عزت کا معیار

ماں کی ممتا کسی شک و شبہے و ملاوٹ سے پاک ہوتی ہے۔ ایک رائے ہے کہ ماں کو بھی اپنا کمائو پوت پسند ہوتا ہے


[email protected]

بھارت سے ماموں کے ایک دوست آئے تھے جو ہمارے رشتے دار بھی تھے۔ وہ بڑے امیر کبیر تھے۔ ماموں ان کی دولت و حشمت کے تذکرے کرتے رہتے تھے۔ ایک شادی میں ان ہندوستانی امیر کو دیکھنے کا موقع بھی مل گیا۔ ماموں بھی اس تقریب میں موجود تھے۔ وہ ہمیں ان کے گروپ آف انڈسٹریز کی ترقی کے قصے سنا رہے تھے۔ کسی کی عزت صرف اس لیے کی جائے کہ وہ دولت مند ہے؟ یہ بہت بڑا سوال تھا۔ ماموں خود بھی امیر کبیر نہ تھے جب کہ ان کے سسر بھی سفید پوش لیکن انتہائی سمجھ دار اور سلجھے ہوئے انسان تھے۔ ان کی ان خوبیوں اور سماجی خدمات کے سبب انھیں برادری کا صدر منتخب کیا گیا تھا۔ ایک طرف ماموں کے کزن کی دولت تھی تو دوسری طرف ان کے سسر کی سفید پوشی۔ ماموں کی جانب سے اپنے رشتے داروں کی شان و شوکت کے تذکرے تھمنے کا نام نہ لے رہے تھے تو اب با ادب ہوکر کچھ عرض کرنا پڑا۔ ان سے پوچھا کہ آپ کے ان انڈین کزن کی عزت بطور ایک غیر ملکی مہمان کے ضرور کی جائے گی۔

ہم ضرور چاہیں گے کہ پاکستان کے بارے میں وہ اچھا تاثر لے کر جائیں۔ کوئی غریب ہندوستانی بھی ہمارے ملک میں آتا ہے تو ہم دوسروں سے بڑھ کر اس کا استقبال کرتے ہیں۔ یہی صورت حال بھارت میں ہوتی ہے، جب پاکستانی وہاں جاتے ہیں۔ اب اس بھارتی مہمان کی عزت صرف اس لیے کیوں کرلی جائے کہ وہ ایک خوش حال شخصیت ہیں۔ سرحد کے اس پار سے جب بھی کوئی دورہ کرتا ہے تو میزبان بڑھ چڑھ کر اپنے پڑوسی ملک سے آنے والے کا سواگت کرتا ہے۔ اگلا سوال ماموں سے یہ تھا کہ اگر کسی کی عزت صرف اس لیے کی جائے کہ وہ امیر کبیر ہے تو پھر آپ کے سسر ہماری برادری کے صدر کیوں ہیں؟ ہم نے ان کی عزت افزائی صرف اس لیے کی ہے کہ وہ ایک دیانت دار اور سمجھ دار شخصیت کے مالک ہیں۔ اس بات نے واضح کردیا کہ ہمیں کسی کی عزت صرف اس بنیاد پر نہیں کرنی چاہیے کہ اس کا بینک بیلنس زیادہ ہے، جب ماموں کے سسر کو صدر بنانے کی بات کی تو وہ انکار کررہے تھے۔ بطور جنرل سیکریٹری جانتا تھا کہ ان کی سربراہی کی ہمیں ضرورت ہے۔ انکار کا سبب دولت کی کمی تھی۔

