احمد رضا قصوری کے سرپرائز
احمد رضا قصوری آج کل خبروں میں خاصے IN ہیں، اور سرپرائز پہ سرپرائز دے رہے ہیں
احمد رضا قصوری آج کل خبروں میں خاصے IN ہیں، اور سرپرائز پہ سرپرائز دے رہے ہیں ، تو مجھے بہت پہلے کے دو ایک سرپرائز یاد آرہے ہیں۔ پہلا سرپرائز 1968 کا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو، صدر ایوب خان سے مکمل علیحدگی اختیار کرچکے تھے اور عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہے تھے، مگر فیلڈ مارشل ایوب خان کی ہیبت اور جلال موجود تھا۔ ملک بھر کے بڑے بڑے سیاستدان بدستور چپ سادھے ہوئے تھے۔ پیپلزپارٹی کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ احمد رضا قصوری پارٹی کے بانی ارکان میں شامل تھے۔ نوجوان اور جوشیلے مقرر ہونے کی حیثیت سے ان کی خاصی شہرت تھی۔ ان ہی دنوں پیپلز پارٹی کے لوگوں نے یہ پروگرام بنایا کہ بھٹو صاحب بذریعہ ریل گاڑی لاہور آئیں جہاں ان کا زبردست استقبال کیا جائے۔ مگر پیپلز پارٹی والوں کو کوئی بھی ایسا مضبوط بندہ نہیں مل رہا تھا کہ جو لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر ذوالفقار علی بھٹو کو ریسیو کرسکے۔ لاہور میں بڑے نامور سیاستدان موجود تھے۔ مگر فیلڈ مارشل کے خوف کی وجہ سے کوئی بھی ذوالفقار علی بھٹو کے لیے خود کو پیش کرنے پر تیار نہیں تھا۔ احمد رضا قصوری اور ان کے ساتھ کچھ اور نوجوان پارٹی کارکن دن رات اسی کوشش میں سرگرداں تھے کہ کوئی اہم شخصیت مل جائے جو لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر بھٹو صاحب کا استقبال کرے۔ احمد رضا قصوری اپنے ساتھیوں کے ساتھ اسی سوچ بچار میں مصروف تھے کہ اچانک انھوں نے اپنے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور کھڑے ہوگئے۔
وہ کہہ رہے تھے ''مل گیا، مل گیا'' ان کے ساتھیوں نے پوچھا کہ ''کون مل گیا؟'' قصوری صاحب اپنی نشست پر بیٹھ چکے تھے اور ساتھیوں سے کہہ رہے تھے ''یارو! بندہ تو بڑا زبردست ہے، مگر اﷲ کرے وہ مان جائے'' ساتھیوں نے پھر پوچھا ''کون ہے وہ بندہ؟'' تو احمد رضا قصوری نے کہا ''حبیب جالب''۔ حبیب جالب کا نام سن کر سب ہی بہت خوش نظر آرہے تھے۔ حبیب جالب اپنی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کی گائیڈ لائن کے مطابق عوامی افق پر ابھرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کو بڑھاوا دے رہے تھے۔ بھٹو صاحب کے لیے انھوں نے ایک نظم بھی لکھ ڈالی تھی ''چھوڑ کے نہ جا''۔ یہ نظم 1966 میں لکھی گئی تھی۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ فیلڈ مارشل صاحب ''ناراض بھٹو'' سے چاہ رہے تھے کہ وہ کنونشن مسلم لیگ اور حکومت کے خلاف کوئی بیان دیے بغیر Long Leave پر سوئٹزرلینڈ چلے جائیں۔ جالب صاحب نے اس حکومتی سازش کا بھانڈا پھوڑ دیا اور نظم لکھ ڈالی۔ یہ نظم اس زمانے کے سب سے بڑے حکومت مخالف اخبار ''نوائے وقت'' کے پورے عقبی صفحے (Back Page) پر جلی حروف میں شایع ہوئی اور دو چار آنے قیمت والا اخبار پانچ روپے میں بھی خریدا گیا۔ یہ بھی دہراتا چلوں کہ جب بھٹو صاحب پہلی بار حبیب جالب سے اپنی خواہش پر ملنے کافی ہاؤس لاہور آئے اور دوران ملاقات ''چھوڑ کے نہ جا'' نظم سنانے کی فرمائش کی تو جالب صاحب نے انکار کرتے ہوئے کہا ''آپ کے لیے کہی ہوئی نظم آپ کو سنانا سراسر خوشامد ہوگی جو میری فطرت کے خلاف ہے''۔
