔ اس کے بعد جنگ نہردان ہوئی جس میں خوارجین کو شکست ہوئی اور تقریباً چار ہزار خوارجین اس جنگ میں کام آئے۔ خلافت بنو اُمیہ اور خلافت بنی عباس میں خوارجین مختلف علاقوں میں موجود رہے اور حکومت وقت کے ساتھ کسی نہ کسی صورت میں بر سر بیکار بھی رہے۔

امام حنبل نے قرآن اور حدیث کی تعلیم کے لیے زندگی وقف کر دی تھی۔ آپ نے امام ابو یوسف سے استفادہ کیا۔ اَل شافی سے اسلامی قوانین کے متعلق فیض یاب ہوئے۔ مامون بادشاہ کے سامنے انھوں نے ''معتزلہ'' خیالات کو ماننے سے مکمل انکار کر دیا۔ قید کی تکالیف برداشت کیں۔ کوڑے کھائے۔ مگر اسلامی فکر کو قرآن اور حدیث کے زاویے کے علاوہ کسی اور طرح دیکھنے سے انکار کر دیا۔ امام حنبل سے اسلامی فکر کا ایک مختلف باب شروع ہوتا ہے۔ آپ نے اصولِ سنت، السنت، کتابِ ایمان اور دیگر بیش قیمت کتابیں تصنیف کیں۔


ساتویں صدی ہجری میں ابن تیمیہ وہ مسلمان مفکر تھے جنہون نے اس تمام معاملہ کو ایک مذہبی سند دی۔ مگر اُس سے پہلے آپ کو اس دور کے مسلمانوں کے حالات کا ادارک ہونا چاہیے۔ عباسی خلافت کے بعد مسلمانوں میں کوئی بھی مرکزی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ بدعت، قبر پرستی، شخصیت پرستی اور توہمات، دین کی بنیاد پر اثر انداز ہو رہے تھے۔ قرآن اور حدیث کی بہت عجیب و غریب تاویلیں ہو رہی تھیں۔علماء میں مناظرے عام تھے۔ مناظرہ میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا دین کی خدمت کا ایک ذریعہ سمجھنا جانے لگا تھا۔ رہی سہی کسر تاتاریوں کے ہاتھوں کروڑوں بے گناہوں کے خون نے نکال دی تھی۔ تاتاریوں کے سامنے متعدد سلطنتیں صفحہ ہستی سے مٹ چکی تھیں۔ ان حالات میں ابن تیمیہ نے علم اور تحقیق کی رُو سے بیش قیمت خیالات کا اظہار کیا۔ انھوں نے تقریباً پانچ سو کتابیں لکھیں۔ ان میں سیاسی تصانیف بھی شامل ہیں۔ ''الامۃ و السیاست'' اور ''السیاستہ الشعرعیہ فی صلاح الراعی والرعایاـ'' شہرہ آفاق تصانیف تھیں۔ اختصار کے ساتھ عرض کروں تو ان کا بنیادی نقطہ صرف ایک تھا کہ قرآن اور حدیث پر کامل طریقے سے عمل کرنا چاہیے اور اس کے علاوہ کوئی اور چیز قابل عمل نہیں ہے۔ وہ قرآنی آیات کی کسی قسم کی تاویل کے قائل نہیں تھے۔

ابنِ تیمیہ نے پوری زندگی کسی ضعیف حدیث پر تکیہ نہیں کیا۔ ان کی کوشش رہی کہ وہ صحاح ستہ کی احادیث تک ہی خود کو محدود رکھیں۔ وہ محض دوستی یا قرابت کی بنیاد پر کسی شخص کے تقرر کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ وہ شرعی حدود کے اجراء میں کسی لیت و لعل کے قائل نہیں۔ ان کے نزدیک دین اور سیاست لازم و ملزوم ہیں۔ ان کی رائے میں سیاست کا مقصد تقرب الی اللہ اور اقامت دین ہے۔ وہ عمال حکومت کو دین کے نزدیک دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ سلطنت کو دین اور دین کو حکومت کی پشت پناہی سے عاری نہیں ہونا چاہیے۔ وہ لفظی اور عملی جہاد کے زبردست داعی ہیں۔ ابن تیمیہ نے تاتاریوں کے خلاف جہاد پر بہت زور دیا۔ اُس وقت تک تاتاری مسلمان ہو چکے تھے۔ ہلاکو خان کے بیٹے خازان کے سامنے ان کا استدلال بہت موثر تھا۔ مگر ایک نکتہ پر آ کر انھوں نے تاتاریوں کے ساتھ عملی جہاد کو جائز قرار دیا۔ ان کا استدلال تھا کہ اگرچہ وہ مسلمان ہیں۔ لیکن وہ اپنے فیصلے اپنے روایتی قانون ''یساء''کے مطابق کرتے ہیں اور شریعت کو اپنے فیصلوں کی بنیاد نہیں بناتے لہٰذا ان کے خلاف جہاد کرنا اور ان کو قتل کرنا بالکل جائز ہے۔