افسوس یہ ہے کہ سماجی تنظیموں میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے والے زیادہ تر امرا ہوتے ہیں، بعض اوقات بٹوا ضرور بھرا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن ذہنی طور پر ان کی اکثریت قلاش ہوتی ہے۔ بزرگوار کا کہنا تھا کہ میں لوگوں سے فنڈ کس طرح طلب کروں گا؟ جب صدر خود کچھ زیادہ دینے کی پوزیشن میں نہ ہو تو ممبران سے کیا تقاضا کرے۔ بیس سال قبل کے الفاظ آج تک یاد ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ ایک سرمایہ دار بطور تنظیم کے سربراہ کے پچاس ہزار یا لاکھ روپے دیتا ہے۔ چوںکہ وہ برادری کے امیر ترین آدمیوں میں ہوتا ہے تو اس جیسے خوش حال لوگ بھی رقمیں دیا کرتے ہیں۔ وہ اپنے سے کم تر امیروں پر بھی دبائو ڈال کر فنڈ جمع کرلیتے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ جب میں پانچ سو یا ہزار روپے دوںگا تو لاکھوں کس طرح اکٹھے کرسکوںگا۔ دو لوگوں کے کئی برسوں کے وقفے میں ادا کیے گئے مکالمے یاد آرہے ہیں۔ ماموں اور ان کے سسر کی باتیں مختلف انداز کی تھیں لیکن راقم کی رائے یہی تھی کہ اگر ہم کسی کی عزت صرف اس کے سرمائے کی بدولت کریںگے تو پھر ہم کسی غریب کی عزت نہیں کریںگے، غریب چاہے وہ شریف، سمجھ دار، سلجھا ہوا، ایمان دار، محب وطن، متقی اور پڑھا لکھا کیوں نہ ہو۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ اگر سڑک پر کوئی کار چلانے والا اسکوٹر سوار، پیدل اور سائیکل چلانے والے پر دھونس جمائے گا تو ضرور پھر وہ ٹرک، ٹرالر اور بسوں سے ڈر جائے گا۔ اپنے سے غریب کو اپنی دولت سے ڈرانے والا اپنے سے امیر سے خوف زدہ اور مرعوب ہی رہے گا۔

میاں بیوی کی علیحدگی ہوچکی تھی۔ سسر نے داماد کی شکایت کی کہ وہ بڑا لا پرواہ ہے، وہ بیمار بچی کو اسپتال میں چھوڑ کر چلا گیا۔ خلع کا مقدمہ اس طرح دائر کیا گیا تھا کہ وہ لڑکا بڑا ظالم و جابر محسوس ہورہا تھا۔ جب وہ ملاقات کے لیے آیا تو پتہ چلا کہ اب وہ بے روزگار ہوچکا ہے۔ منگنی اور شادی کے موقع پر اس کی بڑی اچھی جاب تھی۔ کمپنی کا کام زبردست چل رہا تھا لیکن پھر پارٹنرز کے اختلافات کے سبب وہ فرم بند ہوگئی۔ جاب نہ ہونے کے سبب وہ شخص بکھر گیا تھا۔ جب اس سے پوچھا کہ بیمار بچی کو اسپتال میں چھوڑ کر چلے جانے کا کیا سبب تھا؟ اس نے جواب دیا کہ بیوی اپنے میکے میں تھی، جب بچی کی طبیعت خراب ہوگئی۔ مجھے فون آیا کہ ہم شہر کے سب سے بڑے اسپتال میں پہنچ رہے ہیں۔ میرے سسر اس وقت دفتر میں تھے اور بیگم اپنے چھوٹے بھائی اور ماں کے ساتھ اسپتال پہنچی تھی۔ اب جب تک ہزاروں روپے جمع نہ کرواتے کوئی ڈاکٹر بچی کو نہ دیکھتا۔ میری جیب میں اس وقت بہ مشکل چند سو روپے تھے۔ میں اسپتال کے قریب ہوٹل میں موبائل فون بند کرکے بیٹھا ہوا تھا بلکہ رورہا تھا۔ جب دو گھنٹے بعد پہنچا تو میرے سسر بھی آچکے تھے اور بچی کو ڈرپ لگ رہی تھی۔ اس واقعے میں بھی اٹھائیس برس کا شادی شدہ اور بال بچے والا شخص اس لیے بڑا بن رہا تھا کہ حالات نے اسے بے روزگار کردیا تھا۔ ستم یہ تھا کہ معاشرہ تو معاشرہ اس کے اپنے سسرالی رشتے دار اس کا درد محسوس نہیں کررہے تھے۔