خیر یہ واقعہ تو درمیان میں آگیا۔ اب واپس احمد رضا قصوری صاحب کی طرف چلتا ہوں۔ وہ اور ان کے ساتھی جالب صاحب کے گھر گئے اور ان سے کہا کہ ''بھٹو صاحب بذریعہ ٹرین لاہور آ رہے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ آپ ان کا استقبال کریں'' اور وقت نے دیکھا کہ جو لوگ ایوبی آمریت کے خوف سے اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے وہ وہیں بیٹھے رہے اور بھٹو صاحب کے استقبال کے لیے حبیب جالب لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر موجود تھا۔ یہ اور بات کہ جب بھٹو کے اچھے دن آئے تو گھروں میں دبکے لوگ بھٹو صاحب کے ساتھ ہو لیے اور جالب عوام کے ساتھ کھڑا رہا۔ اپنے کردار پر جالب کو ناز تھا، اس نے کہا:
ہر عہد میں رہا ہوں میں لوگوں کے درمیاں
میری مثال دے کوئی میرا جواب لا
یہ 1968 کا واقعہ تھا۔ جس کے محرک احمد رضا قصوری تھے۔ عین دو سال بعد یعنی 1970 میں ایک اور بڑا واقعہ ہوا۔ اس میں بھی احمد رضا قصوری کا ذکر موجود ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ نیشنل عوامی پارٹی پنجاب کے صدر بیرسٹر میاں محمود علی قصوری، بھٹو صاحب کے بھی وکیل تھے، یوں بھٹو صاحب اکثر میاں صاحب سے ملنے ان کی کوٹھی آتے رہتے تھے۔ ایسا ہی ایک دن تھا اور جالب صاحب میاں کی کوٹھی ٹمپل روڈ عقب لاہور ہائی کورٹ پہنچے تو خلاف معمول وہاں بڑا مجمع دیکھا۔ پتا چلا کہ بھٹو صاحب آئے ہوئے ہیں۔ جالب صاحب کوٹھی میں داخل ہوئے تو لان میں بھی کافی لوگ جمع تھے۔ جالب صاحب کو دیکھ کر لان میں بیٹھے احمد رضا قصوری نے بلند آواز میں وقت کا بہت بڑا ''سرپرائز'' دیتے ہوئے کہا ''جالب صاحب! میاں صاحب تو پیپلز پارٹی میں آگئے! اب آپ کب آ رہے ہیں؟'' احمد رضا قصوری کا ''سرپرائز'' سن کر جالب صاحب کے تن بہ دن میں آگ سی لگ گئی اور وہ غصے میں احمد رضا قصوری کی طرف بڑھے۔ ''کیا کہہ رہے ہو؟'' جالب صاحب غضب ناک ہو رہے تھے۔
جالب صاحب کی آواز سن کر میاں محمود علی قصوری اپنے کمرے سے باہر آئے اور جالب صاحب کو پکڑ کر اندر کمرے میں لے گئے۔ کمرے میں ذوالفقار علی بھٹو بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ میاں صاحب نے بھٹو صاحب سے کہا ''بھٹو صاحب! حبیب جالب نیشنل عوامی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن ہیں، ان کے لیے قومی اسمبلی کا ٹکٹ ہونا چاہیے'' میاں صاحب کی بات سن کر بھٹو صاحب بولے ''میاں صاحب! جالب میرا دوست ہے، میں اس کے جلسوں میں تقریریں کروں گا، انھیں مرکزی وزیر بناؤں گا اور۔۔۔'' جالب صاحب نے بھٹو صاحب کی طرف ہاتھ کے اشارے سے انھیں بولنے سے منع کرتے ہوئے کہا ''مگر جناب! میں تو آپ کی پارٹی میں نہیں آرہا'' جالب کا انکار سن کر ''بھٹو صاحب دیکھتے ہی رہ گئے اور اٹھ کر دوسرے کمرے میں یہ کہتے ہوئے چلے گئے "Ok Discus with Mr. Kasuri" اور پھر میاں محمود علی قصوری صاحب نے جالب صاحب کو پیپلز پارٹی میں لانے کے لیے کیا کیا جتن کیے۔
مگر جالب کا انھیں ایک ہی جواب تھا ''میاں صاحب! کبھی سمندر بھی دریا میں گرے ہیں؟'' اور جالب صاحب اپنی نیشنل عوامی پارٹی (سمندر) چھوڑ کر پیپلز پارٹی (دریا) میں شامل نہیں ہوئے بلکہ لاہور کے صوبائی اسمبلی کے حلقے گڑھی شاہو سے پیپلز پارٹی کے خلاف الیکشن میں حصہ لیا۔ جالب کی پارٹی کا انتخابی نشان جھونپڑی تھا۔ مگر علاقے کے جھونپڑی نشین تیز ہوا کے ساتھ بہہ گئے اس وقت کے اخبار آزاد نے دو کالمی سرخی لگائی ''شاعر ہار گیا، سیاست جیت گئی'' یہ سرخی ایکسپریس کے چیف ایڈیٹر مرحوم عباس اطہر صاحب نے بنائی تھی جو اس وقت آئی اے رحمان حمید اختر کے اخبار آزاد میں شامل تھے۔ غرض کہ احمد رضا قصوری نے جالب صاحب کو میاں محمود علی قصوری کا پیپلز پارٹی میں شمولیت کا سرپرائز دیا۔ اور جالب نے اپنی پارٹی چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل نہ ہونے کا بہت بڑا سرپرائز ''وقت'' کو دیا۔