اٹھارویں صدی میں دین کو اُس کی اصل شکل میں سامنے لانے کی بھر پور کوشش جناب محمد ابن وہاب کی تھی۔ کتاب التوحید میں ان کے خیالات وضاحت سے موجود ہیں۔ وہ اپنی فکر میں امام حبنل اور ابن تیمیہ سے متاثر تھے۔ سعودی عرب کے حکمران خاندان پر ان کا اثر غیر معمولی ہے۔ میں اس موضوع سے انصاف نہیں کر سکتا کیونکہ مجھے اختصار سے لکھنا ہے۔ پاکستان میں افغان جہاد کی بنیاد پر طالبان وجود میں آئے۔ ان کی تاریخ سے سب واقف ہیں اور اس پر قطعاً دو رائے نہیں ہیں۔ ان کی فکر ذہن اور سوچ سے بھی تمام لوگ واقف ہیں۔ طالبان کا جہاد سوویت یونین کے خلاف صرف اُس صورت میں کامیاب ہوا جب امریکی سینٹر، چارلی ولسن نے امریکی صدر کو قائل کیا کہ مجاہدین کو امریکی مدد اور اسلحہ ملنا چاہیے۔ بہر حال اب طالبان کا ایک بہت بڑا گروہ پاکستان کی حکومت اور ریاست سے بر سر پیکار ہے۔ مطالبہ وہی صدیوں پُرانا ہے اور سند اور استدلال بھی صدیوں پرانا۔ یعنی قرآن اور شریعت کا مکمل نفاذ۔

مگر ایک چیز کا ادراک ضروری ہے۔ وہ یہ کہ پاکستان کسی جنگ یا جہاد کے زور پر وجود میں نہیں آیا۔ سر سید سے لے کر فکر اقبالؔ اور پھر قائد اعظم کی سیاسی جدوجہد، وہ بے مثال کارنامے ہیں جسکی بدولت مسلمانوں کو ایک آزاد ملک ملا۔ ہم کتنے آزاد ہیں، یہ ایک الگ اور طویل بحث ہے۔ مگر پاکستان ووٹ کی طاقت سے معرض وجود میں آیا۔ اس پر بھی کوئی بحث نہیں کہ قائد چاہتے تھے کہ مسلمان اپنے مذہب، ثقافت، تہذیب اور معاشی مستقبل کو محفوظ کرتے ہوئے اسلامی اصولوں پر مبنی ایک معاشرہ قائم کریں۔ میں سیکولر اور مذہبی پاکستان کی بحث میں بھی نہیں پڑنا چاہتا۔

طالبان کے ایک گروہ کی نظر میں اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے اگر مسلمانوں کا خون ہوتا ہے تو وہ اس کو قطعاً بے جا نہیں سمجھتے۔ جب ان کے حامی علماء یہ فرماتے ہیں کہ آئین پاکستان کی کوئی حیثیت نہیں، تو مجھے بالکل حیرت نہیں ہوتی۔ یہ بیان ان کی ذہنی ساخت کی نمایندگی کرتا ہے۔ صدیوں کی گرہیں اب ہم نے کھولنی ہیں۔ کیا ہمارے پاس وہ فہم و فراست ہے ۔ کیا یہ سادہ سا معاملہ ہے کہ وقتی لشکر کشی سے ختم ہو جائے گا! کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے اس علمی بنیاد پر نظر دوڑانا ضروری ہے جو طالبان کے ذہن کی آبیاری کرتی ہے! میری نظر میں یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے اگر ہم طالبان کی فکری اساس پر مرکوز ہو جائیں! اُس کے بعد ہر رستہ کھل سکتا ہے؟
Load Next Story