بھارت جانے کا موقع ملا تو ایک گھر میں مہمان ٹھہرے۔ ان کی دو بیٹیاں تھیں۔ دونوں اپنے شوہر اور بچوں سمیت ہم سے ملنے آئیں۔ ایک صاحب جلد رخصت ہوگئے اور دوسرے بڑی دیر تک بیٹھے رہے۔ انھوں نے ہمیں ہوٹل میں کھانے اور فلم دیکھنے کی دعوت دی۔ ممبئی میں ''دہلی دربار'' کا کھانا اور پھر ایک آرٹ فلم۔ عثمان صاحب بھارتی سیاست پر عمدہ گفتگو کرتے تھے۔ بعد میں علم ہوا کہ وہ نہرو خاندان کے حامی ہیں۔ جب دونوں ملکوں کی سیاست کا تذکرہ ہوا تو ذکر اندرا گاندھی کے زمانے تک چلا گیا۔ ان کے قتل سے پہلے خدشہ تھا کہ کہیں پاک بھارت جنگ نہ چھڑ جائے۔ جب کہا کہ اس قتل سے کم از کم جنگ کا خطرہ ٹل گیا تو ان کے چہرے پر ناگواری سی محسوس ہوئی۔ یوں علم ہوا کہ وہ اندرا گاندھی کے پرستار ہیں۔ عثمان صاحب کی ساس بھی اپنے بڑے داماد کی پرستار نکلیں۔ انھیں اپنے چھوٹے داماد رشید سے شکایت تھی کہ وہ بڑا شرمیلا ہے اور کسی سے ملتا نہیں ہے۔ جب چند دن اور ممبئی، اندھیری اور باندرا کی گلیوں میں گھومنے پھرنے کا موقع ملا تو دوسرے داماد سے بھی ملاقات ہوئی۔ خود آگے بڑھ کر اسے کہاکہ چائے پیتے ہیں۔ ایک ہوٹل میں آدھے گھنٹے گفتگو سے پتہ چلا کہ رشید کسی طرح عثمان سے کم نہیں۔ بس صرف بینک بیلنس کی کمی اسے آگے بڑھ کر ایسے کاموں سے روکتی ہے جس میں پیسے خرچ ہوتے ہوں۔ اب وہ سسرالی مہمانوں کو کسی بڑے ہوٹل میں کھانا کھلاسکتا ہے نہ گھر بلاسکتا ہے اور نہ کوئی فلم دکھاسکتا ہے۔ دوسرا داماد یہ سب کر گزرتا تھا تو سسرال کی نظر میں اچھا بنا ہوا تھا۔ اس سے پوچھا کہ تم کم کیوں بولتے ہو تو اس نے دانشورانہ انداز سے جواب دیا کہ ''انسان نہیں بولتا بلکہ اس کا پیسہ بولتا ہے''

ماں کی ممتا کسی شک و شبہے و ملاوٹ سے پاک ہوتی ہے۔ ایک رائے ہے کہ ماں کو بھی اپنا کمائو پوت پسند ہوتا ہے۔ شاید وہ بچوں کے بچپن سے جان جاتی ہے کہ کون اس کی کمزوری اور بڑھاپے میں پیسے کماکر لاسکتا ہے۔ تمام بچوں سے محبت کے باوجود اس کی ترجیح وہ ''شکاری'' بیٹا ہوتا ہے۔ یہ ہمارے ساتھی ایڈووکیٹ کی رائے ہے اور اس میں یقیناً بیوی بچے بھی شامل ہیں۔ بھائی بہن یا سسرال میں کسی کی شادی ہوتی ہے۔ آگے بڑھ کر کام کرنے والے کی بڑی عزت ہوتی ہے۔ جب پیچھے رہ جانے والے سے پوچھا کہ وہ سستی کیوں دکھارہا ہے، کتنے زیادہ کام ہوتے ہیں، شادی والے گھر میں؟ اس کا کہنا تھا کہ کیسے کام؟ ہال کی بکنگ یا کیٹرنگ یا کھانا پکانے یا دولہا دلہن کے لیے سجی سجائی گاڑی کا انتظام۔ سب مقامات پر پیسے لگتے ہیں۔ بے شک بعد میں ادائیگی ہوجاتی ہے لیکن شروع میں تو رقم کا ہونا لازمی ہے۔ صرف بات چیت اور بھاگ دوڑ سے یہاں بات نہیں بنتی۔ جب ابتدا میں غریب بیٹا یا داماد پیچھے رہ جاتاہے تو پھر پیچھے ہی رہتا ہے۔ وہ مہمانوں کی آمد پر دعوت والے دن بڑھ چڑھ کر کام کرتا ہے جس میں پیسے خرچ نہیں ہوتے اور الزام لگتا ہے کہ دکھاوا کررہا ہے۔ میدان عمل میں نکلنے والے اور کمانے کے لیے گھر سے باہر آنے والے کیا ہوتے ہیں؟ کیا وہ ''شکاری'' ہوتے ہیں اور رشتے دار گھر والے دیکھتے ہیں کہ کون ہمارے لیے زیادہ شکار کرکے لاتا ہے؟ معاشرہ خلوص، محبت، تعلیم، پرہیز گاری، شرافت کو معیار بنائے گا یا دولت ہی ہوگی ہمارے لیے کسوٹی اور عزت کا معیار؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں